ڈیوڈ بین گوریان کو صہیونیت ورثے میں ملی، اس کا باپ ایویگڈر گرون (Avigdor Gron) اس گروہ میں شامل تھا، جنہوں نے عالمی صہیونی تحریک کے "پروٹوکولز" تحریر کیئے تھے۔ ڈیوڈ بین گوریان 1906ء میں ہی اس وقت جافہ میں جاکر آباد ہو گیا تھا، جب روس میں یہودیوں کے خلاف نفرت کا آغاز ہوا تھا۔ اسرائیل کے قیام تک وہ وہاں آباد ہونے والے یہودیوں کو فوجی انداز میں منظم کرتا رہا۔ یہی شخص تھا جس نے 14مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کے اعلان کی دستاویز پر دستخط کئیے اور اسے متفقہ طور پر بلا مقابلہ اسرائیل کا وزیر اعظم چنا گیا۔ اسرائیل کی ریاست کے قیام کے فوراً بعد ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں اس نے لوگوں کو اس وقت حیران کر دیا، جب ہر یہودی گھر سے مسلح افراد برآمد ہونے لگے، جنہیں اس نے تربیت دی تھی۔ یہ شخص اپنی موت تک اسرائیلی ریاست اور صہیونی تحریک کے لئے واحد مسلمہ رہنما رہا اور موت کے بعد بھی آج تک اس کی پالیسیاں اسرائیل کی ریاست کے لئیے مشعل راہ ہیں۔
اسی شخص ڈیوڈ بین گوریان نے 14مئی 1948ء کو وزیراعظم بنتے ہی قائداعظمؒ کو ایک ٹیلیگرام بھیجا تاکہ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا جا سکے۔ قائداعظمؒ جو پہلے ہی اسرائیل کو یورپ کی ناجائز اولاد کہہ چکے تھے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ عرب اسرائیل جنگ جو اسرائیلی قیام کے ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی، پاکستان نے چیکوسلاویکیاسے دو لاکھ پچاس ہزار بندوقیں خریدیں اور لڑنے والے عربوں کو سپلائی کیں، اور اس کے علاوہ اٹلی سے چار فوجی طیارے خرید کر مصر کو مہیا کئے۔ امریکی آرکائیوز سے ملنے والی ان معلومات کی بنیاد پر یہ تفصیل "موشے ییگر" (Moshe Yegar)نے اپنے مضمون میں لکھی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں تھی، مگر پھر بھی قائداعظمؒ نے اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عربوں کو مکمل مدد فراہم کی۔ اس کے بعد دوسری عرب اسرائیل جنگ جو 1967ء میں ہوئی، پاکستان نے اسرائیل سے لڑنے کے لئیے اپنے چھ فائٹر پائلٹ بھیجے، جن میں سے ایک پاکستانی پائلٹ "سیف الاعظم" کو چار اسرائیلی طیارے مار گرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
1973ء کی جنگ میں پاکستان نے فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس جنگ میں مصر نے حیران کن فتح حاصل کی تھی اور دنیا کی سب سے مضبوط اسرائیلی دفاعی لائن "بار لیو" (Bar Lav) لائنکو خاک میں ملا دیا تھا۔ اس کے بعد 1982ء میں جب اسرائیل لبنان میں داخل ہوا تو لاتعداد پاکستانی اس سے لڑنے کے لئیے گئے جن میں سے پچاس پاکستانیوں کو اسرائیل نے گرفتار بھی کیا۔ اسرائیل سے آخری جنگ 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہوئی، جس میں حزب اللہ کے صرف 70لوگ شہید ہوئے لیکن حزب اللہ کے حملوں نے اسرائیل کا مضبوط ترین ائیر ڈیفنس سسٹم ریت کا گھروندہ ثابت کردیا۔ وہ ڈیفنس سسٹم جس کی تمنا امریکی پینٹاگون بھی کرتا تھا۔ تل ابیب سمیت اسرائیل کے چار شہر خوف کے مارے خالی کر دئیے گئے اور اسرائیلی وزیراعظم "ایہود اولمرٹ" نے پارلیمنٹ میں اپنی شکست کا اعتراف کیا۔
دنیا بھر کے لکھاری جن میں پاکستان کے کچھ "جہالت کے پہاڑ" بھی شامل ہیں، اسرائیل کو پتہ نہیں کس کے ایماء پر بہت بڑا ہوّا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اب تک ہونے والی چار جنگوں میں اسرائیل نے صرف 1967ء کی ایک جنگ جیتی ہے۔ پہلی جنگ 1948ء میں ہوئی، اردن نے برطانوی زیر تسلط مغربی کنارے پر چند دن میں ہی قبضہ کر لیا تھا۔ تیسری جنگ میں مصر نے اسرائیلی دفاعی لائن کا غرور خاک میں ملا دیا تھا اور اپنا علاقہ بھی واپس لے لیا تھا اور چوتھی جنگ میں حزب اللہ نے اسے بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔ جس ملک کا سائز اتنا ہو کہ اس کے ساحل سمندر پر دس چھوٹے جہاز بھی کھڑے ہو جائیں تو وہ دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ جس کی اپنی کوئی فضائی حدود نہیں ہے بلکہ وہ مشقوں کے لئیے ترکی کی فضائی حدود استعمال کرتا ہے۔ جہاں یہ قول زبان زدعام ہو کہ اگر چند عرب بازاروں میں بندوقوں سمیت نکل آئیں تو سارا شہر اپنے گھروں میں بنائے ہوئے تہہ خانوں میں گھس جاتا ہے۔ اس ملک کو قائم، برقرار اور زندہ صرف اور صرف عرب ممالک کی منافقت نے رکھا ہوا ہے اور وہ صرف ان نام نہاد دانشوروں کے دلوں میں دھڑکتا ہے۔
پاکستان اور اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کا "خفیہ" آغاز قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کی طرف سے ہوا۔ اس بات کا انکشاف امریکی آرکائیوز میں وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل رافیل (G. Rafael)کے 16 جنوری 1953ء کو لکھے گئے ایک نوٹ سے ہوتا ہے کہ 14جنوری 1953ء کو سرظفر اللہ اور امریکہ میں اسرائیلی سفیر ابا ایبان (Abba Eban)کی ملاقات کروائی گئی، جس میں ظفر اللہ نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو تو اسرائیل سے کوئی نفرت نہیں ہے اور وہ اسے مڈل ایسٹ کا ایک اہم حصہ سمجھتی ہے، مگر حکومت مذہبی طبقے سے بہت خوفزدہ ہے۔ اس نے اسرائیل اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں رابطوں اور وفود کے تبادلوں کا بھی وعدہ کیا۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے عرب علماء کے وفود سے ملاقات کے دوران اسرائیل کو ناسور قرار دیا تھا اور اس کے بعد اگلے وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے کولمبو کی ایشیائی ممالک کی کانفرنس میں اسرائیل کے خلاف تقریر کی تھی۔ ظفراللہ بھی پاکستانیوں کے سامنے ویسا ہی بیان دے رہا تھا، لیکن اندرون خانہ اس منافقت کا وہی عالم تھا جو آج کے سیکولر، لبرل دانشوروں اور "شہرت کے حصول کے دیوانے" قلم کاروں کا ہے کہ جن کا طریق کار یہ ہے کہ بغیر کسی دلیل کے شوشے چھوڑ کر گالیاں کھائی جائیں تاکہ "ریٹنگ" بہتر ہو۔ قادیانی وزیرخارجہ ظفر اللہ کے بعد حکومتی سطح پر رابطہ 1998ء میں نوازشریف نے کیا جب اس نے اسرائیلی وزیراعظم کو ایک خفیہ خط تحریر کیا کہ ہم اپنی ایٹمی صلاحیت ایران کو نہیں دیں گے۔ مشرف کے دور میں بہت پیش رفت ہوئی اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ میں ملاقات بھی ہوئی۔
لیکن اسی دوران یہی اسرائیل بھارت کے بہترین دوستوں کی صورت سامنے آیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم "مناخم بیگن" نے 12 اپریل 1981ء کو امریکی سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، عرب ریاستوں سے کہے کہ وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کروائیں۔ یہ حقیقت بھی اب دنیا کے سامنے واضح ہو چکی ہے کہ 1980ء اور 1988ء میں دو دفعہ اسرائیلی فائٹر جیٹ کہوٹہ پر حملہ کرنے پہنچ چکے تھے تاکہ عراق کے "آپریشن اوپرا" کی طرح حملہ کیا جائے۔ ان دونوں حملوں اور بھارت اسرائیل منصوبوں کی تفصیل دو برطانوی مصنفین "آرڈن لیوی" (Ardin Lavy) اور "کیتھرین کلارک" (Cathrine Clark) نے اپنی کتاب میں بتائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیلی جہاز ہر دفعہ پرواز کیلئے تیار تھے لیکن بھارت کے اعلیٰ حکام نے یہ کہہ کر منصوبہ مسترد کر دیا کہ اسرائیل کا کچھ نہیں بگڑے گا، لیکن اس کے بعد ہم پاکستان سے جنگ میں کود پڑیں گے۔
سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور علاقائی اعتبار سے یہ آج تک کی مختصر تاریخ ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو خود امریکی امداد پر پلتا ہے۔ 1985ء لے کر اب تک امریکہ اس کو 3ارب ڈالر سالانہ امداد اور 8ارب ڈالر کے دیگر فوائد دیتا ہے۔ اب تک امریکہ اسرائیل کو 142.3ارب ڈالر نقد امداد دے چکا ہے۔ وہ اسرائیل جس کی دفاعی بارلیو لائن کو 1973ء میں انوار السادات کی فوج تباہ کر دیتی ہے اور جس کا ائرڈیفنس سسٹم 2006ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ جو پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت کا دوست ہی نہیں، پاکستان مخالفت میں برابر کا شریک بھی ہے۔ ایسے اسرائیل سے میرے ملک کا بزدل اور مادہ پرست دانشور ہمیں مسلسل ڈراتا اور خوفزدہ کرتا ہے۔ میرے ملک کے یہ دانشور، جو قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرویز مشرف کے دور میں خاصے پھلے پھولے تھے، آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں لکھتے ہیں مگر اسکا ایک فائدہ بھی نہیں گنوا سکتے۔ ہمیں کہا جاتا ہے، ملکوں کو اپنا معاشی مفاد دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ میرا ان حضرات سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا یہ اپنے گھر کے سارے فیصلے صرف اور صرف دنیاوی، معاشی اور مادی فائدہ ذہن میں رکھ کر کرتے ہیں۔ کیا وہ اپنے گھر میں دولت، امن اور سکون لانے کیلئے دین، غیرت، عزت، خاندان اور وقار سب کا سودا کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اپنے گھر کے فیصلوں میں غیرت کی پگڑی سر پر باندھتے ہو اور خاندانی حمیت کی چودھراہٹ کا خیال رکھتے ہو تو پھر اللہ، اس کے رسولؐ اور قومی حمیت کے سامنے ذلیل و رسوا کرنے کے لئے پاکستانی قوم ہی رہ گئی ہے جس کو ایسے بے غیرتی کے مشورے دئیے جاتے ہیں۔ (ختم شد)