مولانا الطاف حسین حالیؔ ان سوانح نگاروں میں سے ہیں جن کے بارے میں تمام اہل علم متفق ہیں کہ انہوں نے جب بھی کسی شخصیت کی زندگی کے بارے میں تحریر کیا، ہمیشہ اس کے محاسن اور خوبیوں کا ہی تذکرہ کیا اور اس کی کمزوریوں، کوتاہیوں اور خامیوں کا ذکر کرنے سے اجتناب کیا۔ علامہ اقبال کے بعد اگر کسی ایک شخصیت کو پڑھنے کا مجھے انتخاب کرنا پڑے تو میرے لیے کوئی مشکل نہ ہوگی کہ اردو شعرو نثر کی تاریخ میں حالیؔ جیسا تناور درخت جہالت کی دھوپ میں سائبان کی طرح موجود ہے۔ اردو غزل نے جو رعنائی اور حسن و جمال حالیؔ کے ہاں پایا، جو شگفتگی اور نرمی ان کے اشعار میں موجود ہے شایدہی کسی اور کے ہاں پائی جاتی ہو۔ حالی نے لڑکیوں کی تربیت کے لیے ایک کتاب "مجالس النسائ" بھی لکھی ہے جو برسوں ہمارے نصاب کا حصہ رہی ہے۔ حالیؔ کی "مسدس" مسلمانوں کی تایخ اور مدوجزر کی ایک ایسی درد ناک داستان ہے کہ اس کے اشعار آپ کو ولولوں سے سرشار بھی کرتے ہیں اور کرب سے آنکھوں کو اشکبار بھی۔ اسی "مسدس" میں حالیؔ جب سید الانبیاء ﷺ کی آمد کا تذکرہ کرتے ہیں تو بظاہر وہ تاریخ بیان کررہے ہوتے ہیں، مگر وہ تمام اشعار ایک ایسی نعت کا روپ دھار لیتے ہیں کہ اردو ادب میں اس نعت کی کوئی مثیل نہیں
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
الطاف حسین حالیؔ ان عظیم ہستیوں میں سے تھے، جنہوں نے سرسیداحمد خان کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ سرسید نے علی گڑھ کے قیام سے بہت پہلے "تہذیب الاخلاق" میں تحریر کیا تھا، " مولوی خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی مثنویوں نے تو ہمارے دلوں کے حال کو بدل دیا ہے"۔ سرسید نے کہا تھا، "قیامت میں جب اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ "تو کیا اعمال لایا"، تو میں کہوں گا کہ حالیؔ سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں "۔ حالیؔ خود سرسید کے بہت مداح تھے اور مسلمانوں کے لئیے ان کے دردِ دل کی قدر کرتے تھے۔ انہوں نے سرسید احمد خان کے انتقال کے بعد ان کی سوانح عمری، " حیاتِ جاوید" کے نام سے تحریر کی ہے۔ وہ حالیؔ جو کبھی کسی کے کام کی تنقیص نہیں کرتے تھے۔ جنہوں نے ہمیشہ دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کی تعریف و توصیف ہی کی ہو، اور سرسید سے تو وہ بہت محبت کرتے تھے، ان کے جذبے سے عقیدت بھی رکھتے تھے، لیکن وہی حالیؔ جب سرسید کے قائم کردہ "علی گڑھ" پر تبصرہ کرتے ہیں تو ان میں امتِ مسلمہ کے اقدار کی سربلندی و سرفرازی کا جذبہ، سرسید کی شخصیت کے محاسن بیان کرنے پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ اس نظام تعلیم پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔
جس دور میں سرسید کی یہ سوانح عمری تحریر کی گئی، اسوقت تک علی گڑھ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی نسلیں ہندوستان کی عملی زندگی میں قدم رکھ چکی تھیں اور حالیؔ کو سرسید احمد خان کے "تعلیمی کارنامے" کی خوبیوں اور خامیوں کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ تعریف و توصیف کرنے والے حالیؔ کا قلم، سرسید کے علی گڑھ تعلیمی نظام کے بارے میں تحریر کرتا ہے کہ "جدید تعلیم کے نتیجے میں ہندو، مسلمان اور عیسائی کے دل میں مذہب کی وقعت باقی نہیں رہتی۔ ان کے عقیدے، نبوت اور معاد بلکہ الوہیت کی طرف سے بھی متزلزل ہو جاتے ہیں۔ انہیں (سرسید) کو معلوم تھا کہ مغربی علوم اور مغربی لٹریچر کی بدولت اکثر ممالکِ یورپ میں روز بروز دہریت اور الحاد پھیلتا جارہا ہے"۔ علی گڑھ کی سیکولر تعلیم کے بارے میں حالیؔ اسی کتاب میں ایک اور جگہ تحریر کرتے ہیں، "ایک خطرہ خاص کر مذہبِ اسلام کو انگریزی تعلیم کی طرف سے تھا جو روز بروز ہندوستان میں پھیلتی جاتی تھی، جس سے مفر نہ تھا، یہاں تک کہ سرسید کو خود ان میـں یہ تعلیم پھیلانی پڑی، حالانکہ انگریزی تعلیم کے نتائج اسلام کے حق میں مشنریوں کی پریچنگ سے بہت زیادہ اندیشہ ناک تھے"۔ مغربی تعلیم پر الطاف حسین حالیؔ کے سوسال پہلے کہے گئے یہ الفاظ آج حرف بحرف سچ ثابت ہورہے ہیں۔
علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ لوگ انگریز سرکار کی نوکریوں کیلئے انتہائی کارآمد ثابت ہوئے اور انڈین سول سروس میں مسلمانوں کا جتنا بھی وجود تھا وہ اسی یونیورسٹی کی مرہونِ منت تھا۔ لیکن سیکولر علم کے پروردہ ان افراد کی اکثریت اسلامی اصولوں پر مبنی ایک صالح مسلم معاشرے کے قائل نہیں تھی بلکہ جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے ایک مادی طور پر ترقی یافتہ معاشرے کے خواب دیکھتی تھی۔ اس طرح کے معاشرے اس وقت یورپ میں تخلیق ہو رہے تھے۔ ان معاشروں میں مذہب کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور معاشی، اقتصادی اور سائنسی ترقی کی حیثیت اولین ترجیح بن جاتی ہے۔ جدید تعلیم کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب سب سے پہلے اجتماعی زندگی سے نکلا اور پھر آہستہ آہستہ ذاتی زندگی سے بھی کوچ کرگیا۔ آج سے دوسوسال پہلے مغرب کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ جدید سیکولر نظامِ تعلیم ایک دن ان کی ذاتی زندگیوں سے بھی نہ صرف مذہب کو نکال کر باہر پھینکے گا، بلکہ سیکولرازم خود ایک مذہب بن کر ذاتی اور اجتماعی دونوں زندگیوں کو کنٹرول کرنے لگے گا۔
جدید سیکولر معاشرے میں "سیکولر مذہب" کے بتدریج نفاذ کی اہم ترین مثال یہ ہے کہ سو سال پہلے جب سیکولرازم کا نفاذ ہوا تو شادی یا ازدواجی زندگی انسان کا ذاتی فعل قرار دیا گیا کیونکہ اس سے انسانی زندگی کے لاتعداد ذاتی و مذہبی اصول وابستہ تھے، جن میں وراثت، بچوں کی نشوونما اور نگرانی اور بوڑھوں کی نگہداشت وغیرہ شامل تھے۔ ان تمام امور کیلئے تمام انسان اپنی ذاتی زندگی میں مذہب سے رہنمائی لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا کے ہر ملک میں آج سے صرف پچاس سال قبل تک "پرسنل لائ" کے نام سے مسلم، عیسائی، ہندو اور یہودی پرسنل لاء جیسے قوانینرائج تھے۔ لیکن جدید سیکولر لبرل تعلیم و تربیت کے نتیجہ سے آہستہ آہستہ جنم لینے والے "سیکولر مذہب" نے اب دنیا کے اکثر ملکوں سے آسمانی مذاہب کو ذاتی زندگی سے متعلق قوانین سے آہستہ آہستہ خارج کردیا ہے اور آج ان کی جگہ "سیکولر، لبرل مذہب" کا پرسنل لایا "پرسنل کوڈ" نافذ ہو چکا ہے۔
اس نئے مذہبی پرسنل کوڈ کے مطابق آپ پیدائشی طور پر کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، سیکولر پرسنل لا کے تحت کسی مذہبی قانون کی پروا کیے بغیر، مرد اور مرد یا عورت اور عورت آپس میں شادی کرسکتے ہیں، بغیر شادی کے زندگی (Living Together) گذارسکتے ہیں، اپنی جائیداد اپنے پالتو کتے یا بلّی کے نام وصیت کر سکتے ہیں، اپنے بوڑھے ماں باپ کو گھر سے دھکے مار کر نکال سکتے ہیں، اولڈ ایج ہوم میں پھینک سکتے ہیں، اپنے بچوں کو کسی رفاحی ادارے کے سپرد کرکے خود نئے پارٹنر کے ساتھ آزاد و خودمختار زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں، آپ بار بار طلاق دے کر بار بار شادی کر سکتے ہیں، غرض ہر وہ قانون جو مذہب کے پرسنل لاء کے تحت آپ کی ذاتی زندگی میں نافذ العمل ہوتا تھا، اب اس کی جگہ "سیکولر پرسنل کوڈ" نافذ ہو چکا ہے۔ تمام مذاہب کے اندر جتنے بھی اخلاقی جرائم تھے، سیکولر طرز زندگی میں وہ اب جدید طرزتہذیب بن چکے ہیں اور قدیم روایت سے بغاوت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مقدس رشتوں سے جنسی تعلقات یا غیر فطری فعل کو فقط مذہب کا شکنجہ توڑنے کے لیے خوشنما بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ڈیڑھ سو سال قبل جس سیکولر لبرل نظام تعلیم کا آغاز ہوا تھا، اس نے کس قدر خاموشی سے اپنے زیراثر تمام معاشروں کو آج ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں قانون کی کتابوں سے تمام آسمانی مذاہب خارج ہو چکے ہیں اور دنیاپر صرف اور صرف ایک ہی زمینی مذہب یعنی سیکولر مذہب کا راج مسلط ہو چکا ہے۔ ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جاتا ہے۔ آپ یورپ میں ہم جنس پرستی کی شادی کے خلاف زبان کھولیں، غیر فطری جنسی تعلقات پر بات کریں، مقدس رشتوں کی پامالی کے خلاف گفتگو کریں تو آپ پر نفرت انگیز گفتگو کرنے کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔ آپ کو سزا ہو سکتی ہے، آپ غیر مہذب قرار دئیے جا سکتے ہیں۔