سرمایہ دارانہ سودی معیشت سے جنم لینے والی "مقدس جمہوریت" ایک ایسا عالمی استحصالی نظام ہے جس کی کوکھ سے گزگشتہ پچاس سالوں میں غربت، افلاس، بھوک، بیماری، قحط، بے روز گاری، جنگ، دہشت، قتل و غارت، ہجرت، بدیانتی، رشوت، بے ایمانی، جنسی استحصال اور اغواء جیسی لاتعداد بلاؤں نے جنم لیا ہے۔
دنیا کا نقشہ اس جمہوری نظام کے سرمایہ دارانہ تسلط سے پہلے کبھی اس قدر خوفناک نہ تھا۔ خون چوسنے والے سودی بینکاری نظام سے جنم لینے والی مصنوعی کاغذی دولت کے انبار پر قابض کارپوریٹ دنیا کا خوش نما چہرہ، جمہوری سیاسی لیڈران، معاشی تجزیہ کار، میڈیا کے بزرجمہر اور کامیاب کاروباری شخصیات ہیں۔ ان سب کے دم قدم سے دنیا میں ایک چکا چوند "لائف سٹائل" یعنی جدید طرزِ زندگی نے جنم لیا ہے۔ یہ سب کے سب ایک عالمی استحصالی ٹولہ ہیں، جو اس وقت دنیا کے وسائل پر قابض ہے اور اس نے دنیا کو ایک جہنم بنا رکھا ہے۔
اس عالمی استحصالی ٹولے کا ایک اکٹھ یا میٹنگ ہر سال جنوری کے آخری ہفتے میں سوئٹزرلینڈ کے پہاڑ ایلپس کے دامن میں ایک خوشنما سیاحتی مقام ڈیوس میں منعقد ہوتی ہے۔ اسے ورلڈ اکنامک فورم کہا جاتا ہے۔ اس فورم میں دنیا بھر سے ڈھائی ہزار کے لگ بھگ سیاسی رہنما، معاشی ماہرین، سرمایہ دار، میڈیا منیجر وغیرہ جمع ہوتے ہیں۔ یہ بلا کے لوگ ہیں، ان میں سے ہر کسی کو ایک دوسرے کی دولت اور لوٹ مار کا علم ہوتا ہے، اور ساتھ ساتھ دنیا میں پھیلتی غربت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ یہاں کسی کاروباری یا معاشی سرگرمی کے لئے جمع نہیں ہوتے بلکہ ان مسائل پر گفتگو کرتے ہیں جو ان کی وجہ سے دنیا کو درپیش ہیں۔ جیسے اس سال موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی طرز حکمرانی پر بات کریں گے۔
کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ جن کی دولت کی ہوس نے دنیا کو مسائل کا شکار کیا ہے، وہی اس دنیا میں پھیلتے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کو 1971ء میں جرمنی میں پیدا ہونے والے ایک یہودی پروفیسر کلاس شواب "Klaus Schwab" نے قائم کیا جو جنیوا یونیورسٹی میں بزنس پڑھاتا تھا۔ اس نے اس کا نام "یورپین مینجمنٹ فورم" رکھا اور اس سال یورپ کی کمپنیوں سے 444 مالکان کو ڈیوس بلایا۔ اس فورم کو یورپ کے انڈسٹریل اور بزنس گروہوں کی سرپرستی حاصل تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب عالمی استحصالی سودی نظام میں مصنوعی کاغذی کرنسی پر سوال اٹھنا شروع ہوئے تھے۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا امریکہ کے پاس اتنا سونا موجود ہے جتنے ڈالر وہ چھاپ کر دنیا کی معیشت پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ 1973ء میں بریٹن ووڈ کا 1945ء کا وہ معاہدہ ختم ہو گیا جسے fixed exchange rateیعنی شرح تبادلہ کہا جاتا تھا اور کرنسی کو سونے کے ذخائر سے علیحدہ کردیا گیا۔ عرب اسرائیل جنگ اور پھر شاہ فیصل کے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے عمل نے اس فورم کی اہمیت دو چند کر دی۔
تیل کی ڈالر میں فروخت نے پیٹرو ڈالر کے نئے استحصال کو جنم دیا اور یوں 1974 میں اس فورم میں پہلی دفعہ سودی نظام کے محافظ جمہوری سیاسی لیڈر ان کو بھی بلایا گیا۔ اس دن سے یہ سرمایہ دارانہ سودی جمہوری نظام کے تحفظ کی ایک عالمی تنظیم بن چکی ہے، جس کے دفاتر نیویارک، بیجنگ، ٹوکیو اور سان فرانسسکو میں موجود ہیں۔ اس کے ارکان کو مستقبل کی معیشت کے معمار کہا جاتا ہے۔ یہ معمار اس سال بھی 24 جنوری 2019ء کو ڈیوس کے پرفضا مقام پر جمع ہورہے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے اس فورم کے انعقاد کے دوران احتجاج بھی ہوتا ہے اور دنیا کے عقل و ہوش اور درد دل رکھنے والے ماہرین لاتعداد مضامین بھی لکھتے ہیں اور دنیا کی غربت کے بارے میں رپورٹیں بھی مرتب کرتے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ کے اس خوبصورت شہر میں جمع ہونے والے معاشی معماروں کے منہ پر زوردار طمانچے کے طور پر تقریبا تیس ہزار سے زیادہ ماہرین نے اس سال ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس کا نام ہے "Public good or private wealth" یعنی "عوامی بھلائی یا شخصی دولت"۔ اس رپورٹ نے اس سودی، تجارتی، معاشی جمہوری دنیا کے مکروہ چہرے سے نقاب الٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے ارب پتی افراد کی دولت میں گزشتہ سال یعنی 2018ء میں 900 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، یعنی روزانہ ڈھائی ارب ڈالر غریبوں کی جیبوں سے نکل کر ان کی جیبوں میں گئے ہیں۔
دوسری جانب آدھی انسانیت یعنی ساڑھے تین ارب لوگ شدید غربت یعنی 5 ڈالر روزانہ سے بھی کم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر دنیا کے یہ امیر ارب پتی اپنی آمدنی کا صرف ایک فیصد دے دیں تو 26 کروڑ 62 لاکھ بچوں کی تعلیم اور چار کروڑ انسان زندگی بھر کے لئے صحت کی سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ 1980ء سے لے کر 2016ء تک 36 سالوں میں دنیا کے ان پچاس فیصد غریب لوگوں کے حصے میں دنیا کی دولت سے ایک ڈالر میں سے صرف 12 پینی آئے جبکہ صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس 27 پینی آئے۔ 2008ء وہ سال تھا جب دنیا بھر میں ایک معاشی بحران آیا تھا۔ بینک کنگال ہو گئے تھے۔ سود تقریبا ختم ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود ان دس سالوں میں دنیا میں ارب پتی افراد کی تعداد دوگنی ہوگئی۔
گزشتہ دو سالوں میں ہر دوسرے دن ایک ارب پتی کا دنیا میں جنم ہوا۔ اور اس سے کئی سو گنا رفتار سے غریبوں میں اضافہ ہوا۔ اس رپورٹ میں غریب اور امیر دنیا کا چند افراد کے حوالے سے ایک خوبصورت موازنہ پیش کیا گیا ہے۔ مکیش امبانی دنیا کے امیر لوگوں میں سے 19 ویں نمبر پر ہے اس کی ممبئی میں رہائش گاہ 570 فٹ بلند عمارت ہے، جس کی قیمت ایک ارب ڈالر ہے اور جو دنیا میں سب سے قیمتی رہائش گاہ ہے۔ جبکہ اسی بھارت کے شہر پونا میں ایک عورت پرتیما کے دو جڑواں بچے پیدائش کے وقت سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مردہ پیدا ہوتے ہیں اور ایسی کروڑوں پیدائشیں سالانہ بھارت میں ہوتی ہیں۔
اسی طرح جیف بیزوز Jeff bezos جو دنیا کا امیر ترین شخص ہے اور 140 ارب ڈالر کا مالک ہے۔ اس کی دولت کا ایک فیصد دس کروڑ افراد کے ملک ایتھوپیا کے صحت کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ اس نے اسی سال اعلان کیا ہے کہ وہ خلا میں لوگوں کے لیے سیر و سیاحت کا کاروبار شروع کرنے والا ہے۔ اسی جیف کی کمپنی ایمزون کا ایک مزدور جو جھینگے چھیلنے پر تھائی لینڈ کے ساحل پر مزدور ہے۔ یہ شخص زے "Zay" تیرہ گھنٹے کام کرنے کے بعد بہت ہی خوش قسمت ہو گا کہ وہ صرف 10 ڈالر کما کر گھر لے جائے۔
یہ ارب پتی کتنے ہونگے جن کے پاس ساڑھے تین ارب مفلوک الحال غریب انسانوں سے زیادہ دولت ہے۔ یہ صرف 26 لوگ ہیں۔ یہ 26 لوگ انسانوں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ الیکشن کے دنوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، بھارت اور دیگر ملکوں کی سیاسی پارٹیوں کو پارٹی فنڈنگ کے نام پر خرید لیتے ہیں۔ ان کے سرمائے کے بغیر نہ کوئی اوباما جیت سکتا ہے اور نہ سرکوزی۔
سودی بینکاری کی جعلی کاغذی دولت کے انبار سے ارب پتی بننے والے یہ 26 افراد فیصلہ کرتے ہیں کہ کس ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے اسے بلاوجہ مقروض کرنا ہے، کس کی قیادت کو خریدنا ہے، کہاں قتل و غارت کروانی ہے اور کس ملک پر براہ راست حملہ کرنا ہے۔ یہ 26 کردار جدید معاشی سیاسی اور جمہوری تہذیب کا مکروہ اور غلیظ چہرہ ہیں جن کے اثر و رسوخ سے دنیا میں غربت، جہالت، بیماری، جنگ، افلاس، قحط اور قتل و غارت کی بلائیں رقص کرتی ہیں۔