بیسویں صدی کا آغاز دراصل ہندو یا ویدانتی مذہب کی سیاسی نظریاتی بنیادوں پر علمی کام کا دروازہ کھولتا ہے۔ مسلمانوں کی ساڑھے چھ سو سالہ حکومت میں آہستہ آہستہ ادب، فلسفہ، تاریخ اور سیاست سنسکرت کی بجائے سب پہلے فارسی زبان اور پھر اردو میں منتقل ہوگئے تھے۔
یہاں تک کہ بنگال پر قبضے کے بعد 10 جولائی 1800ء میں انگریز نے بھی ایسے فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی جو اردو زبان و ادب کی ترویج کا پہلا جدید مرکز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب کی وہ کتابیں جو عوام الناس کے لئے چھپتی تھیں، جیسے گرہوں اور شبھ دنوں کا حساب رکھنے والی جنتریاں اور ذات پات کی معلومات والے رسالے، سب اردو میں چھپتے تھے۔ ایسا ہی ایک رسالہ کیا ستھا سما چار(Kayastha samachar) 1873ء میں الہ آباد سے اردو زبان میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس میں ہندوستان میں صدیوں سے آباد ذاتوں کا تذکرہ ہوتاتھا۔
1899ء میں اس کی ادارت، برطانیہ سے بار ایٹ لا کرکے آنے والے سچد نند سنہا نے سنبھالی اور اس کو انگریزی میں شائع کرنا شروع کر دیا۔ اس رسالہ کی" ہندوتوا" نظریے کو پروان چڑھانے میں وہی حیثیت ہے جو اسلامی ریاست کے قیام کے تصور کو برصغیر میں اجاگر کرنے کے لئے مولانا مودودی کے ترجمان القرآن کو حاصل ہے۔ اس کے صفحات پر ایک گمنام پنڈت مدھو رام کے مضامین شائع ہوتے، جن کا لب لباب یہ ہوتا کہ "ہندو مذہب، کہ جس میں سچائی اور دیانت کے اعلی اصول ہیں، اور جو لوگوں کو اخلاقیات کے بلند ترین معیارات پر فائز کرتا ہے، کیا وجہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کو گزشتہ کئی صدیوں سے ایسے لوگوں نے محکوم بنا رکھا ہے جو روحانی، جسمانی، تخلیقی اور معاشرتی اعتبار سے ہندوؤں سے کمتر ہیں"۔
اس میں شائع ہونیوالے مضامین میں ہندوؤں کی اس مسلسل غلامی کی وجوہات پر بحث کی جاتی۔ آہستہ آہستہ مضامین نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہوتی گئی کہ ہندو قوم کے زوال کا اصل سبب یہ ہے کہ انہوں نے ویدوں کی تعلیم کو صرف پوجا پاٹ تک محدود کردیا تھا اور ہندومت کے سیاسی اور حکومتی تصور کو زندگیوں سے نکال باہر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے ہندومت صرف مندروں تک محدود ہوکر رہ گیاہے۔
ان مضامین میں ہونے والی بحثوں میں غضب کی کاٹ تھی جو عام پڑھے لکھے ہندوؤں کو متاثر کر رہی تھی۔ ان تحریروں سے ان تحریکوں نے جنم لینا شروع کیا جو ہندو قوم کو اس مسلسل غلامی سے نجات دلانے کے لئے متحرک ہوئیں۔ ان تحریکوں کے روح رواں بال کرشن شیورام مونجی، کیشو بلی رام ہیگواڑ اور وینائک دمودر ساورکر جیسی شخصیات تھیں۔ ان کے علاوہ سب سے اہم مدن موہن مالویہ تھا جس نے ایک تنظم "اکھل بھارت ہندو مہا سبھا" کی بنیاد رکھی۔ یہ ہندو مہاسبھا ایک غیرسیاسی تنظیم تھی لیکن اسکی کوکھ سے دو شدت پسند تحریکوں نے جنم لیا، ایک "سنگھٹن" اور دوسری" شدھی"۔
ان دونوں کا مقصد ہندوؤں کو منظم کرکے ایک جنگجو فورس میں تبدیل کرنا تھا۔ بال کرشن منجی نے کہا تھا کہ اس وقت ہندوستان میں بائیس کروڑ ہندو ہیں لیکن انہیں سات کروڑ مسلمانوں سے سخت خطرہ ہے۔ اس خطرے سے مقابلے کیلئے، ہر شہر اور قصبے میں شدھی اور سنگھٹن کے مراکز قائم ہوئے اور ان میں بھرتی ہونے والے ہندو نوجوانوں کو خنجر، تلوار اور بندوق چلانے کی تربیت دی جانے لگی۔ "اکھل بھارت ہندو مہا سبھا" جو ایک غیرسیاسی تنظیم تھی اس نے اعلان کیا کہ تمام مسلمان جو ہندوستان میں رہتے ہیں، غیر ملکی ہیں، یہ سب واپس چلے جائیں تو بہتر ہے ورنہ انہیں ہندومت قبول کرنا ہوگا۔
شدھی کی تحریک بنیادی طور پر "پاک کرنے" یا پوتر بنانے کی تحریک تھی۔ انہوں نے 1923ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا (Indian Hindu purification council) بنائی۔ اس کا سربراہ سوامی دیانند سرسوتی تھا اور اس کا سخت گیر شاگرد سوامی شردھانند اپنی مسلمان دشمنی کی وجہ سے آج بھی ہندوؤں میں دیوتا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شدھی تحریک کا مقصد جو اس کے آئین میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ تھا کہ "شدھی سے مراد یہ ہے کہ جس کے باپ دادا مسلمان ہو گئے تھے انہیں دوبارہ شدھی یعنی پاک کرکے ہندو بنایا جائے"۔ 1929ء میں سوامی شردھانند نے اسلام کو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ یہ وہی سوامی شردھانند ہے جس کی تصویر کے ڈاک ٹکٹ بھارت میں جاری کیے گئے۔
اس سارے نظریاتی کام میں بنکم چندر چٹر جی کے ناول آنند متھ نے بہت کردار ادا کیا۔ یہ ناول مسلمان دشمن ترانے "وندے ماترم" کے گرد گھومتا ہے۔ یہی وہ گیت ہے جو "ہندوتوا "تحریک کا آج تک ترانہ چلا آرہا ہے۔ جس وقت مسلمان خلافت عثمانیہ کی بحالی کی تحریک چلا رہے تھے اور پوری دنیا سے امت مسلمہ کی مرکزیت کی علامت خلافت کو ختم کیا جا رہا تھا اسی 1920ء کی دہائی میں"ہندوتوا" کی تحریک اپنی علمی اور تنظیمی جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔
اس دہائی میں اس نعرے کو فکری، علمی اور تنظیمی بنیاد میسر آگئی کہ برصغیر میں رہنما ہندوستانی قومیت (Indian nationalism) نہیں، صرف ہندو قومیت (Hindu nationalism) ہی کا وجود ہے۔ تمام ہندو مذہبی رہنما اس بات پر متفق ہو چکے تھے ہندوؤں اور ہندو مذہب کی بقاء کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کی طرح جہاد اور عیسائیوں کی طرح صلیبی جنگ کے فلسفے کے تحت خود کو مسلح کریں اور اپنے اندر جارحانہ خصوصیات پیدا کریں۔ سوامی دیانند کی آریہ سماج ایک مسلح ہندو تنظیم تھی جس کی بہن نیودرتا کی تحریریں ہندو مسلح جتھوں کا خون گرماتی تھیں۔
اس تنظیم نے انگریز اور جدید سیکولر تہذیب کی بھی شدت سے مخالفت کی اور وہ ہندو رہنما جو کانگریس اور دیگر رفاہی تنظیموں میں انگریزوں سے متاثر ہو چکے تھے انہیں ہندو مت کے خلاف سازشی عناصر قراردیا۔ چیڑ جی کے ناول آنند متھ نے جس طرح" درگا ماں" کو" دھرتی ماتا" یا "مدر انڈیا" بنا کر پیش کیاتھا اسے آئیڈیل بنایا گیا۔ ناول میں درگا کی تصویر پر ایک جگمگاتے ہوئے چہرے کے ساتھ، بدن پر تمام ہتھیار سجائے اور بائیں ہاتھ میں اپنے دشمن کا کٹا ہوا سر لئے ہوئے ہے۔ ہندوتوا کے ماننے والوں نے بتایا کہ درگا ماں دراصل پورا ہندوستان ہے جسے مسلمانوں کے ناپاک قدموں نے گندا کر دیا ہے۔ اس ماں کو اب پاک کرنا ہوگا۔ وندے ماترم وہ ترانہ ہے جسے یہ لوگ گاتے ہوئے ایسے نعرے بھی لگاتے کہ وہ اس درگاماں کے وجود کو ملیچھ اور ناپاک مسلمانوں سے ایک دن پاک کر دیں گے۔
اس نظریے کو ایک قومی تحریک کی شکل دینے کے لیے 1909ء میں لاہور میں ایک ہندو کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں لاچیت رائے نے ہندو قومیت کے اغراض و مقاصد اور اس کے تصور پر طویل تقریر کی۔ ہندوؤں کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع کنبھ کا میلہ ہے جہاں لاکھوں لوگ ہردوار میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ میلہ بارہ سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ 1915ء کے اس میلے میں اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں وہ تمام افراد شریک ہوئے جو بھارت کو ایک ہندو قومیت کا دیش بنانا چاہتے تھے۔ ان میں مدن موہن مالویہ، لاچیت رائے، کیلکر، بی ایس مونجے وغیرہ شامل تھے۔ انھوں نے گاندھی کے فلسفے اور کانگرس کے ہندوستانی قومیت کے نعرے کے خلاف ایک محاذ بنایا۔
1923ء میں ساوریکر کا وہ طویل مضمون "ہندوتوا" شائع ہوا جسے بعد میں کتابی شکل دی گئی۔ یہ کتاب ہندوتوا کے کارکنوں کے لئے مینی فیسٹو کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب شدھی کی تحریک پورے ہندوستان میں ہندو مذہب کی تطہیر کے ساتھ ساتھ لوگوں کو واپس راسخ العقیدہ ہندو بنانے کی تحریک بھی بن گئی۔ یہ تحریک ایسے تمام افراد جو ملحد، کیمونسٹ، مسلمان یا عیسائی ہوگئے تھے ان کی دھرم میں واپسی کیلئے سرگرم ہوگئی۔ اسکا روپ بالکل ہماری تبلیغی جماعت کی طرح تھا کہ لوگوں کوصحیح العقیدہ اور با عمل ہندو بناتا تھا۔
ہندو مہا سبھا اس قدر طاقتور ہوگئی کہ اس نے کانگریس کو مجبور کیا کہ وہ 1926ء کے الیکشن میں جن سیٹوں پر ہندو مہاسبھا نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں وہ ان سے دور رہے۔ اور کانگریس مجبور ہوگئی۔ شدھی، سنگٹھن، آریہ سماج اور ہندومہاسبھا علیحدہ علیحدہ تنظیمیں تھیں لیکن ان کے نظریات ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے تھے۔ دوسری جانب انگریزی تعلیم اور انگریزی طرز زندگی نے ایک جمہوری سیکولر لبرل سیاست و تہذیب کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے گاندھی اور اس کی کانگریس عام ہندوؤں میں مقبول ہونا شروع ہوگئی تھی۔ وہ تمام عام لوگ جو براہمن، پنڈت اور ہندو مذہب کی مشکل پابندیوں سے آزادی چاہتے تھے۔ وہ لبرل جمہوری سوچوں کو پسند کرتے تھے۔
یوں ہندوتوا کے ان رہنماؤں نے جمہوری راستے کو ترک کرتے ہوئے 1925ء میں بھارت کے شہر ناگپور میں کیشو بلی رام ہیگواڑ کی سربراہی میں راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک جارحانہ نظریہ رکھنے والی تنظیم تھی جس نے باقاعدہ مسلح ذیلی تنظیمیں بنائیں جن میں میں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل شامل ہیں۔ (جاری ہے)