1925ء میں ناگپور میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے قیام نے کیشو بلی رام ہیگواڑ نے "ہندوتوا " کی نظریاتی جدوجہد کو ایک پرچم تلے جمع کردیا۔ برطانوی اقتدار کی وجہ سے ہندو مذہب کے لئے سب سے بڑا خطرہ مغربی تہذیب تھی۔ عرصہ دراز سے برہمن یا پنڈت کا کام شادی کے لیے شبھ دن نکالنا، پھیرے لگوانا، پوجا پاٹ کے استھان کی نگرانی کرنا اور مرنے کے بعد کریا کرم کرنے تک محدودہوچکا تھا۔
مذہبی تعلیم میں نہ اصول جہاں بانی سکھائے جاتے تھے اور نہ ہی فلسفہء تجارت و معیشت۔ ایسے میں جدید مغربی تہذیب کا جاندار مقابلہ صرف ایک ہی نعرے سے ہوسکتا تھا اور وہ تھا ہندو نیشنلزم یا قومیت۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے اس ہندو قومیت کی بنیاد نسل اور خون پر رکھی گئی اور پھر اس کی تہذیب میراث کو بالاتر گردانتے ہوئے اسکی تمام مذہبی رسوم کو قومیت کا تہذیبی ورثہ قرار دیا گیا کہا گیا کہ یہ ورثہ سب سے اہم اثاثہ ہے اور اس کی جاگیر پورا ہندوستان ہے۔ اسی لئے ساوریکر کی کتاب "ہندوتوا" جو آر ایس ایس کی بنیاد ہے اس میں ہندو قومیت کے تین نظریاتی اصول بتائے گئے
1۔ مشترک قوم (راشٹریہ)
2۔ ایک مشترک نسل (جاتی)
3۔ ایک مشترکہ تہذیب(سنسکرتی)۔
ہندو مذہب کو ایک تہذیب قرار دیا گیا اور اس تہذیب کو اپنانا قومیت کا لازمی جزو قرار دے دیا گیا۔ وہ لوگ جنہوں نے مغربی تہذیب اختیار کی اور دنیاوی زندگی میں سیکولر اور لبرل نظریات کو اپنایا تھا، وہ زیادہ تر پڑھے لکھے ہندو تھے۔ ساورکر نے ان افراد کے بارے میں کہا "یہ لوگ دراصل برطانوی غلام ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا رشتہ ناتا ہندو نسل سے توڑا ہے، اپنے ماضی سے تعلق منقطع کیا ہے اوریہی مغرب زدہ لوگ ہی ہیں جو تہذیب سے عاری (decultarised) اور کسی قومیت سے تہی (denationalised) ہو چکے ہیں۔
یعنی آر ایس ایس کی نظریے کے مطابق کوئی ہندو جو مسلمان، سکھ، عیسائی ہو جائے وہ تو ہندو قوم کا حصہ نہیں رہتا لیکن اگر کوئی ہندو مذھب اپناتے ہوئے سیکولر لبرل یا مغربی بودوباش اور طرز زندگی بھی اختیار کرتا ہے تو وہ بھی ہندوؤں قومیت سے خارج ہوجاتا ہے۔ آر ایس ایس کے دوسرے بڑے مفکر گولوالکر نے ایسے تمام لوگوں کو دو راستے دکھائے، ایک تو یہ کہ فورا ہندو تہذیب کو اپنا لیں جو ان کی اصل ہے یا پھر وہ اپنے آپ کو ہندو قوم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں کہ وہ کب یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ یہاں غلام بن کر اپنی طرز زندگی کو جاری رکھیں یا پھر ہندوستان کو چھوڑ جائیں گے۔
گولوالکر کی مشہور کتاب Bunch of thoughts جو 1966ء میں ناگپور میں شائع ہوئی اس میں کہا گیا کہ بھارت میں قدیم نسلوں کے ہاں پیدا ہونے والے تمام لوگ اپنی پیدائش سے پہلے عالم ارواح یا گذشتہ جنم میں بھی ہندو تھے۔ انھیں بپستمہ دے دیا جائے یا انکے ختنے کر دیے جائیں یہ ہندو ہی رہیں گے، کیوں کہ انہیں ایشور نے یہ نام اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی دے دیا تھا۔ باہر سے آنے والے سید، مرزا یا کوئی اور سب کے سب اپنی زمینوں سے اپنے نسلی رابطے توڑ کر یہاں آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی دھرتی، دھرم اور ایشور کی ازلی تقسیم سے غداری کی ہے اور ہماری دھرتی کو بھی ناپاک کیاہے۔ انہیں یہاں نہیں رہنا چاہیے۔
آر ایس ایس یعنی راشٹریا سیوک سنگھ کے قیام کے دو سال بعد 1927ء میں ایک ٹریننگ کیمپ قائم ہوا جس میں نوجوانوں کو گھر بار چھوڑ کر سادھو بن کر(سوامی سیوک بن کر) لڑنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ اسی سال ان سوامی سیوکوں نے گنیش مہاراج کا جلوس نکالا اور ناگپور کے محل کے علاقے میں مسجد کے سامنے کھڑے ہوکر ڈھول پیٹے اور نفیریاں بجائیں جس کے بعد تین دن ناگپور میں ہندو مسلم فسادات رہے۔ انگریز ہندوستان میں اپنی نوعیت کے یہ پہلے ہندو مسلم فسادات تھے۔
جنگ عظیم دوم میں آر ایس ایس کے تینوں رہنما ہیگواڑ، ساورکر کر اورگولوالکر کر نے ہٹلر اور میسولینی کو ہیرو بنا کر پیش کیا، کیونکہ وہ دونوں نسلی خالص پن اور نسلی برتری کے قائل تھے۔ اسی طرح انہوں نے یہودیوں کے اسرائیل بنانے اور ان کی نسل پرست فکر کا ساتھ دیا۔ تقسیم ہندوستان کے بعد انہوں نے بھارت میں ترنگے پرچم کی مخالفت کی اور کہا کہ ہندوستان پر صرف ہندو مذہب کے گیروے رنگ کا پرچم ہی لہرایا جانا چاہیے۔ آئین تحریر ہونے لگا تو آر آیس ایس نے کہا کہ ہم صرف منوسمرتی کو بھارت کا آئین اور قانون مانتے ہیں۔
منوسمرتی کے قوانین کے مطابق ہندو چار ذاتوں میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ بھارت کا آئین بنانے والے شودر رہنما ڈاکٹر امبیدکرنے کہا تھا کہ منوسمرتی کے دن اب گزر گئے اب آئین ہی بالا تر ہوگا۔ آر ایس ایس کے نزدیک یہ ہندو مت سے بے وفائی تھی، اسی وجہ سے آر ایس ایس کے کارکن نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کیا اور وہ اپنے اس نقطہ نظر کو سرعام دہراتا بھی رہا۔ لیکن کانگریس اور سیکولر طبقے نے گاندھی کو مسلمانوں کی حمایت کا مقتول قرار دے دیا۔
4 فروری 1948ء کو آر ایس ایس پر پابندی لگادی گئی، لیکن ہندوتوا کے تصور اور ہندو قومیت کے جذبات کا ملک بھر میں اس قدر دباؤ تھا کہ جسٹس کپور کمیشن نے پارٹی کو بے قصور قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے تمام رہنماوں کو باعزت بری کردیا۔ گولوالکر نے نہرو کو پابندی اٹھانے کے لیے خط لکھا جس پر جواب دیا گیا کہ آپ بھارت کے آئین اور ترنگے کو مان لیں تو پابندی اٹھا لی جائے گی۔ ہنگامے شروع ہوگئے۔
مذاکرات کے نتیجے میں آئین اور ترنگے کو عارضی حقیقت سمجھ کر مانا گیا اور گیارہ جولائی 1949ء کو پابندی اٹھا لی گئی۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک اس تنظیم نے ہندو قومیت کو ابھارنے اور اکٹھا کرنے کے لئے بیس سے زیادہ تنظیمیں بنائیں جن میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دال ہندو سوامی سیوک جیسی مسلح تنظیمیں بھی تھیں اور بھارتیہ وچار کیندر جیسے تھنک ٹینک بھی۔ یوں پورے ہندو معاشرے کی جسمانی اور ذہنی تربیت اور ان کے تعصب کو ابھارنے کے لیے مسلسل کام کیا گیا۔ الیکشن جمہوریت، آئین اور سیاست کو ترک کرکے ایک متعصب قوم تیار کی گئی۔
ٹھیک 55 سال کی محنت کے بعد جب پورے ملک کے ایسے ہندوؤں کا ایک منظم گروہ تیار ہوگیا جو کٹنے مرنے اور مرنے مارنے پر تیار تھا تو پھر 16 اپریل 1980ء کو سیاست میں آنے کا اعلان ہوا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی گئی۔ جس کی تمام علامتیں اور اشارات مذہب سے لیے گئے تھے اور دستور آر ایس ایس کی فکر سے متاثر۔
1984ء کے پہلے الیکشن میں اسے دو سیٹیں ملیں، لیکن چودہ سال بعد 1998ء میں یہ پارٹی 182 سیٹیں لے کر سب سے بڑی پارٹی بن چکی تھی۔ اس جیت کی پشت پر 1992ء کی رام جنم بھومی تحریک اور بابری مسجد کے گرانے جیسے اقدامات تھے، جنہوں نے ہندو قومیت میں ایک نئی روح پھونکی۔ اٹل بہاری واجپائی تین دفعہ وزیراعظم بنا، پہلی دفعہ جب 1996ء میں رام مندر کی تعمیر سے بھارت میں طوفان برپا تھا تو اس حکومت بنانے کو کہا گیا، وہ سولہ دن بعد استعفی دے گیا۔ پھر 1998ء میں اتحادی حکومت میں آیا اور 13ماہ حکومت کی اور الیکشن کروانے کا اعلان کیا۔
اسکے بعد 1999ء سے 2004ء تک پورے ہندوستان کی ہندو اکثریت نے "ہندتوا" اور ہندو قومیت کے نام پر اسے ملک کا سربراہ بنائے رکھا۔ جس کے بعد دس سال کانگرس کا اقتدار رہا مگر ہندو قومیت کا بھوت اپنے سب سے متعصب سپوت نریندرمودی کو 26 مئی 2014ء کو لے کر سامنے آگیا۔ چار سال بعد اسے ایسی اکثریت ملی کہ وہ آئین جس کا انہیں 1948ء میں زبردستی کا قائل کیا گیا تھا اب وہ آئین ان کے پاؤں کی جوتی بن گیا کہ جب چاہیں بدل کر رکھ دیں۔
یہی 95 سالہ جدوجہد تھی جس کا مقصد بھارت کو پوتر اور پاک کرنا تھا۔ اس پوترتا کے سفر کا آغاز اب ہوچکا ہے۔ اس جنگ کا اعلان رجسٹریشن ایکٹ اور کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے سے ہوا۔ اب ہندو قومیت کی یدھ (مقدس جنگ)کو مسلمان کس دن جہاد میں بدلتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے۔ نہ بدلا تو شاید یہ نسل تباہ و برباد ہو جائے اور اللہ اس دھرتی پر کوئی دوسری نسل آباد کردے ایک ایسی نسل جو جہاد کی امین ہو کیونکہ اس جہاد ہند میں فتح کی خوشخبری تو میرے آقا ﷺنے چودہ سو سال پہلے دی ہوئی ہے۔