اسلام اور مسلمان دو ایسے استعارے ہیں کہ جن سے گزشتہ چار سو سال میں پروان چڑھنے والا، مذہب مخالف بلکہ مذہب دشمن نظریاتی طبقہ ہمیشہ خوفزدہ رہا ہے۔ سیکولر لبرل ہوں یا کیمونسٹ یہ لوگ دنیا کے دیگر مذاہب کی رسومات یا ان کے تہذیبی اثرات سے عموما ًنفرت نہیں کرتے، بلکہ انہیں ایک طرح کی تہذیبی ارتقاء کا حصہ سمجھ کر قبول بھی کرتے ہیں اور رسم رواج کے اعتبار سے انہیں منانے، ان میں شرکت کرنے سے بھی کبھی گریز نہیں کرتے۔ لیکن ان کی ساری سیکولرزم، لبرلزم حتٰی کہ کیمونزم بھی اسلام اور مسلمانوں کے معاملے میں ایسا کرنے سے گریز کرتی ہے اور وہ اسلام سے وابستہ رسم و رواج کا ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ محفلوں، سیمیناروں، مشترکہ تقریبوں میں مجھے اس کا اکثر تجربہ ہوا ہے۔
ان کی تحریر اور عمل تو مسلمانوں اور اسلام سے انکی شدید نفرت کی چغلی کھاتا ہے۔ ایسا آخری تجربہ مجھے منو بھائی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں ہوا۔ منو بھائی سے میرا چالیس سالہ تعلق تھا۔ گجرات شہر سے قربت اور ٹیلی ویژن ڈراموں اور کالموں تک طویل ساتھ، لیکن جب میں نے ان کے رفاحی کام "سندس فاؤنڈیشن" کو ان کیلئے آخرت کی سرخروئی اور اللہ کے ہاں مقبولیت سے جوڑا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس طبقے کو اس قدر برا لگے گا کہ آئی اے رحمٰن جیسا مدبر اور جہاندیدہ شخص بھی تقریر میں اس کی نفی کرے گا اور منو بھائی کے اس رفاحی کام کو تصور آخرت سے الگ ثابت کرنے میں تعصب کی اس سطح پر جا پہنچے گا کہ جب اس نے استاد ابراہیم ذوق کا یہ شعر پڑھانام منظور ہے تو فیض کے اسباب بناپل بنا چاہ بنا، مسجد و تالاب بناتو مارے جلن کے یوں پڑھا "پل بنا چاہ بنا اور تالاب بنا"۔
اسلام اور مسلمان سے نفرت کا یہ عالم کہ مسجد کا لفظ بولنا تک گوارا نہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ایسے کسی صاحب سے ایسی غلطی پر کوئی سوال کرے تو جواب دیں گے کہ، " وہ میں بھول گیا تھا"۔ لیکن شاید انہیں تحلیل نفسی کے وہ اصول یاد ہوں گے کہ آدمی وہی لفظ یا واقعہ بھولتا ہے جس سے اسے شدید نفرت ہو۔ یہ صرف ایک آئی اے رحمٰن صاحب کا معاملہ نہیں، دنیا بھر اور خصوصاً برصغیر پاک وہند کا سیکولر لبرل طبقہ اس خود ساختہ اسلام اور مسلمان دشمنی کے تعصب کی آگ میں جل رہا ہے۔
یہ دیوالی پہ چراغ جلاتے ہیں اور ہولی میں رنگولی کھیلنے کو پسند کرتے ہیں، لیکن رمضان کے روزوں سے انہیں چڑ سی ہوتی ہے۔ دنیا بھر کا سیکولر، شکرانے یعنی Thanks Giving Dayکے تہوار پر ہونے والی "ٹرکی" مرغ کے گوشت کی کروڑوں دعوتوں پر خوش ہوتا ہے لیکن اسے عید الاضحی پر بکروں کا ذبح کرنا ظلم، غیر انسانی اور سرمائے کا ضیاع نظر آتا ہے۔ لیکن میرا اللہ ایسے لوگوں کے دلوں میں اس نفرت کی آگ کے مزید بھڑکنے کے سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔
ظاہر بات ہے اس کی نشانیاں تو ان لوگوں کے لیے ہیں جو حق کو تسلیم کرنے میں کسی تعصب سے کام نہ لیں، لیکن جن کے کانوں، آنکھوں اور دلوں پر اسلام اور مسلمان دشمنی کی مہریں لگی ہوں، ان کے ہاں اس آگ میں مسلسل اضافہ در اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی واضح فتح، تمام عالمی طاقتوں کی ذلت آمیز شکست، بھارت کی اس خطے میں براستہ افغانستان بالادستی کی خواہش کا ٹوٹنا اور کشمیر کی تحریک آزادی میں نیا ولولہ، جوش اور توانائی، یہ سب کا سب ان کے لئے سوہان روح کا باعث ہے۔ اسی سب کو روکنے اور طالبان سے لے کر کشمیری حریت پسندوں تک ہر مسلمان کو دہشت گردی سے منسلک اور عالمی امن کا دشمن قرار دینے کی سیکولر لبرل میڈیائی کوششیں سترہ سال سے جاری تھیں۔
آخری وقت تک پورا زور لگایا جاتا رہا کہ اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کو جائز، بھارتی جمہوری حکمرانی کو عالمی طاقتوں کی منظور نظر اور پاکستان کو ایسے فساد و فتنہ کا مرکز قرار دیا جائے جس سے پڑوسی ملکوں میں دہشت کے آتش فشاں کا یہ لاوا ابلتا ہے۔ یہ ایسی پاکستانی ریاست کے خلاف غم و غصہ پھیلایا جاتا رہا، جس کے منہ سے گزشتہ تیس سال یعنی 1988 سے لے کر اب تک کبھی جہاد، خلافت یا اسلام کی بالادستی و سربلندی جیسے الفاظ بھولے سے بھی برآمد نہیں ہوئے۔
جس ریاست نے 1999 سے لیکر 2008 تک مشرف کا وہ دور دیکھا جس میں عالمی طاقتوں سے مل کر افغان طالبان کو ذلت آمیز شکست دینے کے خواب دیکھے گئے اور مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کی میز کے نیچے کھودے گئے گہرے کنویں میں دفن کر دیا گیا۔ لیکن ان سیکولر لبرل دانشوروں اور سیاستدانوں کی موجودہ بوکھلاہٹ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی تمام عالمی قوتیں اس بات کا مکمل ادراک کر چکی ہیں کہ وہ ان لوگوں سے جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں، مسلمان کہلانے پر فخر کرتے ہیں، قوم پرستی کی لعنت سے دور ہیں اور زمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ سترہ سالوں نے امریکہ، برطانیہ، یورپ اور دیگر سیکولر لبرل طاقتوں پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ یہ جنگ ہار چکی ہیں۔ ایک قومی ریاست یعنی نیشن سٹیٹ کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے یا اسے براہ راست جنگ، عالمی معاشی اور سیاسی پابندیوں اور ففتھ جنریشن وار کے ذریعے شکست بھی دی جا سکتی ہے، لیکن ان قوتوں کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا جو کسی قومی ریاست یا نیشن سٹیٹ کے خلاف اللہ پر بھروسہ کرکے اٹھ کھڑی ہوں۔
اقوام متحدہ کی منظور کردہ اقتصادی و فوجی پابندیاں، امریکہ اور اس کے حواریوں کی براہ راست جنگ اور ان کو گروہوں کو آپس میں تقسیم کرنے والی ففتھ جنریشن وار، یہ تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں۔ جموں و کشمیر کے 222236 (دو لاکھ بائیس ہزار دو سو چھتیس) مربع کلومیٹر پر سات لاکھ فوجی تعینات کرنے یعنی ایک مربع کلومیٹر پر تین سے زیادہ فوجی، تمام بڑی عالمی قوتوں کی سیاسی و دفاعی مدد، امریکہ سے اسرائیل تک جاسوسی سیٹلائٹ سے چپے چپے پر نگرانی کے باوجود اگر کشمیر میں لاالہ الااللہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، لوگ جذبہ جہاد سے سرشار موت کی وادیوں میں کودتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن دنیا بھر کی قوتوں کو یہ اعلان بھی کرنا پڑ جائے گا کہ ہم کسی صورت ان لوگوں سے جنگ جیتنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے جن کا توکل اللہ کی ذات پر ہوتا ہے، اسی توکل کی وجہ سے انہیں موت زندگی سے زیادہ حسین اور پرکشش نظر آتی ہے۔
ایسے لوگوں کو شکست دینا یا اس کے بارے میں سوچنا بھی ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ اسی طرح کے ڈراؤنے خواب کی تعبیر افغانستان میں تین بار تحریر ہو چکی۔ گزشتہ چند ماہ کی اس صورتحال نے جہاں سیکولر لبرل قوتوں کے تمام سرپرستوں کو گنگ اور حیرت زدہ کر دیا ہے، وہیں ان قوتوں کی نفرت کی علامت یعنی اسلام کے نام پر بننے والی ریاست "پاکستان" کی فتح نے بھی انکی جلن میں بہت اضافہ کیا ہے۔
ان کے لیے بولنے کو کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ جن طالبان کی پشت پناہی کا پاکستان پر الزام تھا انہی سے پاکستان کے ذریعے امن و عافیت کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔ پلوامہ کے واقعہ کے بعد کسی ایک سمت سے بھی ویسا ردعمل نہیں آیا جیسا 13 دسمبر 2001 کو دلی کی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد دنیا بھر سے آیا تھا۔ اس کے حملہ آور بھی جیش محمد اور لشکر طیبہ سے بتائے گئے تھے۔
اس واقعہ میں تو صرف چھ سکیورٹی فورس کے جوان مارے گئے تھے اور یہاں پلوامہ میں 44 مارے گئے ہیں لیکن دنیا اس بار خاموش ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ اب عالمی سطح پر یہ احساس گہرا ہو چکا ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے ساتھ اڑتالیس ممالک کی فوجی طاقت افغانستان میں نہیں جیت سکتی تو بھارت کس باغ کی مولی ہے جس میں چوبیس کروڑ مسلمان پسماندہ، ذلت کے مارے اور ظلم کا نشانہ موجود ہیں اور آتش فشاں بننے کو تیار ہیں۔
اس عظیم جمہوری ملک میں ان چوبیس کروڑ مسلمانوں کی حالت زار پر کسی سیکولر لبرل گروہ نے موثر آواز نہیں اٹھائی، اور نہ ہی کشمیر پر گفتگو کی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ خوف ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت، قتل و غارت اور ان پر کئے گئے جبر کا ذکر کرنے سے ایک ایسے نعرے کو تقویت ملے گی جس سے اللہ کی بادشاہت کا اعلان ہوتا ہے اور سیکولرزم اور لبرلزم تو ہے ہی اللہ کے انکار کا نام۔ اللہ بھی مسلمانوں کا۔