کوئی یہ کہیے کہ پاکستان کے روپے کی عالمی کرنسی مارکیٹ میں کمی کا کوئی تعلق پاکستان کی اندرونی معاشی حالت سے ہے تو اس سے بڑا جھوٹ شاید کوئی نہ ہو۔ یہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی معاملہ نہیں ہے، دنیا پر قابض بدترین سودی مالیاتی نظام نے اس کاغذی مصنوعی کرنسی کو تخلیق ہی اس لئے کیا ہے کہ جب اور جس وقت کسی بھی ملک کی مالی حیثیت کو عالمی نظروں میں برباد کرکے اسکے لیے ایک ایسا بحران پیدا کیا جائے کہ وہ معاشی طور پر برباد ہو جائے۔
آپ حیران ہوں گے کہ ایک دن میں کسی بھی ملک میں جو بھی معاشی سرگرمی ہو رہی ہوتی ہے، اس میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آتا۔ کھیت اتنے ہی چاول، گندم، سبزیاں، پھل اور دیگر زرعی اجناس پیدا کر رہے ہوتے ہیں، ملیں نہ کپڑے کے تھان کم بنتی ہیں اور نہ ہی دیگر مصنوعات کی پیداوار میں کوئی کمی آتی ہے۔
ملک میں جتنے لوگ روزگار پر ہیں، ان میں سے ایک شخص کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اگلے دن پوری معیشت کا پہیہ ویسے ہی گھوم رہا ہوتا ہے جیسے کل تھا، مگر اچانک کرنسی کی قدر و قیمت ڈالر کے مقابلے میں گرنا شروع ہوتی ہے اور گرتی ہی چلی جاتی ہے۔ ایسا صرف پاکستان کے ساتھ نہیں کیا گیا بلکہ ہر اس ملک کے ساتھ کیا گیا جو اس سودی مالیاتی نظام کا حصہ ہے اور جسے یہ مالیاتی نظام ان عالمی قوتوں کے اشارے پر تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ کر لے۔
آج کاایران، شاہ کے زمانے سے کم از کم پچاس گناہ زیادہ معاشی طور پر مستحکم ہے اس کے تیل کے ذخیروں میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کی زراعت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اسکا روڈ انفراسٹرکچر اور ریلوے نیٹ ورک انتہائی شاندار ہوگیا ہے، اسکے پرائمری صحت کے ادارے دنیا کے بہترین ادارے سمجھے جاتے ہیں، اسکا تعلیمی نظام عالمی سطح کے نظاموں میں آتا ہے، اسکے ہاں امن و امان کا بھی کوئی مسئلہ نہیں، وہاں معیشت کا پہیہ مسلسل ترقی کی جانب گامزن ہے لیکن شاہ ایران کی معزولی اور اسلامی انقلاب کی آمد سے لے کر اب تک ایران کی کرنسی اس قدر کمزور کر دی گئی ہے کہ آج بھی امریکی ڈالر کے 4000 تمن اور پاکستان کے ایک روپے میں ایران کے 28 تمن آتے ہیں۔ جبکہ اس کے پڑوس میں افغانستان ہے جو گزشتہ سترہ سال سے جنگ کی آگ میں جھونکا گیا ہے۔ وہاں کے کھیت کھلیان برباد ہو چکے ہیں، کوئی صنعت ایسی نہیں جسے مثال کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن افغانستان کی کرنسی مضبوط ہے اور وہاں امریکی ڈالر کے 79 افغانی آتے ہیں۔
افریقہ کے تیل کی دولت سے مالامال نائجیریا اور جنوبی امریکہ کے وینزویلا تک لاتعداد ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کسی ملک میں کرنسی کا بحران پیدا کرنا اور اسکی کرنسی کی قیمت میں کمی کرکے اسے معاشی بدحالی کا شکار کرنا ایک ایسا کھیل ہے جو اس سودی مالیاتی نظام کے تحت جعلی کاغذی کرنسی کے ذریعے کھیلا جاتا ہے اور اسکا ملک کے معاشی حالات سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔
یہ کھیل پاکستان میں کیوں کھیلا جارہا ہے۔ صرف ایک سال اور خصوصاً چند ماہ کے عالمی اور علاقائی حالات کو غور سے دیکھ لیں تو آپکو پاکستانی سیاست اور معیشت پر منڈلاتے ہوئے گِدھوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ امریکی پینٹاگون اور سی آئی اے کو سولہ ماہ قبل جیمز میٹس نے جو ایک نئی گائیڈ لائن دی تھی کہ اب دہشتگردی کیخلاف جنگ ہمارا مقصد نہیں بلکہ روس اور چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکنا ہمارا بنیادی مقصد ہوگا، اسکے بعد سے امریکہ اور اس کے "اصل حکمران" اس خطے میں پنجے تیز کرکے کود پڑے ہیں۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک بے خوف صدر کی ضرورت تھی۔
سب سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس خطرے سے آزاد کیا گیا جو روبرٹ ملر (Muller Robert) کی رپورٹ کی صورت اسکے سر پر منڈلا رہا تھا۔ اگر اس رپورٹ میں یہ ثابت ہو جاتا کہ ٹرمپ نے اپنے الیکشن کے دوران روس سے مدد لی تھی تو پھر اسکے خلاف مواخذے کی تحریک پیش ہو سکتی تھی اور وہ صدارت سے محروم ہوجاتا۔ لیکن وہ قوتیں چاہتی تھی کہ ابھی ٹرمپ عہدہ صدارت پر برقرار رہے۔ اس کے لیے امریکی نظام حکومت پر "قابض قوتوں" نے اسکے ساتھ ایک ڈیل کی جس کے نتیجے میں 18 اپریل 2019ء کوایک ایسی ملر رپورٹ آئی وہ ٹرمپ کے لیے خوشخبری سے کم نہ تھی۔
448 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ نہ اسے مجرم ثابت کرتی ہے اور نہ معصوم۔ لیکن اسے مواخذے کی تحریک سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ جس دن سے اس رپورٹ کے بارے میں ان "قابض قوتوں"کی ٹرمپ سے ڈیل ہوئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا تمام کا تمام بین الاقوامی نقطہ نظر ہی بدل گیا ہے۔
جو شخص اس نعرے پر الیکشن میں کودا تھا کہ امریکہ کوصرف اپنے گھر کی فکر کرنا چاہئے اور اسے دنیا بھر کے معاملات سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے، افغانستان سے اپنی افواج کو واپس بلانا چاہیے، وہی ٹرمپ آج ایران کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں کودنے جارہا ہے جو کسی بھی لمحے پھیل کر عالمی جنگ بن سکتی ہے۔ جو شخص صرف بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا چاہ رہا تھا اب اس خطے میں ایک لاکھ بیس ہزار فوجیوں کو بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ لیکن اس جنگ میں کودنے سے پہلے اور پورے خطے کو آگ اور بارود کے سپرد کرنے سے پہلے پاکستان کی معیشت اور دفاع کا گلا گھونٹنا ضروری ہے۔
پاکستان کی معاشی بدحالی کے پیچھے دو اہم مقاصد چھپے ہیں، ایک پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قبضہ اور دوسرا پاکستان کے وسائل کو ہتھیانا۔ خصوصا تازہ ترین جیولوجیکل سروے کے مطابق تیل کے ذخائر کی دریافت کے بعد اسکا کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بد نام زمانہ ڈک چینی کی تیل کی کمپنی (Hallibunton) نے پاکستان میں کچھ عرصہ قبل اپنا دفتر کھول لیا تھا۔ ایک ایسا ملک جو دنیا بھر میں دہشت گردی کی علامت ہے، جو کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے، وہاں تیل کی ڈک چینی کی کمپنی کے ساتھ دیگر کمپنیاں منہ پھاڑے ہوئے آجائیں، اسکو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اس نئی شروع ہونیوالی جنگ میں پاکستان کے اس ذخیرے پر اپنا قبضہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کو فوری طور پر غیر جانبدار بنائے بغیر ایران پر حملہ نہیں کیا جاسکتا ہے، اور پاکستان کو غیر جانبدار بنانے کے لئے اسکی معیشت اسی طرح بربادی و تباہی کی سطح پر لانا ضروری ہے جس سطح پر یہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے وقت تھی اور پھر امریکہ کی صرف ایک کال نے پاکستان کو اپنے افغان مسلمان بھائیوں کے معاملے میں نہ صرف غیر جانبدار کر دیا تھا، بلکہ پاکستان نے افغانوں کے قتل عام کے لیے اپنے اڈے تک امریکہ کو فراہم کردیے تھے جہاں سے 57 ہزار امریکی جہاز اڑے اور انہوں نے افغان سرزمین پر بمباری کی۔
گوانتا ناموبے کے بدنام عقوبت خانے کو بھرنے کے لئے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے اور ہر وہ شخص جس پر ذرا سا بھی شبہ تھا، پکڑ کر امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔ یہ راز تو اب طشت از بام آچکا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو اپنی جانب سے براہ راست مداخلت کی دھمکی نہیں دی تھی بلکہ بھارت کے ذر یعے حملے اورامریکہ کی جانب سے بھارت کی مدد کا خوف دلایا تھا۔ آج ایران پر حملے سے کئی سال پہلے بھارت کے کارپوریٹ طبقے کی مدد سے آر ایس ایس کے ہندو توا ایجنڈے کو بھارت میں عوامی پذیرائی پر لایا گیا اور نریندر مودی کی شخصیت کو میڈیا کے حیران کن پروپیگنڈے سے ابھارا گیا اور اسے الیکشن کے لیے ناقابل تسخیر بنا دیا گیا۔ جب تک ایران پر حملے کی مکمل تیاری ہوگی، مودی الیکشن جیت چکا ہوگا اور اسکا کردار بالکل ویسا ہی ہوگا جیسا جرمنی کا الیکشن جیت کر ہٹلر کا تھا۔
ہٹلر کی الیکشن مہم کو اس قدر فاشسٹ ایجنڈے پر مرتب کیا گیا تھا کہ جیتنے کے بعد اسکے لیے کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ فرانس پر حملہ نہ کرے اور جرمن عوام کی عزت بحال نہ کرے ایسے رہنما اپنے ایجنڈے کے قیدی بنا دیے جاتے ہیں۔ نریندر مودی اس طرح کے جال میں پھنس چکا ہے۔ (جاری ہے)