ایران اور امریکہ کے درمیان دھمکیوں، معاشی پابندیوں، سفارتی تعلقات کے خاتمے اور زبانی جنگ کا سلسلہ انقلاب ایران یعنی چالیس سال سے چل رہا ہے۔ آیت اللہ خمینی اسے شیطان بزرگ کہتے تھے اور دوسری جانب امریکہ بھی ایران کو Axis of Evil یعنی شیطان کا محور قرار دیتا رہا ہے۔ لیکن یہ جنگ کبھی بھی زبان و بیان سے آگے نہ بڑھ سکی۔ لیکن اس عرصہ میں ایران کے دو پڑوسی ممالک، افغانستان اور عراق بدترین امریکی اور عالمی جارحیت کا شکار ہوئے۔ یعنی جنگیں شیطان کے محور کیخلاف نہیں، اسکے آس پاس ہوتی رہیں۔ قریبی پڑوسی شام میں جب امریکہ اور روس کی کشمکش میں لاکھوں مسلمان مارے جارہے تھے، اسی دوران دنیا کی پانچ بڑی قوتیں امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس مل کر ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتا تحریر کر رہی تھیں۔
2013ء میں ایران نے ان قوتوں کے ساتھ ایک عبوری سمجھوتا کیا تھا کہ وہ مزید یورینیم کی افزدوگی نہیں کرے گا اور پھر 14 جولائی 2015ء کو ایک جامع معاہدہ ہوگیا۔ اس معاہدے کے بعد ایران نے روزانہ 21 لاکھ بیرل تیل برآمد کرنا شروع کیا، جس نے اسکی معیشت کو اسقدر مضبوط کر دیا کہ اسکی فی کس جی ڈی پی بیس ہزار ڈالر تک جاپہنچی۔ انقلاب ایران کے فورا بعد ایران کے تقریبا 120 ارب ڈالر عالمی بنکوں میں منجمد کر دیے گئے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ عالمی پابندیوں کے باوجودبھی ایران اس میں سے بیشتر رقم نکلوانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ پھر بھی اس معاہدے کے بعد ایران کو باقی ماندہ تیس ارب ڈالر مل گئے۔ علاقائی اور عالمی سیاست کا گذشتہ چالیس سال کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ زبان و بیان میں شیطان کا محور ایران اور شمالی کوریا بتائے جاتے رہے ہیں لیکن تباہی و بربادی افغانستان اورعراق کا مقدر بنی اور مزید امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ یمن اور پاکستان بنتے ہیں۔ قذافی کے لیبیا پر یہ عالمی قوتیں بھیڑیوں کی طرح حملہ آور ہوتی ہیں اور اسے برباد کرکے رکھ چھوڑتی ہیں۔
اس تجربے کی روشنی میں سوچا جائے تو عین ممکن ہے کہ موجودہ زبانی جنگ اور امریکی بحری بیڑوں کی آبنائے ہرمز میں نقل وحمل کے باوجود نشانہ کوئی دوسرا پڑوسی ملک بن سکتا ہے۔ تجزیہ نگار اسکی جہاں اور بہت سی وجوہات بتاتے ہیں وہاں ایک وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایرانی رواداری کے باعث ایران وہ واحد مسلم ملک ہے جس میں میں ایک کثیر تعداد یہودیوں کی موجود ہے جو ان میں گھل مل کر رہتی ہے اور آزادانہ طور پر عبادت کرتی ہے۔
آپ حیران ہوں گے کہ ایران کے مختلف شہروں میں ایسی لاتعداد یہودی عبادت گاہیں"synagogues" (صومعے) موجود ہیں جہاں مسلسل عبادت ہوتی ہے۔ تہران میں 38، شیراز میں 8، اصفہان میں 6، یزد میں 8، سنان راج میں 2، رفسنجان میں 2، اور کرمان، بوشہر، ہمدان، تبریز، رومیا میں ایک ایک یہودی عبادت گاہ(صومعہ) ہے۔ تہران سے انکا اخبار "آفاق بنا" کے نام سے نکلتا ہے۔
یہ یہودی ایران کی جانب سے عراق کے ساتھ جنگ میں بھی شریک ہوئے اور 15 یہودی ماریبھی گئے۔ گزشتہ دنوں سابقہ یہودی ممبر پارلیمنٹ مورائیں موتمہ(Mauriee motammah)نے ایرانی حکومت کی مذہبی رواداری کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایرانی یہودیوں کو اسرائیل میں اپنے خاندانوں سے ملنے کی اجازت دی اور وہاں سے انکے خاندانوں کو ملاقات کیلئے ایران آنے کی اجازت دی۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ باوجود شدید بیان بازی کے، یہودیوں کی ایران میں موجودگی اور انکے لیے اسقدر مذہبی آزادی ایک ایسا نکتہ ہے جو امریکہ پر "قابض قوتیں"اسے ایران پر بظاہر حملے سے باز رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان ایرانی یہودیوں کے ساتھ ان پچیس لاکھ ایرانی نژاد یہودیوں کی ہمدردیاں ہیں جو ایران سے ہجرت کرکے اسرائیل امریکہ اور یورپ میں آباد ہوئے۔ اور وہ اب ان ملکوں کی سیاست کے اصل حکمران ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے اخباروں میں کٹر صہیونی یہودی ایسے احتجاجی مضامین لکھتے رہتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کی حکومتیں ایران کے خلاف گفتگوتو کرتی ہے لیکن انکا عمل اس سے بالکل مختلف ہے۔
روزانہ ان یورپی کمپنیوں کے خلاف مضامین چھپتے ہیں جو اسرائیلی اور امریکی یہودیوں کی ملکیت ہیں لیکن ایران سے تجارت کرتی ہیں۔ ڈنمار ک کی ہالڈر ٹوپوزسو Topsue Halder جو ایران میں تیل و گیس کا کام کرتی ہے اور جرمنی کی سمینز Siemens جو ایئرپورٹ پر کام کرتی ہے، ان دونوں کے خلاف گذشتہ دنوں متشدد اسرائیلی یہودی کالم نگاروں نے ایک مہم جاری رکھی۔
وہ سمجھتے ہیں امریکی یہودی درپردہ ایران کو امریکہ کے غیظ و غضب اور ممکن جنگ سے بچاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ براہ راست جنگ کی صورت ان کے رشتے دار ایرانی یہودیوں کے بے گھر ہونے، مرنے یا تباہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ مشرق وسطی میں موجودہ جنگی جنون کے پیچھے امریکہ پر "قابض قوتیں" ہیں۔ وہ یہ ایک صہیونی لابی ہے جو تین بنیادی چہروں کے گرد گھومتی ہے۔
عالمی سودی مالیاتی نظام کا غیر اعلانیہ سربراہ جیکب روتھ شیلڈ، عالمی تیل و گیس کی دولت کا غیرعلانیہ سربراہ ڈک چینی اور عالمی استعماری میڈیا کا غیر علانیہ سربراہ روپرٹ مرڈوک۔ یہ تینوں دراصل اسرائیل، صہیونیت اور یہودی عالمی حکومت کے قیام کے پس پردہ کردار ہیں اور ان تینوں کے ہاتھ میں امریکی سیاست و معیشت کی طنابیں ہیں۔ ان تینوں اور انکی صہیونی لابی کے خیال میں آئندہ جنگ کے ممکنہ اہداف میں پاکستان اس لئے اوّل نشانہ ہے کیونکہ اسکا ایٹمی پروگرام خطے اور اسرائیل کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
اس پروگرام کوبراہ راست طاقت اور جنگ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسکے لئے ایک منصوبے کے تحت پاکستان کی معیشت کو قرضوں میں ڈبونا اور اسے اس قدر بدحال کرنا ضروری تھا تاکہ دنیا کی طاقتیں اپنے قرض کی وصولی کے لئے پاکستان کو ایٹمی پروگرام پر سودا کرنے کے لئے مجبور کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں جس رفتار سے قرضے لیے گئے وہ اس سازش کا پتہ دیتے ہیں۔ لیکن موجودہ امریکہ ایران جنگی بیان بازی کے دوران، پاکستانی کرنسی کی قیمت کو ایک عالمی مالیاتی سازش سے کم کرکے اب ایک ایسا معاشی بحران پیدا کیا جا رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں، اس قدر ہنگامے ہوں اور میڈیا کے ذریعے یہ خطرہ پیدا کیا جاسکے کہ اب شدت پسند ایٹمی اثاثوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی معیشت اور قوت کا گلا FATF کے ذریعے گھونٹا جا رہا ہے۔ اسکے مطالبوں کی تکمیل کیلئے ان تمام گروہوں پر کریک ڈاؤن کروایا گیا جو پاکستان کی اساس، نظریاتی بنیادوں اور کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد سے محبت رکھتے تھے۔ اس کریک ڈاؤن سے پاکستان کو کشمیریوں کی نظروں سے گرانا مقصود تھا اور بھارت کو کشمیر میں کھل کر کھیلنے کا موقع دینا تھا۔
جنگی منصوبہ بندی کے اس ماحول میں ایک شکنجہ سادہ لوح اور کاروبار ریاست سے نابلد عمران خان کے لیے تیار کیا گیا اور اسے اتنا ڈرایا گیا کہ اگر وہ آئی ایم ایف کے پاس نہ گیا تو یہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ پتھر کے زمانے میں لوٹ جائے گا۔ یوں عمران حکومت ان تیز طرارامریکہ پرست معیشت، دانوں کی باتوں میں آکر اب اس شکنجے میں جکڑی جاچکی ہے۔ جون کے آغاز میں نریندر مودی اپنی پوری آب وتاب اور پاکستان و مسلمان دشمنی کے ساتھ اقتدار میں آجائے گا۔ ادھر ڈک چینی کی کمپنی کے ساتھ ساتھ چار دیگر کمپنیاں پاکستانی تیل پرقبضے کے لیے پاکستان میں ڈیرے جما چکی ہیں اور انکے تمام سروے یہاں وافر تیل کے ذخائر کی موجودگی کا بتاتے ہیں۔
امریکہ نے افغانستان سے باعزت طور پر نکلنے کی کوشش کی لیکن طالبان امریکی شرائط پر افغان حکومت کے ساتھ معاہدے کو تیار نہیں اور امریکہ براہ راست معاہدہ کرکے دنیا کو شکست کا دستاویزی ثبوت نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ اپنے عوام کو بتانا نہیں چاہتا کہ ایک عالمی قوت چند ہزار طالبان سے ہار گئی۔ ویتنام کی جنگ ہاری جا رہی تھی تو امریکی عوام کو فریب دینے کے لیے کمبوڈیا پر یہ کہہ کر حملہ کردیا گیا تھا کہ اس کی مداخلت کی وجہ سے امریکہ کو شکست ہوئی۔
افغانستان کا کمبوڈیا صرف اور صرف پاکستان ہی ہوسکتا ہے، ایران ہر گز نہیں۔ پاکستان کو دخل انداز ثابت کرنے کیلئے اسی لابی کے روپرٹ مرڈوگ کے میڈیا نے گزشتہ دس سالوں سے ایک مسلسل مہم چلا رکھی ہے۔ لیکن کیا امریکہ پاکستان پر براہ راست حملہ کرے گا۔۔ ہرگز نہیں۔ اس جنگ کیلئے گذشتہ دس سالوں سے بھارت میں نفرت کا الاؤجلایا گیا ہے۔ نریندر مودی کو اسی طرح اپنے نعروں کا اسیر کیا جاچکا ہے جیسے ہٹلر کو کیا گیا تھا۔ اس الیکشن کے بعد اس سے مہم جوئی کروائی جائے گی۔
اس ممکنہ جنگ کے بعد میڈیا میں دو خطرات کو اجاگر کیا جائے گا۔ ایک یہ کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شدت پسندوں کے ہاتھ جاسکتا ہے، دوسرا یہ کہ امریکی تیل کی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ دنیا کو ان خطرات سے ڈرانے کے بعد خلیج میں کھڑے ہوئے امریکی بحری بیڑوں کا رخ ایران نہیں ایک دم پاکستان کی طرف مڑ سکتا ہے۔ ختم شد