نیویارک کے "ورلڈ ٹریڈ سینٹر" کے سانحے کو ابھی صرف تین سال ہی مکمل ہوئے تھے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ابتدائی کامیابیوں پر اسقدر غرور میں تھا کہ اس نے اقوام متحدہ کی پرواہ کئے بغیر، اور عالمی رائے عامہ کے بالکل برعکس، اپنے مستقل حلیف برطانیہ کے ساتھ مل کر جھوٹے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے عراق میں اپنی فوجیں اتاردیں تھیں۔ صدام حسین اور اس کی سات لاکھ "ریگولر" آرمی ریگستان کے مرغولے کی طرح غائب ہوچکی تھی۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی فوج تھی، جس کے پاس چھ ہزار ٹینک، چار ہزار بکتر بند گاڑیاں، تین ہزارہیوی آرٹلری ہتھیار اور تین سو اڑتالیس لڑاکا طیارے موجود تھے۔ امریکی کانگریس میں 28مارچ 2003ء کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خدمات پر وہ اہم رپورٹ بھی پیش ہوچکی تھی، جس کے مندرجات سے جنرل پرویز مشرف ایک ایسا کردار نظر آتا ہے، جس نے امریکی افواج کے حوالے پاکستان کے تین ہوائی اڈے کردئیے تھے، جہاں سے امریکی جہازوں نے ستاون ہزار دفعہ اڑان (Sorties)بھری اور انہوں نے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں صف شکن طالبان پر بم برسائے۔ ایسے حالات میں یوں لگتا تھا کہ اب آنے والی صدیاں امریکہ اور اس کی ٹیکنالوجی کے غلبے اور اقتدار کی صدیاں ہوں گی۔ پاکستان کے سیکولر لبرل ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر ٹیکنالوجی پرست اس امریکی اور مغربی فتح پر فرحاں و شاداں تھا۔
قوت و اقتدار کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں پر مسلسل نظر رکھتی ہے اور اپنے مقابلے میں ابھرنے والی ہر طاقت کو آغاز میں ہی کچل دینے کا سامان کرتی ہے۔ امریکہ نے بھی اپنے تمام بڑے سوچنے اور غوروفکر کرنے والے اداروں (Think Tanks)کو یہ ذمہ داری سونپی کہ آئندہ آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی نظریاتی، معاشی اور عسکری قوتوں کا جائزہ لیں اور بتائیں کہ امریکہ کو ان طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے کیا حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ اس ضمن کی پہلی رپورٹ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے بارے میں سامنے آئی، جسے امریکہ کے اہم ادارے "کونسل آف فارن ریلیشنز" (Council Of Foreign Relations)نے ترتیب دیا۔ رپورٹ کا نام تھا "جنوبی ایشیاء میں نئی ترجیحات" (New Priorities In South Asia)۔ اسے تحریر کرنے والوں میں بنگال کے ایرانی نژاد اصفہانی خاندان کی چشم و چراغ اور حسین حقانی کی خواہر نسبتی "مہناز اصفہانی" سرفہرست تھیں۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی دو اوراہم رپورٹیں، "رینڈ کارپوریشن" نے تحریر کیں جن کا موضوع اور مقصد اسلامی دنیا کو امریکی مفادات کے مطابق ڈھالنے کے لئے حکمتِ عملی وضع کرنا تھا۔
پہلی رپورٹ کا نام تھا "سول ڈیموکریٹک اسلام" جو اپنے نام سے ہی اپنے مطالب واضح کرتی ہے، جبکہ دوسری اس پہلی رپورٹ میں دئیے گئے حقائق کی بنیاد پر حکمتِ عملی کی تفصیل پر مبنی تھی جس کانام تھا "ماڈریٹ اسلام کے لئے نیٹ ورک کی تشکیل" (Building Moderate Muslim Networks)۔ ان دونوں رپورٹوں کی بنیادی خالق "شیرل بینراڈ" (Cheryl Benrad)تھی۔ یہ مشہور بھارت نواز زلمے خلیل زاد کی بیوی ہے۔ ان تینوں رپورٹوں کا موضوع اور مخاطب اسلام اور مسلم دنیا ہے۔ ان رپورٹوں کا مطالعہ موجودہ مسلمان معاشرے، اس کے تضادات، مسلکی اختلافات اور مسلمانوں میں آزادانہ سیکولر تصورات کے امین افراد کے ساتھ ساتھ شدت پسندانہ رجحانات کے حامل طبقات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ ہمیں اپنی خامیوں، خوبیوں، تضادات اور مشترکات کا اس قدر علم نہیں جتنا ان رپورٹوں کے لکھنے والوں کو ہم پر عبور حاصل ہے۔ یہ رپورٹیں آپ کے سامنے اس حکمتِ عملی کو بھی عیاں کرتی ہیں جو امریکہ اور اس کے حواری مسلم معاشروں کو مغربی رنگ میں رنگنے اور انہیں اپنی تہذیب کا حصہ بنانے کے لئیے اختیار کرتے ہیں۔
لیکن ان تمام رپورٹوں سے مختلف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر سے بالکل علیحدہ ایک اور رپورٹ دسمبر 2004ء میں سامنے آئی۔ یہ "نیشنل انٹیلجنس کونسل" (National Intelligence Council)کا پراجیکٹ تھا، جسے "پراجیکٹ 2020"کہا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کا نام ہے، "دنیا کے مستقبل کا خاکہ" (Mapping The Global Future)۔ یہ رپورٹ جو 2004ء میں شائع ہوئی، ایک نقشہ کھینچتی ہے کہ سولہ سال بعد یعنی 2020ء میں دنیا کیسی ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں چین اور بھارت کی معیشتیں امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہوں گی اور ان کے ساتھ ہی برازیل کی معیشت بھی یورپ کے کسی بھی ملک سے بڑی ہو چکی ہوگی۔ دنیا بھر میں گلوبلائزیشن اس طرح چھا جائے گی کہ لاتعداد ملٹی نیشنل کمپنیاں پوری دنیا کے ممالک میں اپنا جال بچھا چکی ہوں گی۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود، دنیا کو اب کسی ایک طاقت کے قابو میں رکھنا مزید مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق چار مختلف گروہوں اور علاقوں میں دنیا منقسم ہو جائے گی۔ پہلا اہم گروہ جسے وہ "ڈیوس دنیا" (Davos World)کہتی ہے، وہ چین اور بھارت کی معاشی قوت کے سامنے سرنگوں یورپ، افریقہ اور ایشیاہوگا۔ دوسرا گروہ امریکہ کے زیراثر ممالک کا ہوگا، وہ بہت کم ہوں گے، لیکن اپنی اہمیت کی وجہ سے سیاسی اور عسکری طاقت کو کنٹرول کریں گے۔
تیسری قوت ایک نئی ابھرنے والی" خلافت" ہوگی، جس کا قیام رپورٹ کے مطابق 2024ء میں ہو جائے گا اور یہ مغربی اقدار، روایات اور طرزِ زندگی کے لئیے بہت بڑا خطرہ ہو گی۔ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ ان تینوں قوتوں کے علی الرغم دنیا میں خوف کا راج بھی شروع ہوچکا ہوگا۔ بہت سارے آزاد عسکری گروہ اور ملک ایک دوسرے کی تباہی پر آمادہ ہوں گے۔ ایٹمی ہتھیار سمگل، چوری یا اندرون ِخانہ بے شمار ہاتھوں میں چلے جائیں گے اور پوری دنیا ان کے خوف سے کانپ رہی ہوگی۔ ان حالات کی بنیادی وجہ تمام مذاہب میں شدت پسندوں اور مذہب سے مضبوط وابستگی رکھنے والے افراد میں اضافہ ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے مذاہب کے ماننے والوں میں شدت پسندانہ وابستگی رکھنے کے اعتبار سے مسلمان تعداد میں زیادہ سے زیادہ ہوتے چلے جائیں گے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ مذہب پر زیادہ سختی سے کاربند مسلمان ہوں گے، پھر سکھ، پھر ہندو اور پھر عیسائی ہو جائیں گے۔ یہ وہ گروہ ہوں گے جو معاشروں کو اپنی مرضی سے ترتیب دیں گے، ان پر غلبہ حاصل کریں گے اور ان کے خوف سے باقی سادہ لوح مسلمان، سکھ، ہندو اور عیسائی سہمے ہوئے ہوں گے۔ چونکہ مسلمانوں میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوگی، اس لیئے وہ 2020ء کے آس پاس لڑتے جھگڑتے طاقت اور قوت پکڑ لیں گے اور "خلافت" قائم کردیں گے۔
اگر وہ ایسا نہ کر سکے، پھر بھی دنیا کے لیئے بہت بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد امریکہ کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے "PEW" کو بار بار مسلمان ملکوں میں سروے کرانے اور حالات کا جائزہ لینے کیلئے کہا گیا۔ اس ادارے کے سروے کے مطابق مسلمان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت صرف اور صرف شرعی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ یہ تعداد افغانستان میں 99%، پاکستان میں 84%، انڈونیشیا میں 74%، نائیجریا میں 72%اور مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے باقی تمام مسلمان ملکوں میں 71 فیصد ہے۔ رپورٹ میں ایک حیرت انگیز سوال صرف عورتوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرنا پسند کرتی ہیں؟ اس کے جواب میں عراق، مراکش، انڈونیشیا، افغانستان، ملائشیاء اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کی 95فیصد خواتین نے کہا کہ وہ اپنے خاوند کی مطیع رہنا چاہتی ہیں۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ایسی صورتِ حال میں شریعت کا نفاذ بہت آسان ہوگا۔
آج جائزہ لیں تو اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے حالات تو بالکل ویسے ہی ہو چکے ہیں۔ رپورٹ نے 2020ء کو ایک بہت بڑی کشمکش کے آغاز کا سال کہا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر کے تبصرہ نگار، تجزیہ نگار، سیاسی پنڈت، معاشی بزرجمہر، ستارہ شناس، یہاں تک کہ روحانی رجال الغیب بھی ایسا ہی کہہ رہے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021ء میں سب کچھ بدل جائے گا اور باقی تمام ماہرین بھی اسی بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ آج دنیا جس کشمکش میں گھری جا چکی ہے، اس کا قریبی مستقبل میں صرف بارود کی بو، گولیوں کی ترتراہٹ اور بموں کا دھواں نظر آرہا ہے۔ شاید اس سب کے بعد راوی چین لکھ دے۔