گزشتہ بیس سالوں سے یہ دنیا جس تیزی کے ساتھ جنگ و جدل، قتل و غارت اور خوف و دہشت کے ماحول کی طرف بڑھی ہے، پوری انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ بیسویں صدی، جو کہ دو عالمی جنگوں کے ساتھ ساتھ لاتعداد جنگوں کا شکار رہی، اس صدی میں بھی کبھی دنیا اس طرح مسلسل سلگتی نہیں رہی۔ بلکہ ان جنگوں کے آغاز سے لے کر انجام تک مختلف ممالک کی افواج ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں اور پھر ایک دن ان دونوں میں سے ایک گروہ کو فتح حاصل ہو گئی۔ لیکن ان گزشتہ بیس سالوں میں جو علاقے مسلسل جنگ کا شکار ہیں وہاں گلی گلی اور گھر گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، دہشت رقص کر رہی ہے اور خوف کے سائے پھیلے ہوئے ہیں۔
بحر اوقیانوس کے ساحلی ملک لیبیا سے لے کر مصر، یمن، شام، فلسطین، عراق اور افغانستان کا علاقہ اس مستقل جنگ کی گرد میں لپٹا ہوا ہے۔ یوں تو یہ جنگ گیارہ ستمبر 2001 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے شروع ہوئی، افغانستان اور عراق سے ہوتی ہوئی، 2011 کے آس پاس عرب ممالک میں عوامی بیداری کی لہر میں داخل ہوگئی اور کئی سالوں سے خاموش زندگی گزارنے والے ممالک آگ اور خون کے دریا میں ڈوب گئے۔ لیکن اس کے پس منظر میں ایک تاریخ ہے۔
دنیا کے نقشے پر غور کریں تو یہ میدان جنگ صرف اور صرف مسلمان ممالک کی سرزمین ہے۔ وہ جو سید الانبیاء ﷺ کی احادیث اور قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے حالات حاضرہ کو بھی پرکھتے ہیں اور ان کی تجزیاتی روشنی اس علم سے مستعار لی گئی ہے، وہ آج ان حالات کو دیکھ کر پکارتے پھر رہے ہیں کہ "سچ کہا تھا میرے نبی، مخبر صادق ﷺ، نے اس دور فتن کے بارے میں"۔
ایسے علماء اور جدیدیت کے مارے ہوئے لوگ جو آج سے چند سال پہلے تک رسول اکرم ﷺکی ان احادیث کو جو آخری زمانے کے بارے میں ہیں موضوع (جھوٹی) یا گھڑی ہوئی سمجھتے تھے، ان میں سے اکثر آج خود ایک جہان حیرت کا شکار ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ تو سب کچھ ویسے ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور انہی علاقوں میں ہورہا ہے جن کی خبر دی گئی تھی۔ اس آخری دور کے بارے میں میرے رسول ﷺ، اس قدر پریشان تھے کہ آپ اپنی ہر نماز میں یہ دعا مانگتے تھے "اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، موت و حیات کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
صحابہ کی پوری جماعت اور ان کے بعد آنے والی امت بھی اس فتنے کے لئے پریشان رہی اور اس سے نجات کی دعائیں مانگتی رہی۔ عموما یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر دجال کا فتنہ اس قدر بڑا تھا تو اس کا ذکر وضاحت کے ساتھ قرآن میں کیوں نہیں کیا گیا۔ علماء نے قرآن پاک کی بعض آیات سے اس کا مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے اور وہ درست بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جس طرح آج کے فتنوں اور جنگوں سے متعلق رسول اکرمﷺ کی احادیث کی حقانیت اس دور میں روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہے، لگتا ہے اللہ نے دجال کا ذکر قرآن میں اسی لیے نہیں کیا تاکہ ان لوگوں کو گمراہی میں رہنے دے جو اللہ کے رسول ؐکی احادیث کو جھٹلاتے رہے اور ان کو گھڑے ہوئے افسانے قرار دیتے تھے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں میرے آقا ﷺ نے فرمایا "دیکھو ہو سکتا ہے کہ میری حدیث ایک آدمی کے پاس اس وقت پہنچے جب وہ اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو، حدیث سن کر وہ کہنے لگے: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے جو چیز اس میں حلال ہے اسے ہم حلال سمجھیں گے اور جو چیز اس میں حرام ہے اسے حرام سمجھیں گے۔ دیکھو جس چیز کو اللہ کا رسولؐ حرام قرار دیتا ہے وہ اس چیز کی مانند ہے جس کو اللہ حرام قرار دیتا ہے (رواہ مقدام بن معد یکرب: ترمذی)۔
دجال کی آمد کی حقانیت اور سید الانبیاء ﷺکی احادیث کی سچائی کی ایک دلیل اس حدیث میں بھی موجود ہے کہ آپؐنے فرمایا "خلاصی کا دن! جانتے ہو خلاصی کا دن کون سا ہے؟ آپ نے یہ بات تین مرتبہ کہی۔ آپؐسے پوچھا گیا، خلاصی کا دن کون سا ہے؟ آپؐنے فرمایا "دجال آ کر احد پر چڑھ جائے گا اور مدینہ کی طرف نگاہ دوڑا کر اپنے ساتھیوں سے کہے گا "یہ سفید محل دیکھ رہے ہو، یہ احمد ﷺ کی مسجد ہے۔ پھر وہ مدینہ کا رخ کرے گا۔ اسے مدینہ کے ہر سوراخ پر ایک فرشتہ ملے گا جو تلوار سونتے ہو گا۔ پھر وہ سیلابی نالے کے کنارے بنجر زمین کی طرف آئے گا، وہاں خیمہ زن ہو گا۔ مدینے کو تین جھٹکے لگیں گے، جس کی وجہ سے منافق اور فاسق مرد اور عورتیں نکل کر دجال کی طرف آجائیں گی، وہی خلاصی کا دن ہوگا (مسند احمد، الجمع ہیثیمی)۔
اس حدیث میں رسول اکرمﷺکی حدیث کا معجزہ اور حقانیت دیکھیں گے کہ آپؐچودہ سو سال قبل جب مسجد نبوی صرف کھجور کی شاخوں اور سنگریزوں سے بنی ہوئی تھی، دجال کی آمد کے وقت اسے ایک سفید محل کے طور پر بیان کیا ہے۔
آج یہ بات حرف با حرف حق نظر آتی ہے کہ وہ مسجد نبوی سفید سنگ مرمر کا محل دکھائی دیتی ہے۔ اس امت کے علماء نے صدیوں اس آنے والے دور فتن کی پیش بندی اور اس سے نجات یا اس دور میں ایمان کی حفاظت کے لیے قرآن پاک اور رسول اکرمﷺ کی احادیث سے ہمیشہ رہنمائی لی۔ ان علماء نے ایک معاملے میں خاصی محنت کی کہ معلوم کیا جائے یا اندازہ لگایا جائے کہ یہ دور فتن، یا ملحمۃ الکبریٰ یعنی بڑی عالمی جنگ، دجال کی آمد، سیدنا مہدی کا ظہور اور حضرت عیسیٰؑ کے نزول کا زمانہ کب تک ہوگا۔
اس پورے علمی کام کا خلاصہ اس امت مسلمہ کی عمر کے تعین کے بارے میں کتب میں ملتا ہے۔ اس معاملے میں چند احادیث سے علماء نے استنباط کیا۔ آپﷺ نے فرمایا "گذشتہ امتوں کے مقابلے میں تمہاری زندگی کا عرصہ اتنا ہے جتنا نماز عصر کا غروب آفتاب تک (رواہ عبداللہ بن عمر: بخاری)۔
ایک اور جگہ فرمایا "مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے کچھ لوگوں کو اجرت پر اس لیے رکھا کہ وہ رات تک اس کا کام کریں۔ انہوں نے دوپہر تک کام کیا، پھر کہنے لگے، ہمیں تمہاری اجرت کی ضرورت نہیں۔ اس نے کچھ اور لوگ اجرت پر رکھ لئے۔ اس نے کہا دن کے بقیہ حصے تک کام کرو، جو مزدوری مقرر ہوئی وہ آپ کو مل جائے گی، یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، تو انہوں نے کہا جو کام ہم نے کیا اس کی اجرت ہم نے چھوڑ دی۔ پھر اس نے کچھ اور لوگوں کو اجرت پر رکھا۔ دن کا بقیہ حصہ انہوں نے کام کیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو انہوں نے دونوں پہلے گروہوں کی پوری اجرت لے لی (بخاری)۔
حافظ ابن حجرنے ان احادیث کی روشنی میں اپنی کتاب "فتح الباری" میں ان تینوں امتوں کی عمروں کا تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے ان تمام روایات اور تقویم کے علم کو جمع کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی مجموعی عمر 2000 سال کے برابر یا زائد ہے۔ مکمل تقسیم یوں ہے کہ صبح پانچ بجے سے ایک بجے تک آٹھ گھنٹے (یہودیت) ایک بجے سے شام چار بجے تک تین گھنٹے (عیسائیت) اور شام چار بجے سے رات نو بجے تک پانچ گھنٹے (امت مسلمہ)۔
یوں امت مسلمہ کی عمر تقریبا ایک ہزار سال بنتی ہے۔ لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ "میری امت اللہ کے سامنے اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ سبحانہ و تعالی ان کو آدھے دن کی رعایت عطا فرمائیں۔ حضرت سعد سے پوچھا گیا کہ یہ آدھا دن کتنا بنتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ 500 سال۔ گویا ان تمام احادیث کی روشنی میں جو اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ بعثتِ نبوی سے قیامت تک امت مسلمہ کی عمر تقریبا 1500 سال ہو سکتی ہے اور آج 1440 ہجری ہے۔
گویا تمام علاماتِ قیامت کے ظاہر ہونے کے لیے اندازاً ساٹھ سال باقی ہیں جن میں ملحمۃ الکبریٰ یعنی سب سے بڑی جنگ بھی شامل ہے (جاری ہے)