ضیاء الحق کی شہادت کے بعد کے بتیس سال اس ملکی سیاست میں نظریے کی موت اور مفاد پرستانہ، ابن الوقت سیاست کے سال ہیں۔ ایوب، یحییٰ اور ضیاء الحق تینوں کے مارشل لاز اپنے اپنے معروضی، ملکی اور بین الا قوامی حالات اور فوجی قیادت کی ہوسِ اقتدار کے نتیجے میں لگے۔ ایوب خان تو سول اور ملٹری بیوروکریسی کی آپس کی رسہ کشی میں سے اس وقت سامنے آیا، جب سات اکتوبر 1958ء کو سکندر مرزا نے مارشل لالگایا۔ سکندر مرزا کو انگریز نے فوج سے سول سروس میں بھیجا تھا۔ وہ اس وقت ایک میجر تھا، لیکن وہ سول سروس میں بھی ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا رہا اور فوج میں بھی اسے غائبانہ طور پر پروموشن ملتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ صدر بنا تو وہ میجرجنرل سکندر مرزا تھا۔ طاقت اس کھیل میں دونوں یعنی سول بیوروکریسی "سینئر پارٹنر" تھی اور ملٹری بیوروکریسی "جونیئر پارٹنر" تھی۔ اس ترتیب کو الٹنے کے لئیے ایک اور ادارہ میدان میں اترا، اور وہ تھی "عدلیہ"۔
مارشل لاء لگنے کے ٹھیک بیس دن بعد پاکستانی تاریخ کے سب سے متنازعہ چیف جسٹس منیر احمد نے فیصلہ دیا کہ، "فاتح انقلاب جائز ہوتا ہے"۔ یعنی جو بھی اپنی طاقت وقوت سے اقتدار پر قبضہ کرلے، وہ ایک اٹل حقیقت بن جاتا ہے۔ فیصلے کے چند گھنٹے بعد ملٹری بیوروکریسی کے سربراہ جنرل ایوب خان نے خود کو تولا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ طاقت تو دراصل فوج کے پاس ہے اور اس نے اسی رات سکندر مرزا کو ایوانِ صدر سے نکالا اور خود صدارت کی کرسی پر جلوہ افروز ہوگیا۔ اب سول بیوروکرسی جو گذشتہ ایک سو سال سے سنیئر پارٹنر تھی فوراً مطیع و فرمانبردار ہو کر جونیئر پارٹنر بن گئی۔ اس مارشل لاکی وجوہات میں کوئی عوامی دبائو، سیاسی افراتفری یا انارکی شامل نہیں تھی، بلکہ یہ خالصتاً عالمی اور مقامی طاقتوں کی محلّاتی سازشوں کا نتیجہ تھا۔
یحییٰ خان کا مارشل لاتو خالصتاً کمانڈ کی تبدیلی یا صرف ایک پوسٹنگ ٹرانسفر کا عمل تھا۔ لیکن ضیاء الحق کے مارشل لاکے حق اور مخالفت میں دونوں جانب بھاری دلائل موجود ہیں۔ بلکہ بھاری دلائل زیادہ ہیں، کیونکہ ملک اس وقت چار ماہ سے جس افراتفری، انارکی اور مسلسل تحریک کا منظر پیش کر رہا تھا، اس کا ایسے مزید چلنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ ضیاء الحق کا مارشل لا نظریاتی سیاست کا آخری معرکہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بائیں بازو کا نظریہ خود اس کی فاشسٹ سیاست میں دم توڑچکا تھا اور مقابلے میں اٹھنے والی نظامِ مصطفیٰ کی تحریک کو ضیاء الحق نے ایک ایسی سیڑھی بنایا، جس نے پہلے دن ہی اسکے لئیے اقتدار کی منزل آسان کردی۔ چھ جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی موت پر کوئی ماتم کرنے والا نہ تھا، لیکن ضیاء الحق کو خوش آمدید کہنے والے بیشمار تھے۔ ضیاء الحق وہ خوش قسمت تھا، جسے ایسے عالمی حالات میسر آئے، جس نے اس کی حکومت کو بھی مزید دوام بخشا۔
روس کی افغانستان میں شکست نے بائیں بازو کی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔ اب دشمن، دوست سب امریکی چھتری تلے آگئے۔ ضیاء الحق نے بھی اسلام کو اسی قدر ہی اوڑھنا بچھونا بنایا جس قدر امریکہ اجازت دیتا رہا۔ اس کی ایسی پالیسیوں اور طرزِ حکومت نے دائیں بازو کی سیاست کا بھی خاتمہ کردیا۔ ضیاء الحق نے اسلام کیساتھ وہی سلوک کیا جو ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کیساتھ کیا تھا۔ اب ملک میں صرف اور صرف اقتدار کی سیاست، مفاد پرستی، ابن الوقتی، مصلحت کوشی اور طاقت کے حصول کا راج شروع ہوگیا۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد پہلے الیکشنوں میں جب بے نظیر برسرِ اقتدار آئی تو یہ بائیں تھی نہ دائیں، جمہوری تھی نہ فاشسٹ، کیمونسٹ تھی نہ اسلامی، بس ایک حکومت تھی، سر سے پائوں تک صرف حکومت، اوّل سے آخر تک صرف اقتدار۔ نظریاتی سیاست کی قبر میں سے دائیں بازو کی حنوط شدہ لاش نکال کر اس پر ملکی سلامتی کا رنگ و روغن کیا گیا اور اس کا پرچم ایک مفاد پرست، مصلحت کوش گروہ کے ہاتھ میں دے دیا گیا، اور اس کی قیادت سر سے پائوں تک اقتدار کی ہوس میں ڈوبے اور طاقت کے حصول کے لئیے ہمہ تن سر گرم نواز شریف کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ صرف چند سالوں میں ہی نظریے کی یہ گاڑی بیچ چوراہے میں انیٹوں پر کھڑی کردی گئی اور دونوں پارٹیوں پر صرف اور صرف مفاد، لالچ، ہوس اور مصلحت راج کرنے لگی۔
دونوں کے منشور ایک جیسے ہوتے گئے، دونوں کی قیادت ایک ہی سانچے میں ڈھل گئی۔ ایسی آب و ہوا کرپشن، بددیانتی اور لوٹ مار کے لئے انتہائی سازگار تھی۔"ٹین پرسنٹ" سے "ہنڈرڈ پرسنٹ" اور "لوہاراں دی ہٹی" سے "ایوان فیلڈ" تک کہانیاں بکھر گئیں۔ ہر حکمران کی دوڑ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور اقتدار کی بقاء تک محدود ہوگئی۔ ان تیس برسوں میں پرویز مشرف کا امریکہ نواز، سیکولر، نیم سیاسی، نیم فوجی مارشل لابھی آیا، جس میں گجرات کے دریائے چناب کے کنارے آباد گائوں "نت ٹبہ" کے چودھریوں کا عروج بھی ویسی ہی نظریات سے عاری سیاست کی علامت تھا۔ ان تین دہائیوں میں تمام سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات کی بھرمار کردی اور سیاست کے چہرے پر بے پناہ کالک مل دی گئی۔ اس بدنامی کو عدلیہ اور مشرف کے احتساب نے مل کر اس ملک کا واحد قومی مسئلہ بنا کر کھڑا کردیا۔ اب اس ملک کے عوام کی ایک ہی آرزو رہ گئی۔۔ کرپشن سے نجات۔ یہ نعرہ 7اکتوبر 1958ء کے سکندر مرزا کے اعلان، 27اکتوبر 1958ء کی ایوب خان کی تقریر، 25مارچ 1969ء کو یحییٰ خان کے اعلان، چھ جولائی 1979ء کو ضیاء الحق کی نشری تقریر اور 12اکتوبر 1999ء کو مشرف کے رات گئے ٹی وی کا خطاب میں بھی شامل تھا۔
ہر کوئی کرپشن کے ناسور سے اس ملک کو نجات دینے کیلئے اقتدار پرقابض ہوا اور پھر اقتدار کے مزے لوٹتا رہا۔ سیاست میں اس نعرے کا پرچم آخر کار عمران خان کے ہاتھ میں آگیا۔ اس وقت تک ہر خاص و عام اس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ اگر ملک سے کرپشن کا ناسور ختم کردیا جائے تو اس قوم کے تن مردہ میں جان پڑجائے گی۔ عمران خان اس نعرے کو بائیس سال تک بلند کرتے ہوئے ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے اور آج دو سال بعد ہم سب ایک ایسے دوراہے پر آکھڑے ہیں، جس میں ملک تو دور کی بات ہے، تحریکِ انصاف کی بھی سمت کا کوئی تعین نہیں ہے۔ وقت ان کے ہاتھوں سے تیزی سے پھسلتا جا رہا ہے۔ ملک کوئی کارپوریٹ انڈسٹری نہیں ہوتا کہ جس کے اعداد و شمار اگر بہتر ہوجائیں تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ ملک بائیس کروڑجیتے جاگتے انسانوں کا مسکن ہوتا ہے جن کے مسائل اعدادوشمار سے مختلف ہوتے ہیں۔ آج یہ بائیس کروڑ لوگ حیرت سے دیکھ رہے ہیں، کہ کہیں ہم غلط گاڑی میں تو سوار نہیں ہوگئے، کیونکہ انہیں یہ گاڑی ایک انچ بھی آگے بڑھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ عمران خان کی ناکامی اس ملک میں جمہوری سیاست کی موت ہے۔
یہ ایک ایسا خلاپیدا کردے گی، جس میں لوگ سیاست اور فوج دونوں سے بیک وقت مایوس ہو جائیں گے اور اس کے پیچھے ان کا تہتر سال کا تلخ تجربہ بول رہا ہوگا۔ صرف دوبرسوں نے بتیس برسوں کے اس نعرے کو الٹ کر رکھ دیا ہے اور لوگ سوچنے لگے کہ یہ ملک کرپشن کے ساتھ گھسٹ کر تو چل رہا تھا، لیکن نا اہلی کے ہاتھوں پٹری سے اتر رہا ہے۔ اس نا اہلی کی صرف دو وجوہات ہیں۔ عمران خان صاحب کی پارٹی میں ہر سیاست دان کا قبلہ مختلف ہے۔ سیکولر ملک کو اسلامی سمت جانے سے روکتا ہے تو اسلامی نظریے والا پارٹی کو سیکولر سمت جانے سے روکتا ہے۔ اس کھینچا تانی میں حکومتی ٹرین پلیٹ فارم پر مسلسل کھڑی ہے۔ دوسری وجہ خود عمران خان صاحب کی نرگسیت ہے۔ انہیں عین عالمِ شباب سے جیسا فریفتہ ہجوم ملتا چلا آرہا ہے، وہ انہیں اس آئینے سے پیچھے ہٹنے ہی نہیں دیتا۔ علاج صرف ایک ہے کہ عمران خان ہر اس آئینے کو توڑدیں، جو انہیں خوبصورت دکھاتا ہے اور اپنی پارٹی کو ایک نظریاتی منشوردیں اور اس منشور کی مخالفت کرنے والے کو کان سے پکڑ کر نکال دیں۔