کیا عبرتناک منظر ہے۔۔ دنیا اپنی تمامتر رنگینیوں اور حشر سامانیوں کے ساتھ ہمارے اردگرد موجود ہے، لیکن انسان سے اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے۔ گذشتہ دو ماہ سے ایک بے کیف زندگی ہے جس کا فقط ایک مقصد ہے کہ کب اس قید سے رہائی نصیب ہوگی۔ کئی سو سال کی تگ و دو، محنت اور جستجو سے انسان نے پہیے کی ایجاد سے لے کر ٹیکنالوجی کے بامِ عروج پر پہنچنے تک، فضاؤں میں اڑنے کا خواب پورا کیا، اور آراستہ و پیراستہ ہوائی جہاز آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرنے لگے۔
آج یہی ہوائی جہاز ہمارے سامنے مجسمے بنے کھڑے ہیں، جنہیں چھونے کی بھی کوئی ہمت نہیں کر پاتا۔ کارخانے موجود ہیں، کہیں کہیں ملبوسات بھی تیار کر رہے ہوں گے، ہر برانڈ کی بڑی بڑی دکانوں پر پہناوے کی ہر چیز اپنی پہلی والی آب و تاب کے ساتھ سجی سجائی رکھی ہوئی ہے، لوگوں کے گھروں میں ہر نئے سال کا فیشن وارڈ روبوں میں موجود ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے انہیں پہننے کا مزا چھین لیا گیا ہے۔ نہ کوئی محفل ہے اور نہ ہی شمع محفل، ناصر کاظمی کا نوحہ گونجتا ہے، "نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں، اور بال بناوں کس کے لیے"۔
ناصر کاظمی نے اپنی اس کیفیت کی اگلے مصرعے میں وجہ بتائی تھی کہ
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا
میں باہر جاؤں کس کے لیے
لیکن یہاں تو ہر کوئی اسی شہر میں موجود ہے، مگر ایک دوسرے سے اس طرح گریزاں ہے جیسے دوسرا کندھوں پر ملک الموت کو اٹھائے پھر رہا ہو اور ایسا ہے بھی۔ لباس تو دور کی بات ہے اب تو لباسِ برہنگی کی نمائش گاہیں بھی بند ہیں۔ برہنہ ساحل آباد ہیں اور نہ ہی رقص و سرور کے کلب۔ مدتوں ورزشوں، تیراکی اور مناسب خوراک سے جن حسیناؤں نے پیمائشی جسم بنارکھے تھے کہ مداحوں سے داد وصول کریں، یہ سب عالمِ عیش و طرب خاموش ہے۔
سان فرانسسکو سے نیویارک، لندن کے "سوہو" سے ایمسٹرڈیم اور بنکاک کے "پوٹ پونگ" سے ممبء کی "بندرا" تک، اب سر شام وہ رنگ و خوشبو اور غمزہ وعشوہ کی آراستگی نظر نہیں آتی، بقول فیض " ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں"۔ لیکن فیض کا نوحہ تو کسی کے جانے سے جنم لیتا ہے، "تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے"۔ لیکن یہاں تو کوئی گیا ہی نہیں۔ سب ویسے ہی موجود ہیں انسانوں کی حالت ان کواڑوں جیسی ہو چکی ہے جنہیں دیمک چاٹ گئی ہو اور وہ ہاتھ لگاتے ہی دھڑام سے زمین پر آ گریں گے۔ لگتا ہے انسان نے اپنے لیے جو دنیا آباد کی تھی وہ ایک دم بالکل بے روح ہوگئی ہے، جیسے کسی چابی والے کھلونے کی چابی ختم ہوجائے اور دم سادھے کھڑا ہو جائے۔
اس جدید تہذیب کو بنانے سنوارنے، سجانے میں کئی سو سالوں کی محنت صرف ہوئی، انسانی دماغ نے صدیوں سوچا اور انسانی جسموں نے مسلسل خون پسینہ ایک کیا، تب کہیں جا کر یہ مصنوعی جہانِ رنگ وبو آباد ہوا۔ اس دنیا کے صرف عیش و عشرت، تعیش، آرام اور لطف اندوزی کے گرد گھومنے والے کاروبار کا یہی اندازہ کریں جو آج بند پڑا ہے۔ پانچ سو ستر (570) ارب ڈالر کی ہوٹل انڈسٹری ہے، آٹھ سو نوے (890) ارب ڈالر کا ایئر لائنز کا کاروبار ہے، سات ہزار پانچ سو اسی (7,580) ارب ڈالرکی سیروسیاحت یعنی ٹورزم کی منڈی ہے۔
تین ہزار چار سو (3,400) ارب ڈالر فوڈ چینز یعنی برگر، پیزا، چکن وغیرہ کے کاروبار سے کمایا جاتا ہے۔ یہ اس وسیع تہذیب کے چند ایک کاروبار ہیں جہاں آج ویرانیوں نے اپنے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دنیا کے ظاہری رنگ و روپ سے وابستہ اور زندگی کو پر لطف بنانے کے بے شمار دھندے بند ہوچکے ہیں۔ فیشن انڈسٹری سے لے کر شو بز تک سب ٹھکانے ویران ہیں۔ میڈیا چینل چل رہے ہیں مگر جب باقی کاروبار ٹھپ ہو جایئں گے انکا سانس بھی ٹوٹ جائیگا کہ ان کو پھر کون پالے گا۔
وہ جنہیں قدرت کی طرف سے عطا کردہ تیل کی دولت پر ناز تھا، جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی اس دولت کو دنیا کے قحبہ خانے آباد کرنے، عیش و عشرت کے محل سجانے اور ذاتی بادشاہتوں کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا، آج ان کے تیل کی کھپت ا س قدر کم ہو چکی ہے کہ اگر وہ مزید تیل نہ بیچیں تو ان ریفائنریوں کا خرچہ تک نکالنا مشکل ہو جائے گا۔
وہ سودی بینکاری کا نظام جیسے 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کے قیام سے لے کر آج تک ایک جعلی کاغذی کرنسی کے نفاذ سے مضبوط کیا گیا تھا دھڑام سے گرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ لوگوں کو خوف ہے کہ ایک دن ان کے پاس موجود ڈالر، یورو یا یو آن بے معنی کاغذ ہو کر رہ جائیں گے، یہی وجہ ہے کہ جنوری سے لے کر اب تک سونے کی قیمت میں 1400 ڈالر سے 1624 ڈالر تک اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ آسمان جس پر روزانہ دو لاکھ سے زیادہ جہاز اڑا کرتے تھے اس وقت صرف ضروریات کے لیے پچاس ہزار سے کم روزانہ فلائٹس رہ گئی ہیں۔
چین جو ایک زمانے میں دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں خریدنے والا ملک تھا وہاں گاڑیوں کی خریدوفروخت میں نوّے فیصد کمی آئی ہے، امریکہ میں اس وقت 38 لاکھ لوگوں نے بے روزگاری الاؤنس کا کلیم داخل کیا ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ پوری دنیا کی جی ڈی پی کی مجموعی شرح نمو ڈھائی فیصد تک گر گئی ہے، جبکہ جرمنی، جاپان، فرانس، برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک اس وقت ایک فیصد سے بھی کم جی ڈی پی کی شرح نمو پرہیں، یعنی کاروبار معیشت ختم۔ صدیوں کی محنت سے آراستہ کی گئی مصنوعی تہذیبِ مغرب کہ جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
آج غازہ ہے نہ ساغر و مینا، رنگ ہے نہ خوشبو۔ لیکن خوفناک بات یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت یہ خیال کر رہی ہے کہ یہ ایک عارضی سا وقفہ آیا ہے، کچھ دیر بعد سب ٹھیک ہو جائے گا، انسان عظیم ہے، اس سب پر یہ قابو پا لے گا۔ یہ ہے وہ فریب جو شیطان انسان کے دل میں وسوسے کے طور پر ڈالتا ہے۔ انسان ایسی صورتحال کواللہ کی جانب سے ایک جھنجوڑنے اور خواب غفلت سے بیدار کرنے والا عذاب ہی تصور نہیں کرتا بلکہ حیاتیاتی اور سائنسی بے قاعدگی سمجھتا ہے۔ جب اجتماعی طور پر انسانوں کی یہ حالت ہو تو اللہ انسانوں کو اپنے حرمِ پاک میں بھی بے خوف اور امن کے ساتھ داخل ہونے سے روک دیتا ہے۔ مسجدیں جہاں سے استغفار کی صدائیں بلند ہونا چاہئیں تھیں ویران ہو جاتی ہیں۔
اس سانحے کے بعد تو انسان کو اندازہ ہو جانا چاہیے تھا کہ اس دنیا کا سب سامانِ زیست ہے جسے اللہ "متاع الغرور" یعنی دھوکے کا سامان بتاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے (آل عمران: 3) اور دنیا بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ نہیں (الحدید)آج اس دھوکے کے سامان کی حقیقت کس قدر واضح ہو چکی ہے۔ لیکن شاید انسان کے سنبھلنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ پوری دنیا دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ زیادہ لوگ وہ ہیں جو یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ بس چند دن کا وقفہ ہے اور انسان ایک دن اس مشکل کا حل نکال لے گا اور زندگی واپس لوٹ آئے گی۔
لیکن بہت کم ایسے ہیں جن کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں، جبینیں سجدہ ریز ہیں، شرمساری چہروں پر سجی ہے اور التجا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم تیری کوئی آزمائش بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم پر سے اپنا یہ عذاب ٹال دے۔ ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اس پر قابو پا سکیں کہ سب تمہاری عطا کردہ توفیق سے ممکن ہے۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ ڈرتا ہوں ہمارے اس غرور کی سزا کا عرصہ لمبا نہ ہوجائے۔