آج سے ٹھیک تیرہ سو سات سال قبل، 712 عیسوی میں عماد الدین محمد بن قاسم الثقفی نے دیبل پر حملہ کرکے سندھ کو فتح کیا اور بقول قائداعظم "پاکستان کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی تھی جب ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا"، اور تاریخ اس کا سہرا اس سترہ سالہ نوجوان کے سر پر باندھتی ہے۔ یوں تو یہ کارنامہ بنو امیہ کے دور میں ہوا اور ان کے بعد آنے والے مورخین نے اپنے تعصب کی ڈھیر ساری کالک بنو امیہ پر تھوپی لیکن اس خاندان کے چند لوگ جو تاریخ کی اس عمومی کردار کشی سے بچے رہے ان میں سے ایک محمد بن قاسم بھی تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے ڈیڑھ سو سال بعد بنو امیہ کے جانی دشمن بنو عباس کے دور کا مورخ اورخلیفہ المعتز باللہ کا استاد محمد بن یحییٰ بن جابر البلاذری لکھتا ہے، "محمد بن قاسم کی شخصیت انتہائی پروقار تھی۔ ان کا اخلاق دوسروں کو جلد گرویدہ بنالیتا تھا۔ انکی زبان شیریں اور چہرہ ہنس مکھ تھا۔ وہ ایک باہمت، بامروت، رحمدل اور ملنسار انسان تھے۔ وہ ہر شخص سے محبت سے پیش آتے اور انکے ماتحت انکی حددرجہ عزت و احترام کرتے تھے۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتے تھے۔ انکی وفات پر شہر کیرج کے ہندوؤں اور بدھوں نے اپنے شہر میں انکا مجسمہ بنا کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا"۔
یہ طویل اقتباس اس لئے درج کیا ہے تاکہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد خوشگوار تاثر کی گواہی دی جا سکے۔ محمد بن قاسم سے لے کر 1857ء تک تقریبا گیارہ سو پینتالیس سال برصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہم عروج و زوال سے عبارت ہیں۔ اس عرصے میں پورا ہندوستان کبھی بھی کسی ایک حکمران کے ماتحت نہیں رہا۔ یہ اعزاز صرف اورنگزیب عالمگیر کی وسیع سلطنت کو حاصل ہے۔
محمد بن قاسم کے زمانے میں برصغیر کے ایک حصے پر راشٹریہ کوت خاندان کی حکمرانی تھی جبکہ کہیں"چلوکہ" اور کہیں"چاندلیہ" کی ریاستیں قائم تھیں، قنوج، چھولہ اور راجھستان الگ الگ مملکتیں تھیں۔ اسی لمحہ بہ لمحہ بدلتی تاریخ میں محمود غزنوی ہندوستان آیا، پھر شہاب الدین غوری نے وسیع علاقہ فتح کیا اور 1206ء میں قطب الدین ایبک کے خاندانِ غلاماں کی بنیاد رکھ کر ہندوستان کے بڑے اور اہم حصے پر مسلمان سلطنت قائم کردی، جسکے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر تھے۔
اس 651 سالہ مسلم اقتدار میں اور اس سے پہلے کچھ سو سالوں میں بھی آپکو ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات نام کی چڑیا نظر نہیں آتی۔ اقتدار کی لڑائیوں میں دونوں جانب ہندو اور مسلمان اس طرح گڈ مد نظر آتے ہیں کہ اکبر اور رانا پرتاب سنگھ کی لڑائی میں اکبر کی فوج کا جرنیل ہندو راجہ مان سنگھ تھا اور رانا پرتاب سنگھ کی فوج کا جرنیل مسلمان محمد خان سوری تھا۔ کسی کے گلے پر تلوار رکھ کر اللہ اکبر کہلوانے کا کوئی واقعہ تاریخ میں نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی ہتھیاروں کے زور پر جے شری رام بلوانے کے لیے ہجوم اکٹھا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
1253 عیسوی میں مسلم پینل کوڈ اس ملک میں نافذ ہوتا ہے اور شرعی سزاؤں سے ایک ایسا معاشرہ تخلیق پاتا ہے کہ لارڈ میکالے جیسا فرد بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مجھے پورے ہندوستان میں کوئی فقیر دکھائی دیا اور نہ کوئی چور۔ شرعی سزائیں مسلمان بنانے کے لیے نہیں نافذ کی جاتیں، انہیں معاشرے میں امن قائم کرنے اور انصاف مہیا کرنے کے لیے نافذ کیا جاتاہے۔ لوگ صوفیاء کی خانقاہوں پر دھڑا دھڑ مسلمان بھی ہو رہے تھے اور بابا گرو نانک کی کرامات کے گرویدہ ہو کر سکھ بھی، لیکن کسی کو کسی سے کوئی خوف نہ تھا اور نہ ہی دھرم تبدیلی کی کوئی تحریک تھی۔
تقریباً چھ سو کے قریب ریاستیں پورے ہندوستان میں موجود رہیں۔ کہیں رعایا مسلمان تو راجہ ہندو، کہیں رعایا ہندو تو راجہ مسلمان۔ لیکن ان ریاستوں میں بھی عوامی سطح پر اللہ اکبر کا نعرہ لگوانے یا جے شری رام کہلوانے کا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ اس دور کے تمام مورخ اس بارہ سو سالہ دور کو امن و آتشی کا دور کہتے اور لکھتے چلے آئے ہیں۔ یہی گلہ تو انگریز مؤرخین نے سکولوں کی تاریخ کی کتابوں کے دیباچے میں تحریر کیا تھا کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے ملک پر قبضہ کیا، لیکن ہندو مورخ انہیں پھر بھی روادار اور منصف مزاج لکھتے چلے آرہے ہیں۔
ہندوستانی معاشرے میں نفرت، مسابقت اور تفریق کی پہلی علامتیں اسوقت نظر آنا شروع ہوئیں جب 1857ء کے بعد انگریز نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے بعد یہاں مذہبی بنیادوں پر گروہ بندی کو فروغ دینا شروع کیا۔ نفرت کا بیج بونے کا سب سے آسان راستہ عوامی نمائندگی اور جمہوریت تھا۔ جمہوریت کا خمیرہی دراصل گروہوں کے درمیان مسابقت اور اقتدار پر قبضے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ سے اٹھتا ہے۔
لوکل باڈیز کا قانون اور پھر لیجسلیٹو اسمبلی کے الیکشن تک یہ نوے سالہ جمہوری الیکشنوں کی تاریخ ہے جو قدم قدم پر ہندوؤں کو یہ احساس دلاتی رہی کہ تم ایک واضح اکثریت ہو اور تم ہی اس دھرتی کے مالک اور وارث ہو۔ جب تک انگریز برسراقتدار رہا اور اسے دونوں گروہوں کی ضرورت تھی، اس نے اس جمہوریت کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کیے رکھا۔ یہاں تک کہ اس نے جداگانہ انتخابات کے ذریعے مسلمانوں اور ہندوؤں کو علیحدہ علیحدہ نمائندے چننے دیے اور یوں اپنے اقتدار کے لئے جمہوریت کے بنیادی اصولِ اکثریت کی حکومت کی نفی کی گئی۔
جمہوری مسابقت، اقتدار کی دوڑ اور اکثریت کی حاکمیت کی بنیاد ہی تھی کہ 27ستمبر 1925ء کو ناگپور شہر میں ڈاکٹر کیشورام ہیگواڑ کی سربراہی میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی گئی اور اس روادار ہندوستان میں پہلی دفعہ 1927ء میں گنیش کی یاترا نکلی اور اس نے مسجد کے سامنے احتراماً موسیقی بند نہ کی جہاں سے پہلے ہندو مسلم فسادات پھوٹے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لئے ہے اور یہاں کسی اور کو رہنے کا کوئی حق نہیں۔ جو یہاں کا رہنے والا مسلمان یا عیسائی ہوگیا ہے، اسے واپس ہندو ہونا ہوگا۔ اگر وہ ہندوستان سے باہر سے آیا ہوا ہے تو وہ ناپاک ہے، اسے واپس بھیج دیا جائے۔ ہندو شریعت یعنی منوسمرتی کو یہاں نافذ کیا جائے اور ہمیں کسی جمہوری دستور کی ضرورت نہیں۔
27 ستمبر 1925ء سے لے کر 6 اپریل 1980ء تک پچپن سال، اس ہندو تعصب پر بنی ہوئی راشٹریہ سیوک سنگھ کی تحریک نے اپنے آپکو جمہوری ٹرین سے دور رکھا۔ اسکے دو نظریاتی لکھاری، ونود دمدّر ساورکر اور مادھو سودیش گول واکر اپنی تحریروں سے وہ اسے متعصب ہندو نوجوان تیار کرتے رہے جو انکے نظریے کے مطابق بھارت پر ہندو راج نافذ کریں گے۔ جمہوری راستے سے دوری کی وجہ سے انکو کبھی عوامی پذیرائی نہ مل سکی اور یہ اپنے مسلح کیمپوں تک ہی محدود رہے۔ لیکن پچپن سال بعد انہیں احساس ہوا کہ جس تعصب کی بنیاد پر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں اسکی بہترین سواری تو جمہوری نظام ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت کی آخری منزل ہی گروہوں کے درمیان نفرتوں کا مقابلہ کرکے اکثریت کی نفرت کا پرچم بلند کرنا ہے۔ ایسی تیز رفتار ٹرین تو کوئی اورمل ہی نہیں سکتی۔
6 اپریل 1980ء کو راشٹریہ سیوک سنگھ نے "بھارتیہ جنتا پارٹی" بنائی۔ 1984ء کے انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف دو سیٹیں مل سکیں۔ اب اسی جمہوریت کی رتھ پر سوار ہو کر رام جنم بھومی کا نعرہ بلند کیا گیا اور صرف پانچ سال بعد یعنی 1989ء میں انکے پاس 85 سیٹیں تھیں اور آج 543 کے ایوان میں 303 اراکین انکے پاس ہیں جن میں ایک بھی مسلمان نہیں۔ بھارت میں اکثریت کی جمہوری آمریت نافذ ہو چکی ہے۔ ایک ایسی آمریت جسکی کوکھ سے روز ایسے ہجوم برآمد ہوتے ہیں جو کہتے ہیں"جو نہ بولے جے شری رام، اسکو بھیجو قبرستان"۔ اور پھر کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور کسی کو ڈنڈے مار کر ہلاک دیا جاتا ہے۔
گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمان قتل ہوتے ہیں اور اس تمام ظلم کو "ہندوتوا" نظریے کی فتح قرار دیا جاتا ہے۔ 1307 سالہ ہندو مسلم تاریخ میں برصغیر کبھی اتنا خون آشام، خوفناک اور اقلیت کے لیے غیر محفوظ نہیں رہا، جتنا جمہوریت کے نظریہ حاکمیت کے دور میں اب ہو چکا ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت کی گاڑی چلتی ہی دو یا تین گروہوں کے تصادم سے ہے اور یہ ہر ایسے ملک کے لیے انتہائی خطرناک اور مہلک ثابت ہوتی ہے جس میں اس گاڑی پر ایک اکثریت مذہب کے نام پر قابض ہو جائے۔ وہ پھر اقلیت کو اس گاڑی کے پہیوں تلے کچل دیتی ہے اور جمہوریت کے نظام میں کوئی ایسا راستہ ہی موجود نہیں ہے جو مذہبی اکثریت کو برسراقتدار آنے سے روک سکے۔