یوں تو کہانی بہت پرانی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسکا جب ادراک کیا تو فرمایا پاکستان اس وقت بن گیا تھا جب پہلے مسلمان نے ہندوستان میں قدم رکھا۔ وہ عظیم رہنما بھی جب اس برصغیر پاک وہند میں ہندو مسلم اتحاد کی منافقت سے تنگ آگیا تو پکار اٹھا ہندو ناقابل اصلاح (INCORRIGIBLE)، ہیں"۔
میں نے قائداعظم کا انگریزی لفظ خاص طور پر تحریر کیا ہے تاکہ پڑھنے والے جو انگریزی جانتے ہیں، وہ اور جو نہیں جانتے، وہ ڈکشنری کے ذریعے اس لفظ کی سنگینی کا ادراک کر سکیں۔ اردو، عربی، فارسی اور دیگر زبانوں میں بھی اس لفظ کے لاتعداد مطالب ہیں۔ جنکا لبِ لباب صرف ایک ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود بھی جس کی اصلاح نہ ہو سکے اور نہ ہی جس "مرض" کا تدارک ممکن ہو۔ ایسے ہی الفاظ اور اسی طرح کی مسلسل کیفیت کا ذکر مسلمانوں کے حوالے سے اللہ نے قرآن پاک میں دو اقوام کے بارے میں کیا ہے۔ "تم یہ بات ضرور محسوس کرلوگے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو کھل کر شرک کرتے ہیں" (المائدہ: 82)۔
یہود کے بارے میں تو اب پہچان مشکل ہی نہیں رہی کہ جب سے 1916 میں برطانیہ نے بالفور ڈکلیریشن میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ "دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے یہودی ایک قوم ہیں اور انہیں اپنی ارضِ موعودہ (promised land) یعنی فلسطین میں جانے کا حق ہے" تو اسکے بعد یہودیوں نے خود کو چھپانا ترک کر دیاہے۔ انکا پہلا قافلہ اس اعلان کے ٹھیک چار سال بعد یورپ سے روانہ ہوا اور بحر طبریہ (sea of Galilee) عبور کرتا ہوا یروشلم کے آس پاس بے آباد زمینوں میں جا کر رہنے لگااور اڑتالیس سال بعد وہ ایک ملک بن کر سامنے آگئے۔ لیکن کھلا شرک کرنے والے کون ہیں؟ اللہ نے اس قوم کی شناخت شرک بتائی ہے اور یہ علامت جس میں بھی پائی جائے انکی مسلمان دشمنی "ناقابل اصلاح" ہے۔
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں اگرچہ عیسائی بھی سیدنا عیسیؑ کو خدائی میں شریک کرتے تھے بلکہ قرآن پاک نے بار بار انکے عقیدہ تثلیث (Trinity) کا ذکر کیا ہے۔ جس کے مطابق انکا ایمان تھاکہ کارِ خداوندی میں اللہ، اس کا بیٹا اور جبریل شریک ہیں۔ قرآن میں جہاں جہاں ان عیسائیوں کا ذکر آیا ہے انکو اہل کتاب یا نصاری کہہ کر پکارا گیا ہے۔ انہیں کھلا شرک کرنے والا نہیں کہا گیا۔۔ سید الانبیا ﷺ کے دور میں کھلے شرک کی سب سے واضح مثال قریش مکہ تھے جنہوں نے اپنے ان عظیم بزرگوں یا پاکیزہ ہستیوں کے بت بنا کر خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے اور وہ ان بتوں کو کارِ خداوندی میں شریک تصور کرتے تھے۔ اس شرک سے مشابہ اور ملتا جلتا شرک اگر آج کے دور میں کسی جگہ نظر آتا ہے تو وہ صرف بھارت ہے۔
ہندو عقیدہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی ہستی یا شئے جو کسی ایک فرد یا لاتعداد افراد کی مرادیں پوری کر رہی ہو تو دراصل اس میں پرماتما کی شکتی آجاتی ہے، اس لیے وہ اس قابل ہے کہ اسکا بت مندر میں رکھا جائے، اس کی پرستش کی جائے، اور اس کے سامنے ماتھا ٹیکا جائے۔ بلکہ بعض اوقات پرماتما خود بھی کسی انسانی روپ میں زمین پر جلوہ گر ہوتا ہے، تو ایسے انسان کو بھگوان کا اوتار کہا جاتا ہے جیسے ایودھیا کا شہزادہ رام چندر۔ اسی لیے جگہ جگہ رام کے مندر ہیں اور اسکی پوجا کی جاتی ہے۔
بھارت میں جس طرح کی مذہبی رسومات اور تصورات ہیں انکا موازنہ اگر بعثتِ نبوی کے وقت اہل مکہ کے مشرکین سے کریں تو بات مزید کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آج کی دنیا میں کھلا شرک کرنے والے صرف ہندو ہیں۔ یہودی اور ہندو دونوں اقوام مسلم امہ کے بنیادی علاقے کے دونوں کناروں پر آباد ہوچکے ہیں۔ ایک افریقی صحرائے سینا کے ساتھ ارض فلسطین پر اور دوسرا ارض خراسان و سندھ کے ساتھ ہند میں۔
مسلمانوں سے دشمنی میں یہودیوں اور ہندوئوں میں ایک اور مماثلت ہے کہ دونوں اپنے ادیان میں ارضِ موعودہ یا مقدس سرزمین کا ایک نقشہ رکھتے ہیں اور دونوں اپنی ان مقدس سرزمینوں پر کسی دوسرے انسان کا حق تسلیم نہیں کرتے۔ یہودیوں کی ارض مقدس سیدنا ابراہیمؑ کے اس سفر سے شروع ہوتی ہے جو انہوں نے دریائے فرات کے کنارے اپنے وطن "ار" سے شروع کیاتھا۔ یہ شہر ان دنوں ترکی میں عرفہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور آپ پھر فرات کے کنارے کنارے چلتے ہوئے جزیرہ نما عرب سے ہوتے ہوئے الخلیل پہنچے جہاں ان کا مزار مبارک ہے۔
یہودیوں کے نزدیک یہ خطہ ارضی ہی وہ سرزمین ہے جس پر ایک دن انکی عالمی حکومت قائم ہوگی۔ اس حکومت کا مرکز ہیکل سلیمانی ہوگا جہاں انکا مسیحا داودؑکے تخت پر بیٹھ کر حکومت کرے گا۔ یہودی اس علاقے کے حوالے سے کسی بھی قوم کے پیدائشی حق وطنیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ انکے نزدیک یہ زمین صرف اور صرف بنی اسرائیل کی ہے اور وہ ایک دن یہاں پر بسنے والے تمام لوگوں کو اس سرزمین سے نکال دینگے اور اس مقدس سرزمین پر تالمود اور تورات کے قوانین نافذ کردیں گے۔
ہندوئوں کے نزدیک بھی برصغیر پاک وہند ایک مقدس، پوتر اور پاک استھان ہے جس میں آسمانوں سے دیوتا تشریف لائے اور اسے ایک خوبصورت سرزمین میں بدل دیا۔ اس میں گنگا جیسی مقدس ندی بہتی ہے۔ شیو کے آنسوئوں سے پھوٹنے والے دوچشمے "کٹاس راج" اور "پوشکر" موجود ہیں۔ یہاں مدتوں صرف دیویاں اور دیوتا رہتے رہے، پھر یہاں کچھ خاص نسلوں کو پیدا کیا۔ انہیں بھگوان نے جسم کے مختلف حصوں سے تخلیق کیا۔
برہمن کو سر سے پیدا کیا اور شودر کو پاں سے، اسی طرح جسم کے دوسرے حصوں سے کھشتری اور ویش پیدا کیے گئے۔ ہندوئوں کے نزدیک اس برصغیر میں صرف انہی قوموں کو رہنے کا حق حاصل ہے جو دیوتاں نے پیدا کیں۔ یہاں پر باہر سے آنے والے تمام حملہ آور اور انکے ساتھ آباد ہونے والی اقوام ملیچھ یعنی نا پاک ہیں اور ان سے اس پوتر سرزمین کو پاک ہونا چاہیے۔ جس طرح یہودی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ یہودی جو مذہب چھوڑ کر چلا جاتا ہے وہ بنی اسرائیل کا حصہ نہیں رہتا ویسے ہی ہندو بھی اس برہمن یا راجپوت کو برہمن یا راجپوت کی نسل سے خارج کردیتے ہیں جو ہندو مت یا ویدانتی مذہب چھوڑ جاتا ہے۔
تیسری اور اہم ترین قدر مشترک یا مماثلت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں یہودیوں کے ہاں نسلی برتری اور بالادستی کی تحریکیں شروع ہوئیں اور صہیونیت (Zionism)، اسکے بطن سے برآمد ہوئی جسکا برملا اعلان، 1920 کے آس پاس ہوا۔ بالکل اسی طرح انیسویں صدی کے آخر میں ہندوتوا کا بیج شیواجی کی شکست کے بعد بویا گیا اور 1925 میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی بنیاد پڑی۔ جسکا بنیادی نظریہ اس پوتر سرزمین سے غیر مذہب نسلوں کو نکال باہر کرنا ہے اور اگریہاں کی وارث نسلوں برہمن، کھشتری، ویش اور شودروں میں کوئی دوسرا مذہب اختیار کر چکا ہے تو اسے واپس ہندو بنانا ہے۔
آج بھارت اور فلسطین دونوں خطے میرے اللہ کے اس اعلان کی گواہی دے رہے ہیں کہ انسانوں میں مسلمانوں سے دشمنی میں سب سے سخت یہودی ہوں گے یا کھلا شرک کرنے والے۔ اسلام صرف انکی دشمنی کے بارے میں بتایا ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ کے رسول ﷺ ان سے اعلان جنگ کرتے ہوئے دو لشکروں کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ یہ دونوں لشکر کون ہیں؟ ایک وہ جو جہاد ہند میں شامل ہوگا اور دوسرا وہ جو عیسی ابن مریم کے ساتھ یہودیوں سے جنگ کرے گا (مفہوم حدیث)۔
کون ہے جو کہتا ہے کہ اللہ کا کلام سچ نہیں ہے یا پھر کون ہے کہ جو میرے آقا ؐکی احادیث کی اطلاع کو برحق نہیں مانتا۔ اب تو سب روز روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے۔