جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے بعد اگرچہ کہ پوری دنیا، رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کر دی گئی تھی، لیکن وہ مغربی طاقتیں جنہوں نے فتح کے بعد اس تقسیم کی بنیاد رکھی، آج یورپی یونین کے نام پر ایک پرچم، ایک پارلیمنٹ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک کرنسی "یورو" کی بنیاد پرایک اکائی کی صورت متحد ہیں۔ باقی تمام دنیا کے لیے یہ اٹھائیس ممالک ایک ایسا متحد خطہ ہیں کہ آپ اس میں شمالی کونے یعنی فن لینڈ سے داخل ہوں اور جنوب میں مالٹا کے ملک پہنچ جائیں، تو آپ کہیں روکے جائیں گے اور نہ ہی آپ کو یہ احساس ہونے پائے گا کہ آپ کسی دوسرے ملک میں داخل ہورہے ہیں۔
شاندار موٹروے پر تیز رفتار گاڑی میں بیٹھے آپ کو اچانک سائیڈ پر سڑک کے اوپر ایک بورڈ نظر آئے گا کہ آپ فرانس سے بلجیم یا بلجیم سے ہالینڈ میں داخل ہورہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر دو ملکوں کے درمیان سمندر بھی حائل ہو تو ایک ملک سے آپ ٹرین میں سوار ہوں، ساحل سمندر پر ٹرین پوری کی پوری ایک بڑے سے بحری جہاز میں داخل ہو جاتی ہے اور آپ سمندر کا سینہ چیرتے دوسرے ملک میں پہنچ جاتے ہیں۔ ٹرین جہاز سے خشکی پر اترتی ہے اور آپ سویڈن سے جرمنی یا ناروے ڈنمارک پہنچ جاتے ہیں۔
یہ تمام اٹھائیس ممالک ایک دوسرے کو معاشی طور پر اس طرح تحفظ دیتے ہیں کہ پرتگال اور یونان جیسے غریب ممالک کی کرنسی بھی مضبوط ترین "یورو" ہے اور جرمنی اور فرانس جیسے امیر ملک بھی اس یورو میں کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن یورپ نے اپنے بڑے اتحادی امریکہ کے ساتھ مل کر ایشیا اور افریقہ کے براعظموں کی ایک ناہموار اور زمینی حقائق سے ماورا تقسیم کرکے زمین کے سینے پرجو لاتعداد لکیریں کھینچی تھیں اور جو ملک تخلیق کیے تھے، آج ان میں نفرت کے بیج بو کر اور لڑائی کے خاردار درخت لگا کر انہیں متحد نہیں ہونے دیا جاتا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام ممالک کے وسائل پر مغربی ممالک کی کارپوریٹ کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ تیل ہو یا معدنیات، زرعی پیداوار ہو یا سمندری حیات سب کی سب ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں ہیں۔ افریقہ کی تقریبا ڈیڑھ ارب آبادی اور تین کروڑ مربع کلومیٹر رقبہ، 52 ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ملک کی سرحدیں یوں لگتا ہے میز پر نقشہ بچھا کر بنائی گئیں تھیں۔ خاندان تک ان لکیروں میں تقسیم کر دیے گئے۔
وسائل کے اعتبار سے امیر ترین براعظم افریقہ، کا حال یہ ہے کہ ممالک کی فہرست میں آخری چوبیس غریب ممالک کا تعلق افریقہ سے ہے۔ یہی حال ایشیا کا کیا گیا، یعنی ساڑھے چار ارب کی آبادی اور ایک کروڑ 72 لاکھ کلومیٹر رقبے کو پچاس ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس تقسیم میں شمالی ویتنام/جنوبی ویتنام اور شمالی کوریا/جنوبی کوریا جیسی خالصتا جنگی سرحدیں بھی شامل تھیں۔ لیکن بدترین تقسیم دو براعظموں پر پھیلی ہوئی مسلم امہ کی گئی۔ ایک ایسی امت جو تیرہ صدیوں سے نہ صرف مذہب بلکہ تہذیب و ثقافت اور مرکزیت کے حوالے سے بھی ایک مشترکہ ورثے پر قائم تھی۔
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زیر تربیت صحابہ کرامؓ جن خطوں میں اسلام کا پیغام لے کر پہنچے، انکی تہذیب، ثقافت، کلچر، یہاں تک ان کی مادری زبان تک تبدیل ہوگئی۔ لیبیا، مصر، سوڈان، شام، عراق اور اردن جیسے ممالک میں کبھی عربی نہیں بولی جاتی تھی۔ لیکن آج یہ عرب دنیا کا حصہ ہیں۔ یہاں تک کہ آج ان کی قدیم زبانوں کے آثار تک ڈھونڈنا مشکل ہیں۔ مسلم امہ کی اس تقسیم کا آغاز جنگ عظیم اول کے بعد ہی کر دیا گیا تھا۔ اسکی دو بنیادی وجوہات تھیں۔
پہلی اور اہم ترین بات یہ تھی کہ گئی گزری سہی، خلافت عثمانیہ مسلمانوں کو ایک مرکزیت فراہم کرتی تھی اور اسکے زیر نگین، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی وہ مرکزی سرزمین تھی جہاں پر قائم حکومت کی وجہ سے ہی تیرہ سو سال کے تسلسل کے ساتھ امت متحد تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ دنیا میں تیل دریافت ہو چکا تھا اور تمام بنیادی سروے یہ خبر دے رہے تھے کہ اللہ نے مسلمانوں کی سرزمین کو اس دولت سے مالا مال کیا ہے۔ اب صرف اس بات پر غور کریں کہ بوسنیا سے لے کر لیبیا تک کی خلافت عثمانیہ، اگر تیل کی دولت بھی اسکی معیشت میں شامل ہوجاتی تو آج وہ دنیا کو اپنے اشاروں پر چلا رہی ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ اس امت کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ، جس کے پاس جتنا زیادہ تیل کا خزانہ تھا، اس کا اتنا ہی چھوٹا ملک بنا دیا گیا۔ قطر، بحرین، کویت، ابودبئی، دبئی، مسقط وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ عراق، شام، اردن اور لبنان کو ایسے تقسیم کیا کہ اگر کردوں سے جنگ ختم ہو تو شیعہ سنی لڑائی شروع ہو جائے اور اگر دونوں امن سے رہنے لگیں تو اسرائیل میں یہودیوں کو بٹھا کر پورے خطے کو بدامنی کا شکار اور مسلسل جنگ میں الجھا دیا گیا۔
آج اس تقسیم کو تقریبا ایک صدی ہونے کو آئی ہے۔ قومی ریاستیں اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے مفادات کے قلعوں میں قید ہو چکی ہیں۔ ہر کسی کا اپنا ملک ہے جسے وہ "سب سے پہلے" کے نعرے کے ساتھ تحفظ دیتا ہے۔ اگر اس خطے میں اسرائیل نہ ہوتا تو شاید یہ ملک افواج اور دیگر تنازعات کے بغیر زندگی گزار رہے ہوتے۔ کیونکہ جس طرح سرمائے کی بہتات نے ان خانہ بدوشوں کو تعیش کی زندگی عطا کی تھی اور وہ سب اختلافات فراموش کرکے اسی عیش و عشرت میں غرق رہنے لگے ہیں، ایسے میں انہیں غفلت کی نیند سے کون جگا سکتا تھا۔ لیکن کون جانتا تھا کہ قضا و قدر کے کارندے اس پورے خطے کو اس آخری عالمی جنگ کیلئے تیار کر رہے ہیں جس کا ایک فریق اپنے لاؤ لشکرکے ساتھ اسرائیل میں آکر پڑاؤ ڈال چکا ہے اور باقی ماندہ یہودی آبادی بھی اس آخری معرکے تک واپس لوٹنے کے عزم سے بپھری ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعدکے اٹھارہ سال سے یہ سرزمین کشمکش اور جنگ کے شعلوں سے آتش فشاں بن چکی ہے۔ جنگ عظیم اول سے نائن الیون تک اسی امت کے نو تخلیق کردہ ستاون ملکوں کی سرحدوں میں ایک استحکام آچکا تھا اور ان سرحدوں کے تقدس کو مانا جانے لگا تھا، اس لیے فتنہ گروں کے نزدیک ایک نئی تقسیم بہت ضروری ہوگئی تھی۔ اس دفعہ منصوبے کو لارنس آف عریبیہ کی طرح خفیہ نہ رکھا گیا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر گیارہ ستمبر کے حملے کے دو دن بعد امریکی فوج کے سہ ماہی رسالہ پیرامیٹرز (Parameters) میں کرنل رالف پیٹرز (Ralf Peters) کا مضمون چھپا جس کا عنوان تھا "Remodelling the world" یعنی "دنیا کی ازسرنو تقسیم"۔ اس کا ذیلی عنوان تھا "Starting with Broader middle East" یعنی " اس کا آغاز وسیع مشرق وسطی کی تقسیم سے ہوگا"۔
یہ ایک مضمون ہی رہتا اگر ایک ماہ بعد امریکی وزیردفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ اسے پینٹاگون کا منصوبہ قرار نہ دیتا۔ یہی نہیں، بلکہ اس نے ایڈمرل آرتھر سیباروسکی (Arthur Cebrowski) کو اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے اختیار تفویض کر دیے۔ یہ ایڈمرل آرتھر وہ شخص ہے جسے صدر بش نے Force Transformation یعنی امریکی فوج کی تشکیل نو کے لیے سربراہ مقرر کیا تھا۔ آج پینٹاگون کی جو نئی ترتیب وتدوین ہے اور عالمی محاذوں پر جو حکمت عملی ہے وہ سب اس کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ اس کے نائب تھامس بارنیٹ (Thomas Barnet) نے 2005ء میں اس پراجیکٹ کے سارے کام پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام پینٹاگون کا نیا نقشہ (The Pentagon Newmap)تھا۔
اس میں وسیع مشرق وسطی کی جو تقسیم بیان کی گئی تھی اس پر مبنی ایک نقشہ کرنل رالف پیٹرز نے تیار کیا اور امریکی آرمی کے جرنل میں 2006ء میں شائع کر دیا۔ جب اس پلان پر عملدرآمد شروع ہوا تو 2103ء میں نیویارک ٹائمز کے سنڈے میگزین میں پینٹاگون کے محقق رابن رائٹ (Robin Wright) نے مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کردیا اور بتایا کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی کی جاتی رہیں گی۔ (جاری)