ایک صدی گزرنے کے بعد ایسا کیوں سوچا جا رہا ہے کہ امت مسلمہ کے مرکزی حصے یعنی مشرق وسطیٰ کی ایک بار پھر تقسیم کی جائے، اور نئی حد بندیاں بنائی جائیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قوم پرستی کے جس جذبے کی بنیاد پر 1924ء کے بعد یہ تمام ممالک وجود میں لائے گئے تھے وہ اگرچہ بے شمار جگہوں پربالکل مصنوعی تھا لیکن سوسال کی عادت اور ایک سرحد کے اندر رہنے نے اسے قوموں کے لاشعور کا حصہ بنا دیا ہے۔
ایک عراقی، ایرانی، شامی یا مصری اپنے ملک کے اسی قفس کو آشیانہ سمجھتا ہے اور اس کی محبت کے گیت گاتا ہے۔ زمین کا ٹکڑا اور سرحدیں ان برسوں میں اسقدر مقدس ہوگئیں کہ ہر کوئی مادرِ وطن کے ایک انچ کے ٹکڑے پر بھی ہزاروں جانیں قربان کرنے کو تیار ہے۔ سو سال پہلے کی تقسیم سوچ سمجھ کر کی گئی تھی۔ ایسے ملک تراشے گئے تھے، جن میں مختلف نسلی و قبائلی گروہ موجود تھے، جو آپس میں بالادستی کی جنگ کرتے رہیں۔ جیسے کردوں کو پانچ ملکوں میں تقسیم کرکے ہر ملک میں مسلسل علیحدگی پسند تحریکوں کو زندہ رکھا گیا۔
شیعہ سنی تقسیم بھی کافی گہری تھی، لیکن اسے پہلے پچاس سالوں میں خاص طور پر دبایا گیا تاکہ کہیں اس کی کوکھ سے دوبارہ مذہبی جذبات پیدا نہ ہو جائیں۔ یہ پہلے پچاس سال ویسے بھی سردجنگ کے سال تھے۔ سوویت یونین اور مغربی دنیا ایک دوسرے کو شکست دینے اور ملکوں کو اپنے زیر تسلط کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ایران کا رضاشاہ امریکی تھانیدار تھا تو مصر کا جمال عبدالناصر روس کا گماشتہ۔
فلسطینیوں کی وہ تحریک جو خالصتا ایک دوسرے مذہب یعنی یہودیت کے ماننے والوں کی خالص مذہبی ریاست کے مقابلے میں مسلمان قوم کو بے دخل کرنے کے خمیر سے اٹھی تھی، اسے بھی پانچ دہائیوں تک ایک خالصتا قوم پرست، سامراج دشمن اور سوویت یونین کی حمایت یافتہ تحریک کا مقام حاصل رہا ہے۔ اس کے تصور کو ایک کثیر المذاہب فلسطینی قوم پرست تحریک کے طور پرزندہ رکھا گیا یہاں تک کہ الحاد کا ثبوت دینے کے لیے الفتح نے فلسطین کے بازاروں میں اللہ کے جنازے کا جلوس بھی نکالا۔
پچاس سالوں میں یہ تمام سرحدیں اسقدر مضبوط ہوگئیں اور لوگوں کے دلوں میں اپنی اپنی وطنیت کا تصور اتنا راسخ ہوگیا کہ ہر اسلامی انقلابی تحریک بھی انہی سرحدوں کے اندر انقلاب لانے کا نعرہ لگانے لگی۔ مصر میں اخوان المسلمون تھی تو پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسی طرح ترکی، تیونس، لیبیا، عراق کی اپنی علیحدہ اسلامی تحریکیں۔ ان سرحدوں کو توڑ کر ایک مسلم امہ اور ایک خلافت کی آواز جب کالعدم حزب التحریر نے اٹھائی تو اس پر مسلم امہ کی اس مرکزی سرزمین یعنی وسیع مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں پابندی لگادی گئی۔
کسقدر حیرت کی بات ہے کہ اس تنظیم پر امریکہ، یورپ، ملائشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش وغیرہ میں تو پابندی نہیں، لیکن پاکستان سے لیبیا تک ہر ملک میں پابندی عائد ہے۔ کیونکہ یہ مسلم امہ کی مرکزی سرزمین ہے۔ یہاں اگر خلافت کی مرکزیت ایک دفعہ دوبارہ قائم ہوگی تو پھر پوری امت کو متحد ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ستر کی دہائی تک یہ قومی ریاستیں اس قدر مستحکم اور وطنیت کے جذبات اسقدر حاوی ہوگئی تھیں کہ یوں لگنے لگ گیا تھا کہ یہ سب اسلامی ملک مل کر کہیں اپنا ایک مضبوط بلاک نہ بنالیں، جس کی ابتدا 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس سے ہوئی اور پھر جب اسی سال سعودی عرب کے شاہ فیصل نے تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور پورے یورپ کے پٹرول پمپوں پر قطاریں لگ گئیں تو لیبیا سے لے کر پاکستان تک کی یہ مرکزی سرزمین مغربی دنیا کیلئے ایک خطرے کی علامت بن گئی۔
1979ء ایک اہم سال تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب آیا اور افغانستان میں روس کی افواج داخل ہوئیں۔ اس کے بعد کے 25سال، یوں لگتا ہے پورا خطہ جیسے نئی حدبندیوں کے لیے انگڑائی لے رہا تھا۔ افغان جہاد نے لیبیا سے لے کر چیچنیا اور انڈونیشیا سے لے کر یمن تک مجاہدین کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ سب افغانستان کی سرزمین پر صرف اللہ اکبر کے نعرے کے تحت لڑ رہے تھے اور مجاہدین میں یہ تصور جڑ پکڑ رہا تھا کہ ملکوں کی یہ سرحدیں بے معنی ہیں۔
صرف پندرہ سال کے مختصر عرصے میں ایک بہت بڑا بلاک یعنی "کیمونسٹ بلاک " دنیا کے نقشے سے غائب ہوگیا۔ پندرہ سالہ جہاد کی راکھ سے جو چنگاری سلگی اس نے امت مسلمہ کے تصور کی آتش دلوں میں گرما دی۔ اسوقت تک ایران اپنے انقلاب کو اسلامی دنیا میں پھیلانے کے تصور سے واپس لوٹ چکا تھا اور صرف ایرانی مفادات تک محدود ہو چکا تھا۔ صدام اور حافظ الاسد کا سرپرست روس بھی دفن ہو چکا تھا۔ ایسے میں نائن الیون ہوا اور اس سے پہلے کہ یہ پوری امت کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجاتی، ایک ایسی چال چلی گئی کہ اسی امت کو مغرب کے شانہ بشانہ افغانستان کے خلاف متحد کردیا گیا۔ اسلامی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ تھا کہ "ایک ہوں مسلم دہشت گردی کی امریکی جنگ کے لئے"۔
دوسری جانب پنٹاگون کا یہ پروجیکٹ شروع کیا گیا کہ اس امت کو ایک بار پھر قومیتوں اور عصبیتوں کے نام پرازسر نو تقسیم کردیا جائے تاکہ اب کی بار جو زلزلہ آئے اسے پھرسنبھلنے میں ایک صدی لگ جائے اور اتنی دیر میں ان نئے قائم ہونے والے ملکوں پر مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ قائم اور مستحکم رہے۔
ایڈمرل آرتھر سیباروسکی (Arthur Cebrowski) کے 2001ء کے تشکیل نو کے پراجیکٹ کے ابتدائی خدوخال میں پاکستان، افغانستان اور ایران کی کئی ملکوں میں تقسیم بھی شامل تھی۔ لیکن 2019ء تک آتے آتے زمینی حقائق اسقدر بدل گئے ہیں کہ ان تین ملکوں کو پراجیکٹ سے باہر نکال دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دراصل افغانستان میں طالبان کی فتح اور امریکہ کی شکست ہے۔ زمینی حقائق امریکہ کے مخالف ہو گئے ہیں۔ اب صرف پانچ ملکوں شام، عراق، یمن، لیبیا اور سعودی عرب کو چودہ ملکوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ باقی ہے جس پر 2013ء سے عملدرآمد شروع ہے۔ اسکے بارے میں پینٹاگون کے سرکاری محقق رابن رائٹ نے پانچ سال قبل ہی نیویارک ٹائمز کے سنڈے سپلیمنٹ میں اپنے تفصیلی مضمون میں اشارہ دے دیا تھا۔
اس وقت جو دو نقشے نومبر 2019ء میں فوجی حکمت عملی کے سرکاری جریدوں میں گردش کر رہے ہیں، انکے مطابق لیبیا کے نقشے کو تین ملکوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو علاقائی قبائلی نفرتوں کی بنیاد پر تقسیم ہوگا۔ (1) طرابلس والا قدیم ٹرپلوٹانیا (Tripolitania)(2) سارنیکا (Cyrenaica) اور (3) فیضان کی قدیم صحرائی ریاست۔ دوسرے نقشے کے مطابق یمن کے واپس دو حصے یعنی شمالی اور جنوبی یمن ہو جایئں گے۔
سعودی عرب کے پانچ ممالک بنائے جائیں گے، شیعوں کے لیے (1) الشرق (2) آل سعود کے لیے وہابستان جو ریاض کے آس پاس ہوگا (3) حجاز یعنی مکہ مدینہ (4) یمن کا کچھ حصہ اورجنوب سعودی عرب ملا کر اور یمن کا شمال ملا کر جنوبی عرب (5) شام اور شمالی سعودی عرب سے شمالی عرب۔ اسی طرح عراق اور شام کے کچھ حصے ملا کر چار ممالک بنائے جائیں گے (1) ایرانی سرحد کے ساتھ شیعہ ملک (2) ترکی کی سرحد کے ساتھ کردستان (3) شام کے حلب، ادلب، رقہ اور عراق کے موصل، کرکوک سے نئی ریاست اور (4) اسرائیل کی سرحد کے ساتھ گولان اور جبلِ دروز کے ساتھ علویوں اور نصیریوں کا ملک" علویستان"۔
یہ ایک خواب نہیں منصوبہ ہے کہ کیسے پانچ مسلم ممالک کو چودہ ممالک میں ازسر نو تقسیم کرکے ان تمام کی سرحدوں پر ویسی ہی نفرت پیدا کی جائے، جیسی ایک نوزائیدہ ریاست کی تخلیق کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح پاکستان اور بنگلہ دیش کی نفرت آج بھی موجود ہے۔ یوں اگلی ایک صدی مسلم امہ ایک بار پھر نفرتیں سمیٹتی رہے گی۔ لیکن شاید اس دفعہ ایسا ممکن نہ ہو سکے۔ میرے اللہ کا آپ اپنا منصوبہ ہے جس نے افغانستان میں طالبان کو فتح سے ہمکنار کیا اور تین ممالک کو منصوبے سے نکال دیاگیا۔
مشرق وسطیٰ بھی اب کسی "مرد کامل" کی منتظر ہے وہ شخص کہ جس کا پرچم جب بلند ہوگا تو خراسان (افغانستان) کے فتح یاب پرچم اس کی نصرت کے لئے روانہ ہوجائیں گے۔ ایسے میں پینٹاگون کے سارے نقشے بحیرہ عرب و قلزم و احمر میں غرق ہو جائیں گے۔