Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Nai Bisat Bich Chuki Hai

Nai Bisat Bich Chuki Hai

ہر کوئی اپنا آخری دا کھیلنا چاہتا ہے۔ منظرنامہ یہ ہے کہ بساط الٹ چکی ہے، اور امریکہ کو شہہ مات ہو چکی ہے لیکن پھر بھی افغانستان کے میدان پر بچھائی گئی شطرنجی کے کھلاڑی تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، اپنے مہروں کو دوبارہ سجا کر شکست کو باعزت اور جیت کو بد مزہ کرنا چاہتے ہیں۔

امریکہ اور اس کے حواری نیٹو ممالک، روس، بھارت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ نواز سیکولر نما طالبان دشمن عناصر اپنی اپنی چالوں میں مصروف ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو اندازہ تک نہیں کہ وقت ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور تاریخ ان سب کے منہ پر شکست کے آثار تحریر کر چکی ہے۔ آج سے اٹھارہ سال قبل یہ سب کے سب امریکی رتھ پر سوار تھے۔ امریکی دفاعی تجزیہ کار اور معیشت دان گہرائی سے تجزیہ کرتے ہیں کہ اگر وہ یہ جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر لڑنے نکلتے تو ان کا کیا حشر ہوتا، تو اسکا تصور کرتے ہوئے بھی وہ کانپ اٹھتے ہیں۔

پاکستان کے بغیر امریکہ اگر یہ جنگ لڑتا تووہ آج ایک دیوالیہ ملک ہوتا۔ پاکستان نے اپنی بہتر سالہ تاریخ میں سب سے بڑی سبسڈی (Subsidy)امریکہ کو افغان جنگ میں مدد کی صورت میں دی ہے۔ امریکہ کے محکمہ دفاع کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک امریکی سپاہی پر سالانہ 1.5 ملین یعنی 15 لاکھ ڈالر خرچہ آتا ہے۔ اس جنگ کے دوران امریکہ کو افغانستان میں پرسکون آپریشن کے لئے پاکستان نے مغربی سرحدوں پر ایک لاکھ فوجی تعینات کیئے۔

اگر یہ فوجی نہ ہوتے تو امریکہ کو افغانستان کی مشرقی سرحدیں محفوظ بنانے کے لیے اتنے ہی فوجی تعینات کرنے پڑتے، جن پر سالانہ ایک ہزار پانچ سو ارب یعنی ڈیڑھ ٹریلین ڈالر خرچہ آتا۔ اب اس سالانہ خرچے کو سترہ سالوں سے ضرب دیں تو یہ 25 ہزار ارب یعنی 25 ٹریلین ڈالر بنتا ہے۔ لیکن پاکستان نے امریکہ کو جنگ میں سبسڈی دیتے ہوئے اپنے سپاہی کا خرچہ دس ہزار ڈالر سالانہ بتایا اور اس مد میں امریکہ سے صرف 14.6 ارب ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کے طور پر لیے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ نے احسان جتاتے ہوئے 18.8 ڈالر امداد کے طور پر فراہم کیے۔

یہ کل 34.4 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ ان ڈالروں کے عوض امریکہ نے جو ہم سے حاصل کیا وہ تباہ کن ہے۔ اس میں دہشت گردی کی جنگ میں ستر ہزار جانوں اور مستقل نفرت کے خاردار جنگل اگانے کے علاوہ امریکی امداد کا سب سے اہم ترین مقصد Re-engineering the society as it is saw fit to American needs یعنی "پاکستانی معاشرے کو امریکی معیارات و ضروریات کے مطابق ڈھالنا"۔

یہ وہ مقصد تھا جس کے نتیجے میں نظام تعلیم کے تحت تعلیمی اداروں کو الحاد اور سیکولرزم کی نرسریاں بنایا گیا، مذہبی سوچ، مذہبی لباس یہاں تک مذہبی اقدار کو میڈیا کی دھونس سے تمسخر کا نشانہ بناکر مطعون کیا گیا۔ لفظ "جہاد" ملک میں گالی بنا دیا گیا اور منبر ومحراب پر بیٹھ کر قرآن سنانے والے بھی اس لفظ کی ادائیگی سے کانپنے لگے۔ لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ طبقہ مایوس ہے مگر ایک زخمی سانپ کی طرح پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ انہیں یہ بات ہضم ہی نہیں ہورہی کہ دنیا بھر کی ٹیکنالوجی کی قوت کو چند ہزار نہتے شکست دے دیں گے۔

وہ یہ دکھ بھی ہضم کر جاتے، لیکن انہیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ جس دن ان چند ہزار اللہ پر توکل کرنے والوں کا اقتدار افغانستان میں قائم ہوجائے گا تو یہ پوری مسلم امت کو ایسا اعتماد، حوصلہ اور توکل کی ایسی طاقت عطا کرے گا جسے شکست دینا نا ممکن ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا یہ سیکولر طبقہ، ان مذاکرات کی کامیابی سے پہلے کوئی وار کرنا چاہتا ہے۔ کوشش ایک ہی ہے کہ کسی طرح طالبان کو گھیر گھار کرتمام افغان گروہوں کے ساتھ ایک مشترکہ اقتدار کے لئے قائل کیا جاسکے۔

دوسری جانب بھارت ہے جسکی ساری کمائی لٹ گئی۔ امریکہ کے ساتھ اہم ترین پارٹنر کی حیثیت سے بھارت نے افغانستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، انکی فوج، خفیہ ایجنسی اور پولیس کو ٹریننگ دی، جسکے بدلے میں اسے وہاں قدم جما کر دو مقاصد حاصل کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ ایک پاکستان کو خطے میں تنہا کرنا اور دوسرا پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کی مدد کرکے اسے غیر مستحکم کرنا۔

امریکہ نے شکست دیکھی تو گذشتہ سال پینٹاگون نے بھارت سے کہا کہ وہ افغانستان میں امریکی افواج کی جگہ لے کر جنگ لڑے لیکن بھارت کی ٹانگیں کانپ گئیں۔ جواب دیا گیا کہ ہمارے پاس آپ جیسی ٹیکنالوجی ہے اور نہ آپ جتنی دولت۔ امریکہ کو اس دن احساس ہوا کہ اس نے ایک غلط گھوڑے بھارت پر دا لگایا تھا۔ یوں امریکہ نے ایک سال پہلے بنائی گئی چین مخالف پینٹاگون پالیسی دفن کر دی، کہ اب خطے میں چین کو کس کے بل بوتے پر روک سکیں گے۔ چین سے معاملات درست کے لئے گئے تو فورا بھارت کی پالتو "بلوچ لبریشن آرمی" کو امریکہ نے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔

گیارہ اور بارہ جولائی 2019 کو بیجنگ میں چار ممالک، امریکہ، روس، چین اور پاکستان، افغان امن کے روڈ میپ طے کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے تو انہوں نے بھارت کے افغانستان سے بوریا بستر گول کرنے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ پیچ و تاب کھاتا ہوا بھارت آخری دا چلنا چاہتا ہے۔ اسکا سب سے اہم مہرہ زلمے خلیل زاد انہیں مسلسل رہنمائی فراہم کرتا رہا۔ آخری دا تھا کہ اگر طالبان افغانستان میں برسراقتدار آ گئے تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑجائے گا اور یوں تمام جہادی بھارت میں کشمیر کا رخ کرلیں گے۔ یوں خطے میں جہاد مزید بڑھے گا اور سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ آخری مرتبہ افغان الیکشن ستمبر میں کروا کر طالبان کی قوت کو آزمایا جائے۔

ظاہر ہے ایسا کرنے سے وہاں بھارت نواز حکومت آجائے گی۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ بھارت میں بھی لوہا گرم کیا جائے تاکہ دنیا بھر کو عالمی جہادی قوتوں کے یہاں پنپنے کے خوف سے ڈرایا جا سکے۔ اسی لئے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے کرفیو لگایا گیا اور نیشنل رجسٹریشن کے نام پر 25 کروڑ مسلمانوں کو اس خوف میں مبتلا کیا گیا کہ ایک دن تم دنیا میں کسی بھی ملک کے شہری نہیں رہوگے۔ کشمیر میں بیس دن سے کرفیو ہے اور ظلم کی داستان لکھی جا رہی ہے اور آسام میں تیس لاکھ مسلمانوں کو شہریت کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے۔

لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی امریکی اس تصور سے ہی خوفزدہ ہیں کہ وہ طالبان سے ہونے والے معاہدے کی صورت میں افغانستان سے نکلنے میں چند لمحوں کی بھی تاخیر کریں۔ وہ تو صرف دو ہفتوں کا سیز فائر مانگ رہے ہیں تاکہ بحفاظت افغانستان سے نکل سکیں۔ ایسے میں بھارت اور پاکستانی سیکولر لبرل اور ملحد طبقے کا دکھ بھی مشترک ہے اور خوف بھی سانجھا۔ یوں دونوں کا ماتم بھی ایک جیسا ہے۔ انکے برعکس، روس کی خواہش معصوم سی ہے کہ طالبان مزید کچھ دیر سمجھو تہ نہ کریں اور امریکہ کا خون کچھ دیر اور اس سرزمین پر رستا رہے۔

یہ ماتم گسارانِ الحاد اب کچھ نہیں کر سکتے۔ انکا وقت بیت چکا۔ میرے اللہ نے توکل کی دولت سے مالامال طالبان کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اپنی نشانیاں واضح کر دیں۔ اب دوسری بساط بچھ چکی ہے۔ شطرنج کی اگلی بازی کا آغاز ہے۔ اس دفعہ اس بازی کو بھی وہی کردار کھیل رہے ہیں جو پہلے سے موجود تھے۔ بس شطرنجی اٹھا کر بھارت میں بچھا دی گئی ہے۔ جارج بش کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو اس نے دوسری مرتبہ الیکشن جتنے کے بعد کانگریس میں کہے تھے "ہم اتنے بھولے نہیں کہ ہمیں چین اور بھارت کی معاشی ترقی کے خطرے کا احساس نہ ہو۔ بھارت ہمارے لئے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ اسکا تعلیمی نظام ہمارے جیسا ہے"۔

کتنی معصوم سی خواہش ہے امریکہ کی، جس میں آسام سے لے کر کشمیر تک لاتعداد خطوں کی آزادی چھپی ہوئی ہے۔ بساط پر چین اور روس کے مہروں کی دبی خواہشیں بھی ایسی ہی ہیں۔ پاکستان پہلے کی طرح اردگرد دیکھ کر چال چل رہا ہے۔ مقصد صرف ایک ہے، دنیا کے نقشے پر چند مزید سیکولر ریاستیں۔ لیکن وہ جنہیں میرے اللہ نے خراسان (افغانستان) میں 39 سال جنگ کی بھٹی میں ڈال کر تیار کیا وہی اب بھی بساط اپنی مرضی سے الٹ دیں گے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran