اس لمحے جب پاکستان کے پارلیمانی نظام اور گھسے پٹے سیاسی طریقہ انتخاب و اقتدار سے مایوسی کی آوازیں چاروں سمت گونج رہی ہیں اور ہر کوئی نظام کی تبدیلی پر گفتگو کرتا نظر آرہا ہے، توایسے میں میرے لئے، بلکہ ہر سوچنے سمجھنے اور عقل و ہوش رکھنے والے مسلمان کیلئے یہ المیے سے کم نہیں کہ اس ملک میں موجود دو درجن سے بھی کہیں زیادہ اسلامی پارٹیاں اس جمہوریت کے کھوکھلے درخت اور اس پارلیمانی نظام کے دیمک زدہ ڈھانچے کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہیں۔ وہ پارلیمانی جمہوریت جسکی برائیوں کا تذکرہ اس وقت جمہوری دانشور بھی کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہو یا جمعیت العلماء اسلام، جمیعت العلماء پاکستان ہو یا مجلس وحدتِ مسلمین، تحریک لبیک ہو یا جمیعت اہلحدیث، سب کی سب اس ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کا دعویٰ کرتی ہیں اور انکے نزدیک ہمارے تمام مسائل کا حل شریعت کا نفاذ ہے۔ لیکن کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ آج پارلیمانی نظام کی بساط الٹ کر صدارتی نظام کی گفتگو ہو رہی ہے تو ان میں سے ایک پارٹی بھی یہ آواز بلند نہیں کر رہی کہ یہاں صدارتی نہیں، نظام خلافت قائم کیا جائے۔
چہروں پہ سنت رسول سجائے، سروں پر کلاہ و دستار رکھے، قرآنی آیات کا اپنی تقریروں میں حوالہ دیتے ہوئے یہ علماء "خلیفہ"، "امیرالمومنین" یا "نظام خلافت" کے الفاظ بولنے سے اس قدر شرمندہ ہیں کہ انہیں موجودہ بحث میں اپنی گفتگو میں ادا تک نہیں کر رہے۔ یہ علماء زیادہ سے زیادہ یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ صدارتی نظام خلافت کے زیادہ قریب تر ہے۔ اسی "قریب تر" کی بحث نے اس امت کو گزشتہ دو سو سال سے گمراہ کر رکھا ہے۔
ایک طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ جمہوریت اسلام کے قریب تر ہے اور دوسرے کا دعویٰ ہے کہ اسلام میں جمہوریت نام کی مادر پدر آزادی کا کوئی تصور ہی نہیں، یہ تو سراسر ایک خلیفہ کی آمریت ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک میں نظام کی تبدیلی کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب کسی قوم کی اکثریت مروجہ نظام سے مایوس ہو جائے اور اس کے ذہین ترین افراد اس نظام میں کوئی امید کی کرن نہ دیکھ رہے ہوں۔ ایسے میں دو راستے اپنائے جاتے ہیں۔
عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں، تحریک شروع ہوتی ہے، نظام زندگی مفلوج اور معطل ہو کر رہ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں یا تو حکومت خود اقتدار چھوڑ دیتی ہے یا پھر ایک خونخوار انقلاب برپا ہوتا ہے اور اقتدار پر قبضہ کرکے لوگوں کی خواہشات کے مطابق نظام کو نافذ کردیا جاتا ہے۔ ایسا دنیا میں انقلاب فرانس یعنی 1799ء سے اب تک روس، چین، ایران وغیرہ جیسے کئی ممالک میں کامیابی سے ہوتا چلا آیا ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہوتا ہے کہ اگر حکمران ذی ہوش اور عقلمند ہوں تو وہ خود ہی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان سیاسی گروہوں، دانشوروں اور ماہرین سے مشاورت کے بعد عوام کی امنگوں کے مطابق تبدیلی لے آتے ہیں اور ملک کو خون خرابے سے بچا لیتے ہیں۔ پاکستان میں دوسرا راستہ بار بار آزمایا جا چکا ہے۔ پاکستان میں آج تک کسی ڈکٹیٹر کو کسی نے بزور طاقت اقتدار کے ایوانوں سے نہیں نکالا، اور نہ ہی کسی ڈکٹیٹر نے صدام حسین، بشار الاسد، سہارتو یا جمال عبدالناصر بن کر لاکھوں لوگوں کو قتل کر کے اقتدار پر مسلسل قابض رہنے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ پچاس سالوں، یعنی 1969ء کا وہ سال جب ایوب خان نے خود ہی رضاکارانہ طور پر اقتدار اپنے ہی ایک ساتھی جرنیل یحییٰ خان کے حوالے کیا تھا، اسوقت سے لیکر اب تک حکومتی اقتدار آئین کی پیچیدہ گلیوں میں گھومتا پھر رہا ہے۔ کس قدر سادہ ہیں وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ دراصل ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان کو اقتدار سے محروم کیا تھا۔ وہ بھٹو جو اسکی بنائی ہوئی نام نہاد کٹھ پتلی حکومت میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ تھا۔
پارلیمانی انتخابات، ون یونٹ کو توڑنا اور جمہوریت کی بحالی کا فیصلہ بھی یحییٰ خان نے ازخود کیا تھا، ورنہ اگر وہ باقی برسراقتدار خونخوار ڈکٹیٹروں کی طرح اقتدار پر قابض رہنے کا فیصلہ کر لیتا تو سپین جیسے مغربی ملک کے جنرل فرانکو کی طرح کئی دہائیاں برسراقتدار رہ سکتا تھا۔ پھر وہ رہتا یا ملک رہتا، جمہوریت نافذ نہ ہوتی۔ اسی طرح جو لوگ جنرل ضیا الحق کی آمریت پر اپنی جدوجہد کی فتح کی کہانیاں سناتے پھرتے ہیں انہیں بھی حقیقت کھل کر بیان کرنا چاہیے کہ اگر بہاولپور میں طیارہ تباہ نہ ہوتا اور ضیا الحق ابدی نیند نہ سوتا تواسے ہٹانا کسی کے گمان میں بھی نہ تھا۔
خود بے نظیر بھٹو جب ڈھاکہ میں ایک پامسٹ کو ہاتھ دکھانے گئی تو اس نے اگلی خزاں میں اسے اقتدار میں آنے کی خوشخبری سنائی تو بینظیر بھٹو نے فوراً انگریزی میں سوال کیا How it is possible in the presence of this man(اس شخص کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے)۔ پرویز مشرف کی اقتدار سے محرومی کی داستان کون نہیں جانتا۔ جب وہ ایک چلا ہوا کارتوس ہوگیا، اسکی ضرورت نہ رہی تو اسے فارغ کر دیا گیا، کہ اس کا مزید رہنا خرابی کا باعث تھا۔ اس لیے پاکستان کی گزشتہ ستر سالہ تاریخ کسی صورت انقلاب کی تاریخ نہیں ہے۔
یہاں تک کہ 1977ء کی سب سے بڑی نظام مصطفیٰ تحریک آخر میں تھکن کے عالم میں تھی جب ضیا الحق برسر اقتدار آیا۔ یہاں تک کہ خود تحریک پاکستان کا خمیر بھی انقلاب نہیں بلکہ آئینی جدوجہد سے عبارت ہے۔ نہ گھیراؤ جلاو ہے اور نہ ہی توڑ پھوڑ۔ اس ملک میں نظام جب تبدیل ہوا، اقتدار کی راہداریوں میں مقتدر قوتوں کے ہاتھوں سے تبدیل ہوا۔ برطانیہ کے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نے پاکستان کو آئینی ڈھانچہ اور قانون ساز اسمبلی کی بنیاد مہیا کی، جس کی کوکھ سے 1956ء کا آئین بنا، ایوب خان نے مارشل لاء لگایا اور صدارتی نظام کا نفاذ کیا۔
اس صدارتی نظام میں اسوقت کے بے شمار سیاستدان ایوب خان کی سیاسی پارٹی، مسلم لیگ (کنونشن) کا حصہ تھے جس کے سیکرٹری جنرل ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ صدارتی نظام کی ناکامی کی بحث چل نکلی تو گلی گلی جلسے جلوس شروع ہوئے، ابھی تحریک کسی پرتشدد مرحلے میں داخل ہی نہیں ہوئی تھی کہ ایوب خان استعفے پر چلے گئے اورپاکستان کو پارلیمانی جمہوریت کا تحفہ دینے ایک اور ڈکٹیٹر آگیا۔ اس نے ایل ایف او کے تحت عبوری آئین دیا، ون یونٹ توڑا اور پارلیمانی انتخابات کروائے۔
یہ پاکستان کے پہلے پارلیمانی انتخابات تھے۔ ایسے انتخابات جن میں بھٹو نے مشرقی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا نہ کیا اور شیخ مجیب نے مغربی پاکستان میں صرف تین چار امیدوار کھڑے کئے۔ اسمبلی میں منتخب ارکان، پارلیمانی نظام کی بدترین کشمکش میں ایک دوسرے سے اقتدار کی جنگ میں یوں الجھے کہ دونوں نے خاموشی سے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم جس علاقے میں اکثریت میں ہیں وہ حصہ ہی الگ کر لیتے ہیں۔ یوں پاکستان کا ٹوٹنا اور بنگلہ دیش کا قیام پارلیمانی نظام کا پہلا تحفہ تھاجو اس ملک کو ملا۔ اس دن سے لے کر آج تک پچاس سالوں میں خواہ آمریت ہو یا نام نہاد جمہوریت سب پارلیمانی نظام کے گرد گھومتے رہے ہیں۔
ضیاء الحق کی حکومت میں جونیجو کی اسمبلی اور مشرف کے دور میں ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کی اسمبلی سب کی سب پارلیمانی نظام اورانگریز کی بنائی گئی حلقہ بندیوں کی دلدل میں پھنسی ہوئی تھیں اور یہی حال نواز شریف، بے نظیر، زرداری اور عمران خان کی اسمبلیوں کا ہے۔ اکتائے ہوئے لوگ اور پارلیمانی سیاست کی بلیک میلنگ سے تنگ آئے ہوئے سیاستدان اور دانشور پچاس سال بعد ایک بار پھر اس صدارتی نظام کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ وہ نظام جو صرف پانچ سال 1964ء سے 1969ء تک اس ملک میں نافذ رہا ہے۔
آج وہ وقت ہے جب چاروں طرف بحث کا سماں ہے۔ ملک ایک نئے نظام کی راہ پر چلنے کو تیار ہو رہا ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی مرحلہ ہے جب قیام پاکستان کے وقت آئین سازی ہورہی تھی تو تمام مکاتب فکر کے علماء نے آئین سازی کیلئے مشترکہ بائیس نکات پیش کیے تھے اور قرارداد مقاصد منظور کروائی تھی۔
کیا آج علماء دوبارہ نظام خلافت کیلئے اسی طرح متحد ہوسکتے ہیں۔ کیا ان میں کوئی ابو الاعلیٰ مودودی، شبیر احمد عثمانی، ظفر احمد انصاری اور مفتی جعفر حسین کا جانشین موجود ہے۔