سیدنا عیسیٰؑ کا صلیب پر مصلوب کیے جانے کا واقعہ ایسا تھا جس نے ایک جانب یہودیوں کو یقین دلادیا تھا کہ یہ وہ مسیحا ہرگز نہیں تھا جس کی بشارت پیغمبر لیسعیاہ (Isaiah) لے کر آئے تھے کیونکہ یہ خدا کی عالمگیر حکومت قائم کرنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور وہ بھی نعوذباللہ ایک ایسی موت کے ساتھ جو ایک پیغمبر کی شایان شان نہیں، دوسری جانب ان کے ماننے والے خصوصاً بارہ حواری اسقدر مغلوب ہو گئے اور یہودیوں نے رومن بادشاہوں کے ساتھ مل کرمدتوں انہیں عتاب کا شکار رکھا۔
حضرت عیسیٰؑ کے بعد نو رومی بادشاہ ایسے تھے جو عیسائیوں سے مسلسل ظلم و بربریت کے پیش آتے رہے، خصوصاََ ڈی سی ایس (Decius) اور ڈائیوسلیٹئن (Diocletian)۔ لیکن جب 313 عیسوی میں رومن بادشاہ کانسٹینن عیسائی ہوا تو عیسائیوں پر عتاب ختم ہوا عیسائیت سرکاری مذہب بن گئی۔
سیدنا عیسیٰؑ کا صلیب پر چڑھایا جانا، باعث عزت و توقیر اور اپنی امت کے گناہوں کا کفارہ تصور کیا جانے لگا اور یوں تمام یہودی اور عیسائی دنیا اس حضرت عیسیٰؑ کی موت پر متفق ہوگئی کہ یہ جلیل القدر پیغمبر اس دنیا سے ویسے ہی رخصت ہوا ہے جیسے باقی انسان ہوتے ہیں، یہودی اسے ذلت کی موت کہتے ہیں مگر عیسائی اسے عزت کی سب سے بڑی علامت گردانتے ہیں۔
چھ سو سال کے بعد قرآن پاک نے ان کے اس باطل تصور کا انکار کر دیا اور کہا کہ نہ انہیں قتل کیا گیا اور نہ ہی انہیں صلیب پر چڑھایا گیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ یہ اہل کتاب سے بالکل مختلف عقیدہ تھا، جو دراصل اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ یہ وہی مسیحا ہے جو خدا کی عالمگیر حکومت قائم کرے گا اور جس کے بارے میں پیغمبر لیسعیاہ نے پیش گوئی کی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ نے جس آیت میں ان کو اوپر اٹھانے کا ذکر کیا ہے اس کے فوراً بعدہی قرآن میں ایک بہت بڑا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اللہ فرماتا ہے "اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے بالضرور حضرت عیسیٰؑ پر ایمان نہ لائے، اور قیامت کے دن (حضرت عیسیٰؑ)ان لوگوں کے خلاف گواہ بنیں گے (النسائ159)۔ قران کی یہ آیت دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا عیسیٰؑ دوبارہ تشریف لائیں گے اور اللہ کے رسول نے اس کی خبر دی ہے۔
قرآن پاک کا یہ دعویٰ گذشتہ دو ہزار سال سے ابھی تک تشنہ تکمیل ہے، کیونکہ یہودی بحیثیت مجموعی ابھی تک حضرت عیسیٰؑ پر ایمان نہیں لائے۔ ایسا کب ہوگا اور اس وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی حالت ایمان کیسی ہوگی۔ یہ وہ عقدہ ہے جہاں دورِ فتن کی احادیث کا ایک باب کھلتا ہے۔ قرآن کے علم اور احادیث کے اس باب میں حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ اس وقت آمد کی پیش گوئی کی گئی ہے جب دجال مسلمانوں کو گھیرلے گا اور وہ دمشق کی مسجد میں محصور ہوں گے۔
سیدنا عیسیٰؑ کے آخرالزمان میں آمد کا یہ عقیدہ امت مسلمہ میں صحابہ کرام ؓسے لے کر آج تک ایک تواتر سے چلا آ رہا ہے اور سوائے چند ایک عقلیت پرست افراد اور قادیانیوں کے گروہ کے کسی نے پورے چودہ سو سال اس سے اختلاف نہیں کیا۔ احادیث کے مطابق سیدنا عیسیٰؑ کی آمد کا منظر ملاحظہ کریں"مسلمان جنگ کے لیے اپنی صفوں کو درست کر رہے ہوں گے اور نماز کے لئے اقامت ہوجائے گی تو عیسیٰؑ ابن مریم نازل ہوں گے" (مسلم)، "حضرت عیسٰی بن مریمؑ ہلکے زرد رنگ کا جوڑا پہنے جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی مینار پر اس حالت میں اتریں گے کہ ان کے ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے (ترمذی)۔
اس طرح معجزاتی طور پر انکی آمدیہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے ضروری تھی۔ لیکن یہ آمد واقعات کی ایک ترتیب کی آخری کڑی ہوگی، جس کا آغاز مصر، یمن، شام، عراق اور جزیرہ نما عرب میں فتنہ و فساد سے ہوگا۔ مسلمانوں کے خلیفہ سیدنا امام مہدی کی خانہ کعبہ میں بیعت، پھر انکی جانب شام کے حکمران سفیانی کی طرف بھیجے گئے لشکر کا زمین میں دھنسنا، ایک بہت بڑی عالم گیر جنگ جو اہل روم اسی (80) جھنڈوں تلے نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ اہل عرب سے لڑیں گے، اس بڑی جنگ میں زمین کا لاشوں سے پٹ جانا، یہاں تک کہ اڑنے والے پرندے بیٹھنے کے لئے خالی جگہ ڈھونڈیں گے لیکن تھک کر لاش پر ہی بیٹھیں گے، عرب کے ہر گھر میں فتنہ و فساد اور عرب کی مکمل تباہی، یہ سب اور ان جیسے اہم واقعات کی حضرت عیسٰیؑ کی آمد سے پہلے پیش گوئی کی گئی ہے۔
دور فتن میں جنگ کا یہ بالکل علیحدہ میدان ہے جبکہ ایک دوسرا میدان بھی ہے جس میں ایک عظیم لشکر گذشتہ تیس سالوں سے خراسان (افغانستان) میں تیار ہو رہا ہے، اس میدان کے قرب میں ایک اور لشکر ہے جس نے ہند سے جہاد کرنا ہے اور وہ پاکستان کی سرزمین پر صف بستہ ہے۔ سیدنا عیسیٰؑ ابن مریم جب نازل ہوں گے تو اس وقت مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت اور غلبے کو دیکھ کر "دجال" اصفہان سے برآمد ہوگا، جس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے جو آج بھی وہاں بیٹھے اپنے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔
دجال اس وقت برآمد ہوگا جب مسلمان بڑی عالمی جنگ کے بعد فتوحات کرتے ہوئے قسطنطنیہ پر قبضہ کریں گے جو ایک بار پھرسے مسلمانوں سے چھن چکا ہوگا۔ دجال کی آمد کے بعد اسکی عالمگیر حکومت یہودیوں کی مدد سے یروشلم میں قائم ہوچکی ہوگی۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوگا بلکہ ایمان کی حفاظت تک ممکن نہ ہوگی۔
سیدنا مہدی کی قیادت میں مسلمانوں کا ہیڈکوارٹر غوطہ میں موجود ہوگا اور مسلمان دمشق کی مسجد میں محصور ہوں گے جس کے باہر دجال حملے کے انتظار میں ہوگا۔ اس دوران خراسان (افغانستان) سے کالے جھنڈوں اور سیاہ عماموں والے مجاہدین کا لشکر وہاں پہنچ چکا ہوگا۔ اسی طرح ایک اور لشکر ماوراء النہر یعنی ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، قازقستان اور چیچنیا سے بھی اس جنگ میں شمولیت کے لئے پہنچ جائے گا۔ جس وقت یہ میدان جنگ گرم ہوگا تو اس دوران مسلمانوں کا ایک لشکر ہند سے لڑائی کر رہا ہوگا۔ یہی دو لشکر ہیں جن کے بارے میں بشارت دی گئی ہے۔
فرمایا "میری امت کی دو جماعتوں کو اللہ تعالی نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرما یا ہے، ایک وہ جماعت جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰؑ ابن مریم کے ساتھ ہوگی" (نسائی، مسند احمد)۔ لیکن جہاد ہند اس آخری معرکے سے ذرا پہلے وقوع پذیر ہوگا۔ حضرت کعب نے فرمایا "بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا، وہ لشکر ہندوستان فتح کرے گا اور اس کے خزانے حاصل کریگا تو وہ بادشاہ اس خزانے سے بیت المقدس کو آراستہ کرے گا۔ وہ ہندوستان کے بادشاہوں کو قیدی بنا کر لائیں گے۔ یہ لشکر ہندوستان میں دجال کے آنے تک قیام کرے گا (الفتن: نعیم بن حماد)۔ "
یعنی دجال کی آمد سے پہلے مسلمانوں کے عروج کا زمانہ ہوگا۔ دور فتن یعنی بڑی علامتوں کے ظہور کی ابتدا کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرعون کی لاش کے ظہور سے منسلک کیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے "ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشان عبرت بنے (یونس92)۔ لیکن اس آیت سے پہلے اللہ فرعون کے ایمان لانے کو بے فائدہ قرار دیتا ہے۔
اللہ فرماتا ہے "جب وہ ڈوب رہا تھا تو اس نے کہا میں ایمان لایا اس خدا پر جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں فرماں برداروں میں شامل ہوتا ہوں" (یونس 90)۔ یہاں اللہ اس کے ایمان کو بے فائدہ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے "اب ایمان لاتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مسلسل فساد مچاتا رہا" (یونس 91)۔
حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ آمد کے بعد اہل کتاب کا ایمان بھی ویسا ہی ایمان ہوگا کیونکہ حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے حق واضح ہو چکا ہوگا۔ جس دوران یہ معرکہ برپا ہوگا، ہند کا شروع ہونے والا جہاد اپنے آخری مراحل میں داخل ہوگااس کے اختتام پر رسول اکرم ؐ نے فرمایا "اللہ تعالی ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا اور جب وہ لوٹیں تو ابن مریم کو شام میں پائیں گے" (الفتن: نعیم بن حماد)۔
جس طرح آج سے تیس سال پہلے افغانستان، بیس سال پہلے ماوراء النہراور دس سال پہلے عرب ممالک اس آخری بڑی جنگ کے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان بھی دور فتن میں جہاد ہند کے اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اللہ ہماری نصرت فرمائے۔ (ختم شد)