یہ کتاب میں نے کوئٹہ کی جناح روڈ پر واقع گوشۂ ادب سے خریدی تھی۔ ایک ایسا ٹھکانہ جہاں نواب اکبر بگٹی اپنے گھر سے سیر کرتے ہوئے نکلتے، رات پڑھنے کے لیئے کوئی کتاب یا رسالہ اُٹھاتے، تھوڑی دیر گپ شپ لگاتے اور چلے جاتے۔ ایسا ہی ایک اور ٹھکانہ زمرد حسین صاحب کا قلات پبلشر بھی تھا، جہاں غوث بخش بزنجو اور عطا اللہ مینگل سے لے کر میر گل خان نصیر تک سب آتے، محفل جمتی اور دنیا بھر کی سیاست پر گفتگوہوتی۔ بلوچستان کے سیاست دانوں سے زیادہ عالمی و علاقائی اور معاشرتی و تاریخی امور پر مطالعہ کرتے ہوئے، میں نے پاکستان کے کسی دوسرے خطے کے سیاستدانوں کو نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان دونوں دکانوں پر آپ کو تمام عالمی سیاسی میگزین اور دنیا بھر میں چھپنے والی کتاب فوراً مل جاتی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے آمرانہ فوجی ایکشن کے بعد قلات پبلشر اجڑ گیا کہ وہاں بیٹھنے والے سیاستدان تو"حیدر آباد بغاوت کیس" میں گرفتار کر لیئے گئے۔ ضیاء الحق کی عام معافی کے بعد رہا تو ہوگئے مگر زمّرد حسین صاحب کا ٹھکانہ پھر ویسا آباد نہ ہو سکا۔ یہ کتاب جو نواب اکبر بگٹی صاحب دکان سے لے گئے تھے، رات بھر جاگنا تو ان کا معمول تھا، پڑھتے رہے، اگلے دن بلکہ اس کے بعد آنے والے کئی ہفتے، اس کتاب اور خطے کی بدلتی صورتحال پر ان کی محفل میں پُرزور گفتگو ہوتی رہی۔ خطے میں بدلتی صورت حال سے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے سرحدی شہری متاثر تھے اور کوئٹہ ان میں سے ایک تھا۔ کتاب 1980ء کے آخر میں آئی تھی، جبکہ سوویت افواج 1979ء کے دسمبر میں افغانستان میں داخل ہوئیں تھیں۔ کتاب کا نام چونکا دینے والا تھا "Next Domino?" یعنی "اگلی نوآبادی، تسلط یا عملداری" وغیرہ۔ پاکستان کے ہر ادبی اور سیاسی حلقے میں یہ بحث شدت اختیار کر چکی تھی کہ اب "سوویت یونین" کی اگلی منزل پاکستان ہی ہے یا نہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان میں آنے کے اثرات کوئٹہ جیسے سرحدی شہروں پر بہت زیادہ مرتب ہوئے تھے۔ صرف ایک سال کے اندر اندر کوئٹہ افغان مہاجرین سے ایسے بھرا بھرا نظر آنے لگا کہ ہر کوئی پکارتا، دیکھو کیسا قندھار بنا دیا ہے۔
یہ کتاب نیٹو افواج کے واحد برطانوی کمانڈر "سروالٹر واکر" (Sir Walter Walker) نے تحریر کی تھی۔ یہ شخص برطانیہ کی تمام بری، فضائی اور بحری افواج کا چیف رہا تھا۔ اسی کتاب میں سوویت یونین کی افواج کے افغانستان میں داخل ہونے کو دراصل قدیم "شاہی زارِروس" کے گرم پانیوں تک رسائی کے خواب کا تسلسل کہا گیا تھا۔ زارِ روس کے زمانے سے لے کر سوویت انقلاب تک روس ہمیشہ ایک ایسی بندرگاہ سے محروم رہا ہے جو تمام موسموں میں کام کرتی ہو۔ سوویت یونین کو گرم پانیوں والی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیئے تین مسلمان ممالک سے گذرنا یا انہیں قابو میں کرنا ضروری تھا۔ یعنی اگر کراچی یا گوادر تک آنا مقصودہو تو دو ممالک راستے میں پڑتے ہیں، افغانستان اور پاکستان۔ لیکن اگر بندر عباس یا چاہ بہار تک آناہو تو ایک ہی ملک ہے، ایران۔ یہی وجہ ہے کہ 1917ء کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد روس نے اپنا سب سے زیادہ اثر و رسوخ ایران، افغانستان اور بلوچستان کے علاقے میں بڑھایا۔
1920ء میں سوویت نوآبادی "آذربائیجان" کے شہر باکو میں منعقدہ قومیتوں کی کانفرنس میں باقاعدہ بلوچ قبائل کا وفد شریک ہوا اور بلوچستان کی آزادی و خودمختاری کی تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ افغانستان شروع دن سے ہی برطانیہ کے ساتھ جنگوں کی وجہ سے روس کے زیرِ اثر رہاتھا۔ سوویت یونین کو اب انتخاب پاکستان اور ایران کے درمیان کرنا تھا، کہ کس ملک کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچا جائے۔ ایران کی کیمونسٹ "تودہ" پارٹی بہت منظم اور مضبوط تھی اور اس کی عوام میں گہری جڑیں تھیں۔ جولائی 1952ء میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت، ان کی اہم کوشش تھی، جسے ایک سال بعد 19اگست 1953ء کو سی آئی اے نے ایک بہت بڑے منصوبے کے تحت ختم کردیا تھا۔ انقلاب ِ ایران کے لیئے جدوجہد کے دوران"تودہ" پارٹی کے ارکان شاہِ ایران کی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی "ساواک" کے ظلم کا بدترین نشانہ بنتے رہے تھے۔
1978ء کے اپریل سے شروع ہونے والی شاہِ ایران کے خلاف تحریک میں بھی ان کی قربانیاں بے شمار تھیں۔ لیکن بالاخرانقلاب کی قیادت ایرانی علماء کے ہاتھ میں چلی گئی اور آیت اللہ خمینی ایک انقلابی رہنما بن کر 11فروری 1979ء کو ایران میں اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس ایرانی اسلامی انقلاب نے کیمونسٹ پارٹی کے تمام ارادے خاک میں ملا دیئے اور روس کاگرم پانیوں تک پہنچنے کا منصوبہ بھی اب صرف اور صرف پاکستان کی بندرگاہوں تک مخصوص ہو کررہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ خمینی کے برسرِ اقتدار آنے کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد، 13اپریل1979ء کو افغانستان میں شاہی خاندان کے سپوت "داؤد" کی حکومت کا تختہ الٹ کر کیمونسٹ پارٹی کے سربراہ "نور محمد ترکئی" کو افغانستان کا اقتدار سونپ دیا گیا۔ ترکئی سوویت کیمونسٹ روس کے لیئے ایک امیدکی کرن تھے، وہ بحثیت ادیب و افسانہ نگارایک انقلابی مفکر کے طور پر افغانستان میں مقبول تھے۔ لیکن کیمونسٹ پارٹی کے دو گروہوں "پرچم" اور "خلق" کی آپس کی کشمکش اور سوویت یونین کے زیادہ سے زیادہ وفادار ہونے کی تگ و دو کے نتیجے میں بیچارے ترکئی کو 8اکتوبر1979ء کو گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا، اس کے خاندان کے 25افراد جیل میں ڈال دیئے گئے اور حفیظ اللہ امین مسند اقتدار پر بیٹھ گیا۔ لیکن صرف دو ماہ بعد ہی سوویت یونین نے پیش بندی کرتے ہوئے27دسمبر کو اپنی افواج افغانستان میں داخل کردیں اور "ببرک کارمل"کو تحت نشین کردیاگیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں ہر کیمونسٹ، ترقی پسند، روشن خیال ادیب، شاعر اور سیاست دان بہت خوش تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ چاہے سوویت یونین گرم پانیوں کی تلاش میں ہی پاکستان آئے، لیکن یہاں پر کیمونزم کا نظام تو نافذ ہوگا اوراس کے نتیجے میں اسلام کو ویسے ہی دیس نکالا مل جائے گا جیسے تاجکستان اور ازبکستان جیسی مسلمان ریاستوں میں سوویت یونین کے انقلاب کے بعد ملا تھا۔ میں یہ کتاب ساتھ لیئے ٹرین پر سوار ہو کر لاہور پہنچا۔ کتاب دلچسپ تھی اس لیئے مسلسل پڑھتا رہا۔ ایسے ہی اس کتاب کوساتھ لیئے شام کو پاک ٹی ہاوس جا پہنچا۔ ٹی ہاوس کا ماحول اسی بحث سے گرما گرم تھا۔ باچا خان زندہ تھا اور اس کی پارٹی بھی افغانوں کے روسی فوج کے خلاف جہاد کے سخت خلاف تھی۔ اس پارٹی کے ایک رکن، حبیب جالب کا یوں تو ٹھکانہ سامنے چائنیز لنچ ہوم ہوتا تھا لیکن وہ کبھی کبھی لڑکھڑاتے ہوئے پاک ٹی ہاوس بھی آجاتے۔
اس دن بھی تشریف لے آئے۔ مجھے دیکھ کر بولے، بزنجو صاحب کو میرا گلہ پہنچا دینا، جیل کا ساتھی ہوں، میرا بیٹا مرگیا، ان کا فون نہیں آیا۔ پھر کتاب پر جاری بحث میں شامل ہو گئے۔ کہنے لگے روسی فوج انقلابی فوج ہے، اس نے درست اقدام اٹھایا ہے۔ میں نے کہا فوج توہر جگہ ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔ کہنے لگے نہیں تمہیں نہیں پتہ، پاکستان کی فوج انگریزی بھی ہے اور اسلامی بھی۔ میں ان کی حالتِ زار کی وجہ سے ان سے بحث میں نہ الجھا۔ پاکستان بھر میں ترقی پسند دنیا کا ماحول ایسا ہی تھا کہ ابھی کچھ دنوں بعد روس آئے گا، یہاں درانتی اور ہتھوڑے والے پرچم لہرائے گا اور آخر کارمولوی اور اسلام اپنے اسلام اور ضیاء الحق سمیت رخصت ہوجائیں گے۔ لیکن افغان عوام نے اپنی قربانیوں سے ان کا یہ خواب چکنا چور کر دیا۔ خون تو افغان قوم نے دیا، لیکن سلامتی کی کہانی پاکستان کی تحریر ہوئی۔ آج ٹھیک انتالیس سال بعد وہی سوویت یونین ہے، لیکن بدلا ہوا۔۔ پیوٹن نے اعلان کیا کہ" ہم اب ملحد ترقی پسند نہیں، بلکہ ایک خدا کو ماننے والا عیسائی ملک ہیں جہاں ہر سال بارہ سو نئے چرچ تعمیر ہورہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر مذہب کو مکمل آزادی ہے"۔
وہی روس ہے اور وہی خواب، لیکن میرے اللہ نے گذشتہ ہفتے گوادر کی "گرم پانیوں کی بندرگاہ" روس کو استعمال کرنے کے لیئے میسر کر دی ہے۔ تاریخ ایک اور رنگ سے تحریر ہوگئی ہے۔ فیصلے صرف اور صرف میرا اللہ کرتا ہے۔ یقینا میرا اللہ ہر شئے پر غالب ہے۔