ایک زمانہ تھا کہ مسندِ ارشاد پر فائز علمائے کرام، مفتیانِ عظام اور صوفیائے باصفا کو لوگ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں سے تشبیہہ دیا کرتے تھے۔ کسی کو اپنے وقت کا امام ابو حنیفہؒ کہہ کر پکارا جاتا کہ اس نے فقہ میں بے مثال کام کیا تھا تو کسی کو ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر اسے امام احمد بن حنبلؒ کا مثیل قرار دیا جاتا۔ دین کی راہ پر چلنے والوں، قربانیاں دینے والوں کی بے غرض تگ و دو ان کا طرۂ امتیاز تھی۔
جب جاہ و منصب کی پروا اور نہ مال و متاع سے غرض۔ بوریانشین یہ لوگ سلف صالحین حتیٰ کہ صحابہ کرامؓ سے بھی نسبت کے حقدار تھے۔ وقت کی گرد بھی کیسے کیسے تصورات کو خواب کر دیتی ہے اور ماضی کے کھنڈرات پر ایسی ایسی شخصیات جنم لے لیتی ہیں کہ جن کا اپنے اسلاف اور ان کی اقدار سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ زوالِ امت کے اسی المیے پر اقبال نے کہا تھا
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
مسندِ ارشاد کے لٹنے کا ماتم تو تھا، اقبال نے خرقہ پوش صوفیاء کی خانقاہوں پر قابض لوگوں کا بھی یہی نقشہ کھینچا ہے۔
"قمْ بِاذنِ للہ" کہہ سکتے تھے جو، رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن
یہ وہ المیہ داستان ہے جو گزشتہ تین صدیوں سے ہر درد مند ذی شعور مسلمان اپنی اپنی بساط کے مطابق بیان کر رہا ہے۔ کوئی نجی محفلوں میں اس کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی ببانگ دہل یہ صدا بلند کرتا ہے کہ اے علمائے کرام، مفتیانِ عظام و صوفیائے با صفا! تم کن عظیم بستیوں کے وارث ہو۔ وہ بادیہ نشین کون تھے جن کا نقشہ اقبال نے کھینچا ہے اور بار بار آنسوئوں میں قلم بھگو کر تصویر کشی کی ہے۔ "تمدن آفریں، خلافِ آئینِ جہاں داری، جہاں گیرو جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا، اور پھر ان اسلاف سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
"تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارا"
اقبالؔ تک یہ منظر اسقدر المناک نہیں تھا۔ اسے یہ مٹی زرخیز نظر آتی تھی، اسے کوئی نہ کوئی شخصیت مثیلِ اسلاف مل ہی جاتی تھی لیکن غارت ہو یہ جمہوری سیاست کہ جس نے جہاں پوری دنیا کو انتشار و افتراق کا شکار کیا ہے، گروہ بندی کو رواج دیا ہے، وہیں امتِ مسلمہ میں موجود فرقہ بندی کو مضبوط کر دیا ہے۔ ہر مسلک اور فرقے نے اپنی اپنی سیاسی پارٹی بنا لی ہے۔ اب کسی عالم دین اور مفتی اعظم کا ماننے والا یا کسی پیر طریقت کا مرید ایک عام انسان بلکہ ایک معمولی مرید نہیں رہا بلکہ ایک ووٹ بن چکا ہے اور ایسا ووٹ جس کے ساتھ اور بھی کئی ووٹوں کی قسمت بندھی ہوئی ہے۔ اس ووٹ کو باندھنے اور اپنے ساتھ منسلک رکھنے کے لیے اب لاکھ جتن کیے جاتے ہیں۔
وہ تمام خرابیاں، وہ تمام ہتھکنڈے، جھوٹ، مکروفریب، حاشیہ آرائی، بہتان وا لزام، مبالغہ، جو جمہوری سیاست کا خاصہ ہے وہ سب کا سب مسلکی، مذہبی، سیاسی جماعتوں نے بھی اختیار کر لیا ہے لیکن ان کے بیانیے اور طرز استدلال نے اس امت کے لیے ایک خوفناک صورت اختیار کر لی ہے۔ عام جمہوری سیاست میں مثال دینے کے لیے جو ہیرو میسر ہیں وہ دنیادار ریفارمر یا انقلابی سے زیادہ نہیں ہوتے۔ مثلاً آپ آصف زرداری اور نواز شریف کو زیادہ سے زیادہ نیلسن منڈیلا کا خطاب دے سکتے ہو، اگر کوئی مزید انقلابی ہو تو چی گویرا، مائوزے تنگ اور لینن کی تشبیہہ دی جا سکتی ہے لیکن مسلکی، مذہبی، جمہوری سیاست میں تو آپ کا عالمِ دین وہ مرد مجاہد ہے جو سیدنا امام حسینؑ کی سنت کا امین ہے اور آپ کا مخالف یقینا یزید ہے۔
آج سے پہلے یہ مثال عام دی جاتی تھی اور اسے امت کے تمام گروہ بالاتفاق مان بھی لیتے تھے لیکن گزشتہ ماہ کے دھرنے میں مذہبی، سیاسی، مسلکی جمہوری سیاست میں جو طرز استدلال سامنے آیا ہے۔ اس نے دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے زیادہ اس معصوم امت پر ظلم نہیں ہو سکتا کہ آپ سیدالانبیاء ﷺ کی سنت میں سے جنگ، غزوہ، سریہ یا جدوجہد کی وہ مثالیں نکالیں جو آپﷺ نے مشرکین کے خلاف کی تھی اور اسے اپنے مخالفین پر چسپاں کر دیں اور یہ سب منبرومحراب اور مسندِ ارشاد سے ہو رہا ہے۔
دھرنے کے تمام کے تمام مقاصد سیاسی اور جمہوری تھے اور ان کا اسلام، شریعت کے نفاذ اور دین کی بالادستی سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ تمام سیکولر، لبرل، ملحد اور بے دین جن کی تمام سیاست نظام شرعی کی مخالفت کے گرد گھومتی تھی اس دھرنے کے حلیف اور دست و بازو تھے۔ وہ لبرل عورتیں جن کا دھرنے میں داخلہ ممکن نہ تھا، اپنے ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب اکائونٹس پر مولانا کو اور ان کے دھرنے کو سپورٹ کر رہی تھیں لیکن دھرنے میں شریک سادہ لوح دیندار مسلمان ایک اور استدلال سے یہاں کھینچ کر لائے گئے تھے۔ ان کے نزدیک یہ دھرنا معرکۂ بدر و حنین سے کم درجے کا نہیں تھا۔ وہ اپنے علاقوں کی مسجدوں سے یہ سن کر آئے تھے کہ اس حکومت کے خلاف کھڑا ہونا دینی فریضہ ہے کیونکہ معاملہ ختم نبوت کا ہے۔ ان میں سے ہر کوئی اسی جذبۂ جہاد و قتال سے لبریز اسلام آباد آیا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ ان میں یہ جذبہ کسی پارٹی میٹنگ یا جلسے نے نہیں بلکہ منبرو محراب نے بھرا تھا۔ یہ تمام منطق و استدلال اپنی جگہ لیکن جب دھرنا اسلام آباد سے واپس ہو رہا تھا تو تمام افراد اپنے کابرین کے حکم پر واپس لوٹ کر سڑکیں اور شاہراہیں روکنے جا رہے تھے اس کے جواز کے لیے جس سطح پر منبرو محراب سے علمائے کرام نے سنتِ نبویﷺ سے مثالیں دے کر جواز فراہم کیے اس سے خوف آتا ہے۔
ایک بڑے مولانا کی تقریر سن رہا تھا کہ کیسے صلح حدیبیہ کے بعد جب وہ دو صحابہ جو مکہ سے بھاگ پر مدینہ آئے تھے اور آپ نے معاہدے کے مطابق انہیں پناہ نہیں دی تھی تو وہ راستہ روک کر بیٹھ گئے تو قافلہ بھی لوٹتے تھے اور مخالفین کو قتل بھی کرتے تھے، ان کے راستہ روکنے کو دھرنے سے تشبیہہ دی گئی۔ کسی عالم نے بلند آواز میں کہا کہ دیکھو رسول اکرم ﷺ نے بھی جنگ خندق میں خندقیں کھود کر راستے روکے تھے۔ یعنی دھرنے والوں کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ آپ کا مخالف دراصل ویسا ہی ہے جیسے مشرکینِ مکہ تھے اور آپ کو راستہ روکنے کا اجر بھی ویسا ہی ملے گا۔ ہے نا کسقدر اذیت ناک بات۔
ان علمائے کرام، مفتیان عظام اور صوفیائے با صفاء کو علم نہیں کہ اس ملک میں اب صرف روبوٹ کی طرح تقلید کرنے والے سادہ لوح مسلمان ہی نہیں بستے، براہ راست قرآن حدیث اور فقہ سے استفادہ کرنے والے بھی ہیں۔ وہ آپ سے اس لیے محبت کرتے ہیں، کیونکہ آپ اس دور میں دین کی علامت ہیں، نمائندہ ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ سن کر ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی۔