یہ بالکل درست ہے کہ عمران خان کو ایک ایسا اجڑا ہوا اور برباد پاکستان ملا جس کی حالت غلام عباس کے افسانے "اوور کوٹ" جیسی تھی۔ جس کا ہیرو ایک انتہائی خوش پوشاک شخص ہوتا ہے جو بہترین لباس پہنے، اوور کوٹ زیب تن کیے، ہیٹ سر پر رکھے مٹر گشت کر رہا ہوتا ہے اور اچانک کسی گاڑی کی زد میں آکر انتقال کر جاتا ہے۔ ہسپتال میں سنگ مر مر کی میز پر لٹا کر جب پوسٹ مارٹم کے لیے اس کے کپڑے اتارے جا رہے ہوتے ہیں تو اس کی غربت و افلاس اورکسمپرسی سامنے آتی ہے۔ اس کے سلک کے گلوبند کے نیچے کالر اور نکٹائی تو ایک طرف، سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔
اوورکوٹ کے نیچے ایک بوسیدہ سا سویٹر تھا جس میں جابجا سوراخ تھے، جسم پر اتنی میل تھی جیسے صدیوں سے نہایا نہ ہو، لیکن گردن صاف کرکے ہلکا ہلکا پاؤڈر چھڑکا ہوا تھا۔ پتلون کو کسی بیلٹ کی بجائے ایک بوسیدہ نکٹائی جیسی دھجی سے باندھا ہوا تھا۔ پتلون گھٹنوں سے پھٹ چکی تھی جس کو اوورکوٹ کی لمبائی چھپاتی تھی۔ ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں سے مختلف تھی اور دونوں پھٹی ہوئی بھی تھیں۔ اوور کوٹ کی جیبوں سے اس کی کل کائنات جو برآمد ہوئی وہ ایک چھوٹا سا سیاہ کنگھا، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے اور بجھا ہوا سگریٹ۔ لیکن افسانہ نگار اس نوجوان کی جو ظاہری تصویر کشی کرتا ہے وہ یوں ہے " نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔
لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی ہوں۔ بادامی رنگ کا اوور کوٹ پہنے ہوئے، جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فیلٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں اور دوسرے ہاتھ میں بید کی ایک چھوٹی سی چھڑی"۔
عمران خان کو میراث میں جو پاکستان ملا، وہ ایسے ہی کھوکھلا اور بوسیدہ تھا۔ پاکستان کے موجودہ آئین کے خالق، ذوالفقارعلی بھٹوکو جو پاکستان ملا تھا اس کے پہلے پچیس سال یعنی 1972ء تک پاکستان کی شرح پیداوار دنیا کی مجموعی شرح پیداوار سے بھی زیادہ تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں اوسط شرح ترقی 6.8 فیصد تھی مگر ستر کی دہائی میں 4.8 فیصد تک نیچے آگئی۔ پاکستان کے پہلے عام انتخابات سے براہ راست منتخب ہونیوالے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی معاشی پالیسیوں سے جو زوال کا سفر شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے۔
قائداعظم کی گورنر جنرلی کے زمانے کے پاکستان میں ایک ڈالر کے عوض پاکستان کے تین روپے چھ آنے ملتے تھے۔ امریکہ جنگ عظیم دوم سے کما کما کر امیرترین ہوچکا تھا اور پاکستان کے پاس ابھی تک تقسیم کے بعد خزانے کے حصص بھی نہیں آئے تھے۔ اسکے باوجود بھی ہماری معیشت اتنی مضبوط تھی کہ نیویارک کے کسی بھی اچھے ریسٹورنٹ میں کافی کی پیالی 5 پنس یعنی پاکستانی سولہ پیسوں میں ملتی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر خزانہ مبشر حسن جب 1962 میں ایک پروفیسر تھے تو وہ لکھتے ہیں کہ ان کی تنخواہ 1800 روپے ماہوار تھی اور وہ اس تنخواہ سے لندن کی دکان سے 25 ڈالر کا سوٹ خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن خود اپنی وزارت خزانہ کے دور میں جب وہ 1974 میں اسی دکان پر گئے تو انکی قوت خرید صرف چھ ڈالر کا سویٹر خریدنے کی رہ گئی تھی۔ زوال کی یہ کہانی جس کی پہلی اینٹ فخر ایشیاء قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی بدترین معاشی پالیسیوں سے رکھی اس کو نواز شریف نے تکمیل تک پہنچایا۔ لیکن نواز شریف کا سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ اس نے ملک کو کھوکھلا تو کی مگر موٹرویز، پارک، ایئرپورٹ، شاپنگ مالز، اور پر رونق بازاروں سے اسے ایسا مزئین کیا کہ عام آدمی کی غربت کا دیکھنے والے کو احساس نہیں ہو پاتا۔
یہ ملک جب تخلیق ہوا تو یہ ایک کسان کا ملک تھا جو اتنی گندم اگاتا تھا کہ کلکتہ سے مدراس اور بمبئی سے پشاور تک پورا ہندوستان پیٹ بھر کر کھانا کھاتا تھا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو تک آتے آتے یہ کسان اور صنعتکار کا سانجھا ملک بن چکا تھا۔ کراچی کی سائٹ سے لاہور کے کالا شاہ کاکو اور فیصل آباد تک لاتعداد ملیں لاکھوں مزدوروں کو رزق فراہم کرتیں اور کروڑوں انسانوں کی آسائش کیلئے مصنوعات بناتیں۔ مگر 36 سال بعد جب یہ ملک عمران خان کے حوالے ہوا، تو یہ صرف اور صرف منافع خور تاجر کا ملک بن چکا تھا۔ جس کا اولین مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔
فصل اگر آسٹریلیا سے سستی ملتی ہو تو وہ اپنے ملک کے کھیتوں کی فصلیں گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور بیرون ملک سے منگوا کر نفع کماتا ہے۔ اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ چین سے جوتے، فرنیچر، بجلی کا سامان، بنگلہ دیش سے کپڑے اور کوریا، تائیوان وغیرہ سے الیکٹرانک اشیاء منگوانے سے اس کے اپنے ملک کی ملوں کو تالے لگ جائیں گے، کروڑوں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے۔ تاجر کو صرف ایک جگہ سے مال منگوا کر دوسری جگہ بیچنے سے غرض ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ پورے ملک کی معیشت کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ نواز شریف اور زرداری کا پاکستان انہی تاجروں کا پاکستان تھا۔ چکاچوند روشنیوں، بڑے بڑے شاپنگ مالوں کی رنگا رنگ دنیا اور تارکول کی چمکدار موٹرویز پر بھاگتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان بھوک اور افلاس میں سسکتا ہوا پاکستان۔
آپ رات کے وقت لاہور کی ایم ایم عالم روڈ سے گزریں اور دکانوں کے شو کیسوں کے سامنے اپنی تصویریں بنا کر کسی بیرون ملک بھیج دیں اور یہ نہ بتائیں کہ یہ کسی غریب ملک کی سڑک ہے تو شاید ہی کوئی یہ بتا سکے کہ یہ پاکستان ہے۔ دنیا کے ہر برانڈ کے کپڑوں، جوتوں اور کھانے پینے کی اشیاء کی دکانوں کے بورڈ ایک ایسا دھوکا ہیں جو اوورکوٹ کی طرح اس ملک کی غربت پر ڈالا گیا ہے۔ یہ بدقسمت پاکستان کا مصنوعی روشن چہرہ ہے جو عمران خان کو ورثے میں ملا تھا۔
جب مشرف کے بعد زرداری اور نوازشریف کو یہ ملک ملا تو اس ملک سے اگر سو ڈالر کی اشیاء باہر فروخت ہوتیں تو 115 ڈالر کی باہر سے یہاں منگوائی جاتی تھیں۔ خسارہ یا فرق صرف 15 ڈالر کا تھا جسے کھینچ تان کر پورا کیا جاسکتا تھا۔ اسی لئے شوکت عزیز پہلا وزیراعظم تھا جس نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ آج ہم سو ڈالر کے بدلے 230 ڈالر کی اشیاء باہر سے منگواتے ہیں۔ یہ 130 ڈالر کا فرق ہم بیرون ملک پاکستانیوں کے پیسے پورا کر سکتے ہیں اور نہ ہی مزید قرضہ جات اس فرق کو مٹا سکتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل کنویں میں گرتی ہوئی معیشت کی صورتحال ہے جو آج بھی جاری ہے۔
اس گرتی ہوئی، ڈوبتی معیشت کو سنبھالنے کے لیے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے تھا کہ آپ ان تمام اشیاء کے منگوانے پر پابندی لگاتے، جن کا اس ملک میں 99.9 فیصد عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جس ملک کی دکانوں میں کتوں اور بلیوں کی خوراک اور ان کو نہلانے کے لیے شیمپو بھی باہر سے منگوائے جا رہے ہوں، سیب نیوزی لینڈ سے برآمد ہوں اور اور گرمیوں میں مالٹے کھانے کے شوقین افراد کیلئے کینو جنوبی افریقہ سے منگوائے جائیں، کارپوریٹ کلچر کی سٹیج کو پررونق بنانے کے لیے پیرس اور میلان کی فیشن انڈسٹری کی تمام مصنوعات ایم ایم عالم جیسے کئی سو بازاروں میں کھلے عام میسر ہوں اور ایسے بدترین حالات میں عمران خان حکومت کا پہلا وزیر خزانہ اسد عمر پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ کہے کہ میں ان اشیاء پر پابندی لگانا چاہتا تھا لیکن شیریں مزاری نے کہا کہ منگواؤ لیکن ان پر ٹیکس زیادہ لگادو اور وہ ایسا کر گزرے اوراسکے بعد آئی ایم ایف کا "وائسرائے " حفیظ شیخ اسی پالیسی کو برقرار رکھے تو ایسے غیر سنجیدہ ارکان پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے اگر عمران خان تبدیلی کا خواب دیکھتا ہے تو اس سے زیادہ سادہ شخص کوئی اور نہ ہوگا۔ سادہ کا لفظ بھی میں نے احتراماً استعمال کیا ہے۔