تخلیق پاکستان سے لے کر اب تک سیکولر، لبرل اور مذہب بیزار طبقہ قائداعظم کے مقابلے میں ایک شخص کی عظمت کے گن گاتا چلا رہا ہے۔ اس شخص کا نام موہن داس کرم چند گاندھی ہے۔ یہ طبقہ ہمیشہ قائداعظم کو دبے لفظوں میں ایک منافق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ دلیل دیتا ہے کہ انکا تمام طرز زندگی مغربی تھا مگر وہ ایک ایسے ملک کے لیے جدوجہد کررہے تھے جسکی بنیاد اسلام تھا۔
قائداعظم سے یہ دشمنی یادش بخیر نیم چڑھے کیمونسٹوں کو بھی تھی اور شاید آج بھی ہے کیونکہ وہ اپنے بالشویک انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قائد اعظم کے پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ، اپنی نجی محفلوں اور مخصوص گروہوں میں بیٹھ کر کی جانے والی گفتگو اور ان دنوں سوشل میڈیا کی بے چہرگی (facelessness) کا سہارا لے کریہ قائداعظم اور اقبال کو متعصب اور تنگ نظر ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ گاندھی کو ایک مہاتما، انسانیت کا علمبردار اور رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر سیاست کا امین بنا کر پیش کرتے ہیں۔
انکی ہاں میں ہاں ایک طویل عرصے تک وہ علمائے کرام اور سیاسی لیڈر بھی ملاتے رہے، جنکے بزرگوں نے پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم کی مسلم لیگ کی بجائے موہن داس کرم چند گاندھی کی کانگریس کا ساتھ دیا تھا۔ گاندھی کی شخصیت کو مغرب کے اسلام بیزار متعصب سیکولر طبقے اور بھارتی پروپیگنڈے نے مل کر "عظیم "یعنی انگریزی محاورے کے مطابقLarger"Than" Life بنا کر پیش کیاہے۔
گاندھی کے بارے میں عموما ًیہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ صرف ہندوستان میں ہی انگریز سامراج کے خلاف کھڑا نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام افراد کو بھی آزادی کے لیے ابھارا تھا۔ ایک کہانی تخلیق کی گئی ہے کہ وہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کر رہا تھا، مگر جب حالات مشکل ہو گئے تو اس نے ایک اور غلام قوم کے افراد کو ابھارنے کے لیے جنوبی افریقہ کا رخ کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انرٹمپل، لندن سے بیرسٹری کرنے کے بعد وہ ہندوستان آیا تو اسکی وکالت نہ چل سکی۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک پٹیشن لکھنے والے کے طور پر مہارت حاصل کر سکا۔
دلبرداشتہ گاندھی، 23 سال کی عمر میں 1893ء میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن پہنچا، جہاں اسکی برادری کے لاتعداد افراد کاروبار کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اسے ایک گجراتی تاجر نے اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔ وہ اس تاجر کے گجراتی میں لکھے ہوئے حساب کتاب کو انگریزی زبان میں منظم کرتاتھا۔ ایک سال بعد اسے گجرات سے آئے ہوئے ہندوستانیوں نے ووٹ حاصل کرنے کیلئے اپنی وکالت کے لیے چن لیا۔ کیونکہ جنوبی افریقہ میں انکے چند امیر افراد کو ووٹ سے محروم کیا گیا تھا۔
یہاں سے گاندھی کے نسل پرستانہ اور متعصب سیاسی کردار کا آغاز ہوا۔ اس نے اپنی ہندو مذہب کے ذات پات کے تصور اور بھارتی نسل کی دوسری نسلوں پر برتری کے مذہبی بیانیے کوپورے زور و شور سے ان ہندوستانیوں کی وکالت پر صرف کر دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ افریقہ کی سیاہ فام آبادی دراصل دنیا کی کم ترین آبادی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ غلام بنائے گئے ہیں جبکہ ہندوستانی تو اعلیٰ نسل افراد ہیں اور گوروں کے ہم پلہ ہیں۔ یوں گاندھی کی افریقہ میں وکالت بھی چمکی اور وہ افریقہ میں موجود ہندوستانیوں کا ایک نسل پرست رہنما مشہور ہوگیا۔
سیاہ فام افریقیوں کے خلاف اس نے صفحے کے صفحے کالے کر دیے۔ لیکن جوہانسبرگ کی حکومت نے 1914 میں ایشیائی باشندوں کے خلاف ایک ایسا متعصبانہ قانون پاس کیا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار ہندوستانی ہڑتال پر چلے گئے، دس ہزار گرفتار ہوئے اور درجن سے زیادہ مار دیے گئے۔ گورے اور کالے کی جنگ میں گاندھی کا نیم کالے یا نیم گورے والا تعصب سے بھرپور نظریہ جب ناکام ہوگیاتو وہ ہندوستان واپس لوٹ گیا، جہاں اسے مہاتما بنانے کے لیے برصغیر کا متعصب ہندو طبقہ تیار بیٹھا تھا۔ اس طبقے نے برصغیر کے مسلمانوں کو دھوکے اور فریب میں رکھنے کے لیے گاندھی کا ایک انسانیت پرست اور عدم تشدد والا چہرہ پیش کیا۔
افریقہ کے سیاہ فام افراد اس پراپیگنڈے سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ وہ تو اسکی مکارانہ اصلیت کو نہیں جانتے تھے۔ لیکن 2016ء کی میں جب بھارت کے صدر پرناب مکھر جی نے گھانا کی یونیورسٹی آف لیگان میں گاندھی کے قدآور مجسمے کی نقاب کشائی کی تو پورے ملک کے پڑھے لکھے طبقے کی طرف سے احتجاج شروع ہوگیا اور آخرکار گاندھی کے مجسمے کو وہاں سے ہٹانا پڑا۔ اس ساری مہم کو نیویارک میں پیدا ہونے والے ایک سیاہ فام پی ایچ ڈی ڈاکٹر اوبیڈلے بکری کیمبون (obadele bakeri kambon)نے شروع کیا۔
اس نے کہا کہ افریقہ کے سیاہ فام سادہ لوح عوام کے دلوں میں بھارتی اور مغربی پروپیگنڈے نے مل کر گاندھی کو ہیرو بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس شخص کا نسل پرستانہ تعصب انتہائی بدبودار ہے۔ اس نے اپنے مضامین، لیکچروں اور گفتگو سے گاندھی کا متعصب چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ وہ خود سے زیادہ کچھ نہیں کہتابس صرف گاندھی کے لکھے ہوئے خطوط، مضامین اور تقریروں کا حوالہ دیتا رہتا ہے۔ اس نے مجسمے کے افتتاح کے فورا بعد جب گاندھی کے ستتر(77) نسل پرست اقوال سے بھرپور ایک پٹیشن تمام یونیورسٹی میں پھیلائی تو لوگ حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے صرف گاندھی فلم دیکھ کر اس کے بارے میں رائے قائم کی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ گاندھی کے زیادہ تر مضامین گجراتی اور ہندی میں تھے اورچونکہ افریقی لوگ ہندی اور گجراتی پڑھنا نہیں جانتے تھے اس لئے وہ گاندھی کی اصلیت سے واقف نہ ہو سکے۔
گاندھی نے تمام سیاہ فام افریقیوں کے لیے "کافر" کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس نے دلت اور شودروں کے لیڈر ڈاکٹر امبید کر کی کتاب کو بھی افریقی لوگوں میں تقسیم کیا جس میں وہ تفصیل درج تھی کہ کیسے گاندھی اور کانگرس نے بھارت کے دلت اور شودروں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی۔ کیمبون نے بتایا کہ گاندھی اس فوج میں سارجنٹ میجر تھا جس نے ہزاروں سیاہ فام "زولو" افراد کو قتل کیا تھا۔ گاندھی نے ڈربن میں ہندوستانیوں کے لئے دفاتر میں داخل ہونے کے لیے سیاہ فام افراد سے الگ علیحدہ دروازے منظور کروائے تھے۔
1905ء میں جب طاعون پھیلا تو گاندھی نے حکومت کو لکھا کہ یہ طاعون اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہسپتال میں سیاہ فام افریقیوں اور ہندوستانیوں کو ایک وارڈ میں رکھا جاتا رہے گا۔ اس نے 1904ء میں ہندوستانیوں کی آبادیوں سے سیاہ فام افریقیوں کو نکالنے کے لیے بھرپور مہم چلائی اور کامیاب رہا۔ گاندھی نے گورے کو یہ دلیل دی کہ ہندوستانی اور یورپ کے لوگ ایک ہی نسل" انڈو آرین" نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاہ فام دنیا بھر میں ایک شودر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر کیمبون کے نزدیک سیاہ فام لوگ ایک بہت بڑے قتل عام سے اس لئے بچ گئے کہ گاندھی اور اسکے جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں کوگوروں نے اسلحہ نہیں دیا ورنہ یہ لوگ سیاہ فام نسل کا مکمل خاتمہ کردیتے اور یہاں ہندو برہمن اقتدار قائم کرتے اوراس مقصد کیلئے گاندھی نے ایک ریزرو فوج کی تجویز بھی دی تھی۔ اس نے کہا ہے گاندھی کا یہ پرامن چہرہ پراپیگنڈے سے بنایا کیا گیا ہے۔ دنیا کو اب اس لفظ کو بدل لینا چاہیے۔ پروپیگنڈہ (propaganda) نہیں پراپگاندھی (Propogandhi) لفظ استعمال کرنا چاہیے۔