ستائیس سال بعد ایک دفعہ پھر ویسا ہی جال پھینکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جال کی ترتیب اور گرہ بندی تو پہلے بھی امریکہ میں کی گئی تھی اور آج بھی پسِ پردہ ہدایت کاری کا فریضہ وہی انجام دے رہا ہے۔ لیکن اسوقت تیرہ سالہ افغان جہاد کے رہنما اس جال کی باریکیوں کو نہیں پہچانتے تھے اور دوسری بات یہ کہ انہیں پاکستان کی قیادت پر بہت بھروسہ تھا۔
افغانوں کے دلوں میں عزت و تکریم اور انکی نظروں میں بھروسے کی حیاء جنرل ضیاء الحق شہید کی وجہ سے تھی۔ لیکن اب ویسے ہی جال کو دوسری مرتبہ پھینکنے والوں کو دو باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ گزشتہ سترہ سالہ افغان طالبان اور امریکی اتحادیوں کے مابین جنگ میں زمینی کردار بالکل مختلف اور بدل چکے ہیں۔
یہ وہ سرفروش مجاہدین ہیں جو اس جنگ کی جیت میں کسی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مرہون منت نہیں۔ انہوں نے اللہ پر توکل اور قوت بازو سے یہ جنگ جیتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ ایسے صاحبان ایمان ہیں جنکے بارے میں رسول اکرم ﷺنے فرمایا "مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا (مسلم)۔
ستائیس سال پرانی تاریخ آنکھوں میں گھوم گئی۔ نواز شریف کی کرپشن اور اداروں کی تباہی معاف کی جاسکتی ہے لیکن تیرہ سال افغان دھرتی پر ہونے والے جہاد کے ساتھ امریکی وفاداری کی وجہ سے کی گئی چالبازی معاف نہیں کی جاسکتی۔ ملحد و بے دین سوویت یونین کے ساتھ لڑنے والے افغان شہداء کا خون یقینا اللہ کے ہاں بہت معتبر ہے اور اسکو مذاکرات پر جس طرح ارزاں کیا گیا، اس کے تمام کردار آج در بدر اور خاک بسر ہیں۔ یہ نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور کی بات ہے جب وہ آئی جے آئی، خصوصاََ جماعت اسلامی کی خصوصی مدد سے برسرِ اقتدار آیا تھا۔
قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی تھے۔ افغانستان روس سے اپنا بوریا بستر لپیٹ چکا تھا، مگر کابل پر نجیب اللہ ابھی تک روسی آشیرباد سے برسرِ اقتدار تھا اور افغان مجاہدین کے گروہ اس سے برسرپیکار تھے۔ لیکن جیسے ہی 26 دسمبر 1991 میں سوویت یونین ختم ہوا، چھ نئی ریاستیں افغانستان کے پڑوس میں پیدا ہوگئیں، نجیب اللہ نے ان ریاستوں سے افغان عوام کے لئے 6 ملین بیرل تیل اور پانچ لاکھ ٹن گندم کی مدد مانگی تاکہ افغان عوام آنے والی سردیاں گزار سکیں لیکن سوویت روس نے تو ان ریاستوں کو فاقہ زدہ اور کنگال کرکے چھوڑا تھا، یوں خالی ہاتھ لوٹنے والے، نجیب اللہ کی حکومت کا برسراقتدار رہنا ہی خطرے میں پڑ گیا۔
18 مارچ 1992 کو نجیب اللہ نے اپنے استعفٰے کی پیش کش کی اور اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق نگران حکومت کے لئے رضا مندی ظاہر کردی۔ یہ تھے وہ حالات جب ایک دن نواز شریف (حال مقیم کوٹ لکھپت جیل) نے وزیراعظم ہاؤس میں قاضی حسین احمد سے ملاقات کی اور قاضی صاحب کو اپنی سادگی کی ملمع کاری میں لپٹی چکنی چپڑی باتوں سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ آپ اس ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے اپنا ایک دفتر وزیراعظم ہاؤس میں بنا لیں اور آئندہ سے ہم اس ملک میں آپ کے مشوروں سے شریعت کا نفاذ کریں گے۔
ملاقات کے دوران گلبدین حکمت یار بھی تشریف لائے۔ تینوں کی ملاقات آدھا گھنٹہ جاری رہی اور پھر دونوں نے گلبدین کو رخصت کہا۔ قاضی صاحب نے وزیراعظم ہاؤس میں دفتر بنانے سے انکار کر دیا، مگر وزیر اعظم ہاؤس سے باہر ایک مشاورتی دفتر کی حامی بھر لی۔ وزارتیں لینے سے بھی انکار کیا لیکن یہ مطالبہ کردیا کہ لیاقت بلوچ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے۔
نوازشریف کی اس پیشکش کی اصل وجہ یہ تھی کہ قاضی صاحب پشاور میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت کے لیے گلبدین حکمت یار کو قائل کریں۔ میٹنگ پشاور کے گورنر ہاؤس میں منعقد ہوئی اور گلبدین حکمت یار سمیت تمام افغان مجاہدتنظیمیں شریک ہوئیں۔ قاضی حسین احمد کے بقول آدھی میٹنگ انتہائی شاندار طریقے سے بحسن وخوبی چلتی رہی۔ اتنے میں نواز شریف کو ایک چٹ موصول ہوئی کہ کوئی اہم ٹیلی فون کال ہے۔ واپسی پر نواز شریف کا لہجہ بدلا ہوا تھا، اس نے کہا کہ میں نے سب سن لیا ہے، فوری طور پر صبغت اللہ مجددی جو اسوقت ناروے کی مسجد میں خطیب تھا، اسے بلا کر افغانستان کا صدر بنا دیا جائے۔
حکمت یار اور دیگر نے سوال کیا کہ یہ کتنی مدت کے لیے ہوگا اور الیکشن کس طرح منعقد ہوں گے، لیکن نواز شریف فورا میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ ٹیلی فون کال افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے بنین سیون (Benon Sevan) کی تھی۔ یہ وہی شخص تھا جس نے 15 اپریل 1992 کو نجیب اللہ کے صدارتی محل پہنچ کر اس سے استعفٰے لیا تھا اور اسے اپنی گاڑی میں فرار کرانے کے لیے کابل ایئرپورٹ لے جارہا تھا کہ دوستم ملیشیا نے اسے روکا اور وہ نجیب اللہ کو لے کر اقوام متحدہ کے دفتر چلا گیا جہاں اس نے طالبان کے برسراقتدار آنے تک، چار سال پناہ میں گزارے۔ اس مشتبہ ٹیلیفون اور نوازشریف کے جانے کے بعد میٹنگ شدید تلخ ہوگئی۔
حکمت یار نے اٹھ کر جانا چاہا، مگر اس کو روکے جانے کی ایک الگ کہانی ہے جو بہت تلخ ہے۔ قاضی حسین احمد نے باہر نکل کر صحافیوں سے کہا کہ آج افغانستان میں آگ اور خون کے نئے کھیل کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ دو دن بعد لاہور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے کانوکیشن میں نواز شریف نے کہا کہ اگر جماعت اسلامی کی شوریٰ میں مجھے بات کرنے کا موقع ملے تو میں بتاؤں کہ افغان حالات خراب کون کر رہا ہے۔
اسکے بعد کے اخبارات ملاحظہ فرمالیں تو نون لیگ کی وہی روش نظر آئے گی کہ کیسے اپنے گرویدہ اور "زیر اثر" کالم نگاروں اور صحافیوں کے ذریعے قاضی حسین احمد کی کردار کشی کی گئی اور ان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ لیکن اپریل 1992 میں نواز شریف نے امریکی وفاداری کے زیر اثر افغانستان میں جس آگ اور خون کے کھیل کی بنیاد رکھی تھی، اسکے بارے میں قاضی حسین احمد کی پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی اور 1996 تک طالبان کے افغانستان پر مکمل اقتدار اور کابل پر قبضے تک یہ آگ اور خون کا کھیل مسلسل جاری رہا۔
طالبان حکومت کے بعد کے 5سال امن و آشتی کا وہ زمانہ ہے جسکی مثال افغان تاریخ میں نہیں ملتی۔ ستائیس سال بعد ایک بار پھر افغانستان میں قیام امن کے نام پر امریکی وفاداری کے تحت ویسا ہی ایک اجتماع بھوربن میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس بار شاید اندازے بہت غلط ہیں۔ اس لئے افغان موجودہ "سیاسی " اور سابقہ "جہادی "رہنما کہ جو اس اجلاس میں شریک ہیں انکا افغان جدوجہد آزادی میں کردار 7 اکتوبر 2001 کو اس دن ختم ہوگیا تھا جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے۔ اس دن سے جہاد فی سبیل اللہ کا پرچم صرف اور صرف طالبان کے ہاتھ میں رہا ہے۔
اللہ نے 17 سال کے اس جہاد کوایک عظیم عزت و تکریم بخشی اور اسے فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ کسقدر حیرت کی بات ہے کہ آج افغانستان میں شکست خوردہ امریکہ اور افغان حکومت کو سہارا دینے، انکی آبرو رکھنے اور ساکھ قائم کرنے کیلئے بھوربن میں جو اجلاس بلایا گیا ہے اسے امن کے قیام کا نام دیا گیا ہے۔ یہ وہ تمام "مجاہدین" اور حالیہ سیاسی رہنما ہیں جو افغانستان میں 7 سال (1989-1994)خانہ جنگی کی علامت تھے۔ کابل کی ایک پہاڑی پر حکمت یار اور دوسری پہاڑی پر احمد شاہ مسعود کی توپیں نصب تھیں اور پورا شہر کھنڈر بن چکا تھا۔
گذشتہ سترہ سالوں سے یہ "سابقہ مجاہدین "اب سیاستدان بن چکے تھے اور عالمی ایجنڈے کے مطابق ایک پر امن افغانستان کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے ساتھ لڑنے والے طالبان اللہ کے اس حکم کی پاسداری میں لڑتے ہیں کہ فتنہ کے خاتمے تک لڑو۔ پسپا ہونے والا امریکہ جاتے جاتے امن کے نام پر ایک اور وار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اسکی بدقسمتی ہے کہ یہ جال بھی پرانا ہے اور جال پھیلانے والے تو ہیں ہی شکست خوردہ۔ جدید افغان تاریخ کا ایک ہی سبق ہے۔
1988 میں روس گیا، قتل و غارت چھوڑ گیا، امن ملا عمر کی قیادت میں طالبان لے کر آئے، آج اگر امریکہ چھوڑ کر جا رہا ہے تو افغانستان میں امن لانے کی صلاحیت کسی اور کے پاس نہیں۔۔ صرف طالبان کے پاس ہے۔