Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Riasat Madina: Soodi Bankari Ka Mutabadil (1)

Riasat Madina: Soodi Bankari Ka Mutabadil (1)

دوسری جنگ عظیم کے بعد جنم لینے والے عالمی مالیاتی نظام سے منسلک ممالک میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس سودی مالیاتی نظام اور جعلی کاغذی کرنسی سے باہر نکلنا چاہیں، تو ہمارے پاس متبادل کیا ہے اور کیا ہم یہ طاقت، قوت، حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں کہ ہم اس سودی معیشت کو خیرآباد کہہ کر آنے والی سختیوں کو برداشت کرسکیں۔ اگر ہم برداشت کرنے کا ارادہ کریں، تو پھر ہمارا نظام معیشت کیا ہو گا اور کاروبار سلطنت کیسے چلے گا۔

سودی معیشت کا متبادل کیا ہوسکتا ہے اور کیا وہ واقعی نافذ العمل ہے یا نہیں۔ جہاں تک اس عالمی مالیاتی نظام سے علیحدہ ہو کر کاروبار ریاست چلانے کی بات ہے، تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ نہ صرف یہ نافذالعمل ہے، بلکہ 1991ء تک آدھی کے قریب دنیا اس سودی معیشت اور جدید بینکاری نظام کے بغیر 75 سال تک بحسن و خوبی اپنی ریاستیں چلاتی رہی۔ 1917ء میں جب بالشویک کمیونسٹ انقلاب آیا تو یہ مکمل طور پر اس سرمایہ دارانہ نظام سے ایک بغاوت تھی۔

روس ایک طاقت تو تھا، لیکن اسے دیسی عالمی نوآبادیاتی طاقت کی حیثیت حاصل نہ تھی، جیسی برطانیہ، فرانس حتیٰ کہ جرمنی کو حاصل تھی۔ تیل کے ذخائر بھی بہت کم دریافت ہوئے تھے کہ روسی معیشت اسی کی بنیاد پر مضبوط کہلا سکتی۔ لیکن لینن اور ٹراٹسکی کے انقلابی ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں ریاست چلانے کے لیے صرف اورصرف ایک سنٹرل بینک کی ضرورت ہے جو ملک میں کرنسی بنائے اور اس کا تحفظ کرے۔

اس کے علاوہ ہم سودی معیشت کی اس "مردہ محنت" (Dead Labour) کے چونکہ قائل نہیں، اس لیے ہمیں ایسی "مردہ محنت" کے اداروں یعنی سودی بینکوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے اپنی پوری معیشت کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے کسی قسم کی بیرونی تجارت یا مدد کی ضرورت نہ ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ پوری دنیا کے معاشی نظام سے کٹ کر سوویت یونین کی ترقی کا عالم کیا تھا۔

1890ء میں روس میں سالانہ جی این پی 21,180 ملین ڈالر کے برابر تھی، جبکہ برطانیہ جو عالمی طاقت تھی اس کی جی این پی 29,441 ملین ڈالر تھی۔ لیکن سوویت یونین کے قیام کے 21 سال بعد یعنی 1938ء میں سوویت یونین کی سالانہ جی این پی 75,964 ملین ڈالر تھی اور برطانیہ کی صرف 56,103 ملین ڈالر تھی جبکہ برطانیہ اس وقت تک بھی عالمی نوآبادیاتی طاقت تھا جبکہ سوویت یونین کی کوئی کالونی نہ تھی۔ خودانحصاری کی یہ پالیسی ہی تھی کہ سوویت یونین کی برآمدات اور درآمدات کبھی بھی جی این پی کی چارفیصد سے زیادہ نہ تھیں۔

1985ء میں جب سوویت یونین کو مغربی ممالک سے تجارت کرنا پڑی تو وہ اپنی مصنوعات اور سونا عالمی منڈی میں بیچ کر آئی ایم ایف کی ہارڈ کرنسی خریدتا اور پھر اس کے ذریعے ادائیگیاں کرتا کیونکہ سوویت یونین کا "روبل" ایک قابل تبدیل (Convertable) کرنسی نہیں تھی۔ یہ نظام 75 سال تک چلا، زندہ رہا بلکہ دنیا بھر کے مزدوروں، کسانوں اور پسماندہ طبقے کی امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز رہا اور آج بھی لاتعداد لوگوں کے خوابوں میں بستا ہے۔

آخری تین دہائیوں میں تو مشرقی یورپ اور چین اور مشرق بعید کے ممالک کا ایک گروہ بن گیا تھا جو سودی بینکاری کے نظام اور آئی ایم ایف کے شکنجے کے بغیر آپس میں کاروبار کرتے تھے۔ پوری اسلامی دنیا اپنے لیے ویسا ہی متبادل غیر سودی معاشی نظام تخلیق کرسکتی ہے اور اسے اپنی ستاون ریاستوں کو چلانے کے لیے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پوری اسلامی دنیا کو راضی کون کرے گا۔

سوویت یونین میں جب انقلاب آ رہا تھا تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ہم دنیا سے کٹ کر کیسے زندہ رہیں گے۔ ایک نظریہ تھا جسے نافذ کرنا تھا اور اسے کسی دوسرے کی پرواہ کیے بغیر نافذ کردیا گیا۔ یہی معاملہ ہمارا ہے اگر کوئی ایک ملک یہ فیصلہ کرلے کہ ہم نے سودی عالمی معاشی نظام سے علیحدہ ہو کر اسلامی اصولوں پر اپنا نظام مرتب کرنا ہے تو جیسے آج کے اسلامی بینکاری نظام کو جوکہ جدید بینکاری کی بگڑی ہوئی شکل ہے، اس پر لاتعداد ملکوں نے عملدرآمد شروع کردیا ہے تو ویسے ہی اگر پاکستان ایک نئے اسلامی عالمی مالیاتی نظام کی بنیاد کا آغاز کرے گا تو دنیا بھر کے اسلامی ممالک اپنی عوام کی وجہ سے اس میں شامل ہو جائیں گے۔

یوں جیسے آدھی دنیا پر کمیونزم کا اپنا مالیاتی نظام رائج تھا، ویسے ہی مسلمانوں کا بھی ایک غیر سودی مالیاتی نظام ترتیب پا سکتا ہے۔ یہ تو عالمی مالیاتی نظام سے وابستگی اور علیحدگی کا مسئلہ تھا۔ اس کے لیے پوری قوم اور اس کی قیادت کے اندر بہت بڑی قوت ارادی، عزم و حوصلہ اور جرأت درکار ہے۔ یہ مسئلہ ویسے بھی عالمی سطح پر قوت و اختیار کا ہے لیکن اپنے ملک میں ہم کیسے سودی بینکاری سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے لیے کون سا متبادل ہو سکتا ہے اور عمران خان اپنی ریاست کو کیسے سودی بینکاری سے دور کر کے اسے ایک آئیڈیل ریاست مدینہ بنا سکتا ہے، اس سلسلہ میں اسلامی تاریخ نے بہت سے ماڈل پیش کئے اور آج بھی ان پر عملدرآمد ہورہا ہے۔

1۔ امام ابوحنیفہ کا غیر سودی معاشی ماڈل:عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شروع کی اسلامی ریاست میں چونکہ وسائل بے شمار تھے، معاشرہ سادہ تھا، اس لیے کاروبار سلطنت کے لیے زکوٰۃ و عشر ہی کافی تھا۔ عام روزمرہ کاروبار کے لیے سونے اور چاندی کے سکے چلتے تھے، اس لیے نہ کسی عالمی مالیاتی نظام کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی بینکاری سسٹم کی حاجت۔ لوگ اسلام سے پہلے سود پر قرض دیتے تھے لیکن اسلام نے اس پر پابندی لگا دی تھی اس لیے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں تھا۔

مسلمانوں کے ابتدائی دور میں جو خوشحالی آئی وہ زکوٰۃ و عشر کے علاوہ فتوحات کے بعد غیر مسلموں پر "جزیہ" جیسے ٹیکس کے لگانے سے آئی جس سے ایک ریاست مالا مال ہو گئی لیکن دین کی اشاعت اور تبلیغ کی وسعت سے لوگ دھڑا دھڑ اسلام قبول کرنے لگے تو جزیہ کی رقم میں کمی ہونا شروع ہو گئی۔ یہاں اسلامی تاریخ کا وہ المناک باب شروع ہوتا ہے کہ سرمائے اور ٹیکس کے لالچ میں عبدالملک بن مروان نے مذہب کی تبدیلی یعنی مسلمان ہونے پر پابندی لگادی۔

اس زمانے میں بھی لوگوں کے پاس بچتیں ہوتی تھیں جنہیں وہ کاروبار پر نہیں لگا پاتے تھے تو انہیں کسی امانت دار کے پاس امانت کے طور پر رکھوا دیتے تھے۔ ایسے شخص کو بستی، کوچے اور قریے میں امین کہا جاتا تھا۔ کونہ میں امام ابو حنیفہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے پاس لوگ بہت بڑی تعداد میں امانتیں رکھواتے تھے۔ جب ابوحنیفہ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ ایسی پابندی کے بعد دین کی اشاعت رک جائے گی، تو وہ ایک متبادل معاشی نظام لے کر سامنے آئے۔ جیسے آج حکومتوں کو بڑے بڑے پراجیکٹ کرنے کے قرضے کی ضرورت ہوتی ہے جسے جدید بینک پورا کرتے ہیں، اسی طرح امام ابو حنیفہ نے بھی ایک غیر سودی بینک کا ماڈل امت کے سامنے پیش کیا اور اپنی زندگی میں اسے اپنے شاگردوں کے ذریعے قائم کر کے دکھایا۔

امام ابو حنیفہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ آپ نے ان تمام لوگوں کو بلایا جن کی امانتیں ان کے پاس تھیں اور کہا کہ تم مجھے امانت نہیں قرض حسنہ دو۔ اس کے دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ قدرتی آفات کی صورت میں امانت ضائع ہو جائے تو واپسی نہیں ہوتی جبکہ قرض کی رقم واجب الادا رہتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا کہ صدقے کا اجر دس گنا ہے تو قرض حسنہ دینے کا اجر اٹھارہ گنا ہے۔

یوں امام ابو حنیفہ نے اپنے کپڑے کے کاروبار کو وسعت دی، انہوں نے وہاں "خز" یعنی کپڑے کا بڑا کارخانہ لگایا، ایک بڑی دکان قائم کی، اسی سرمائے سے بغداد، نیشاپور اور مرو میں مال بھیجتے اور منگواتے۔ اس کاروبار کے منافع سے وہ کئی کام کرتے جسے آج کے دور میں پبلک فنانسنگ کہہ سکتے ہیں۔ ضرورت مندوں کو قرض دیتے، سرکاری ضروریات مثلاً صحت اور تعلیم کے لیے وقت قائم کرتے اور اگر کوئی ان کو امانت کی بجائے کاروبار میں شراکت کرنا چاہتا تو وہ حصے دار بنا کر منافع دیتے رہتے۔

یہاں تک کہ آپ نے اس منافع سے زید بن علی کو جہاد کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا۔ یہ پورا نظام آج کی بینکاری کا بہترین متبادل ہے جو امام ابو حنیفہ نے 710 عیسوی میں قائم کیا۔ آج صرف ایک اہم سرکاری ضرورت "ڈیم کی تعمیر" کے لیے اس ماڈل پر عمل کیا جائے تو چندے اور بھیک کی ضرورت اور نہ ہی بیرونی امداد کی۔ لوگوں کو اس ڈیم میں شراکت دار بنائو اور پھر ریاست ان کو اس کی آمدن سے منافع دینے کی ذمہ دار ہوگی۔ (جاری ہے)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran