یہ میلہ ہر سال لگتا ہے، عین گرمی کے موسم میں، حدّتِ آفتاب سے بچنے کے لئیے اسمبلیوں کے یخ بستہ ماحول میں گرماگرم بحثیں ہوتی ہیں، لوگوں کا مستقبل بدلنے کے دعوے کئیے جاتے ہیں اور ان دعوئوں کی قلعی کھولنے والے بھی اسی ایوان میں دھواں دار گفتگو کرتے ہیں۔ میزوں پر ممبرانِ اسمبلی کے سامنے کئی کلو گرام وزنی بجٹ دستاویزات، ایک خوبصورت ربن میں باندھ کر رکھی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی یہ دستاویزات پھاڑ کر احتجاجا ً ہوا میں لہرانے کے کام آتی ہیں، ورنہ عمومی طور پر پورے سیشن میں اکثرممبران کی میزوں پر پڑی دستاویزات کے ربن تک کھولنے کی بھی نوبت نہیں آتی۔ ایک زحمت یہ ممبرانِ اسمبلی ضرور کرتے ہیں کہ اس بوجھ کو اٹھاکر اپنی گاڑیوں تک لے جاتے ہیں۔ اوروہاں موجود ان کے ڈرائیور یا گن مین ان کتابوں کو ان گھروں، پارلیمنٹ لاجز کے کمروں یا دفاتر کے کونوں کھدروں میں جا کر پھینک دیتے ہیں۔ یہی ان بجٹ دستاویزات کا آخری باعزت ٹھکانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ردّی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ بے شمار میزوں سے اسمبلی کے ہرکارے، بجٹ سیشن ختم ہونے کے بعد ربن میں لپٹی ہوئی یہ سربمہر دستاویزات اُٹھاتے ہیں اور اجتماعی ردّی میں شامل کر دیتے جہاں انہیں ایک دن نیلام کر دیا جاتا ہے۔
کوئی جانتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے ممالک کا مالی سال یکم جولائی سے کیوں شروع ہوتا ہے۔ پوری دنیا کے کیلنڈر یکم جنوری سے 31 دسمبر تک کی ترتیب میں چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ہر سال 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات ٹھیک بارہ بجے نئے سال کا بھرپور استقبال کرتی ہے۔ دنیا میں ہر منصوبہ بندی کا آغاز و انجام اسی ترتیب سے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا مالی سال یکم جولائی سے اس لئیے شروع ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ملک کے برطانوی حاکموں نے ایسا کرناشروع کیا تھا۔ برطانوی عملداری والے ہندوستان میں سرکار کی آمدن صرف زمینداروں پر لگان اور مالیہ وغیرہ پر مشتمل تھی۔ نہری نظام آیا تو اس میں آبیانہ بھی شامل ہو گیا۔ پورے برصغیر کی سب سے اہم فصل گندم کی تھی اور آج بھی ہے۔ اسی پر ساری معیشت کا دارومدارہوتا تھا۔ گائوں میں تو سکہ رائج الوقت بھی یہی گندم کی فصل ہوا کرتی تھی۔ سارا سال موچی سے جوتے بنوائو، جولاہے کا کپڑا خریدو، حجام سے بال ترشوائواورجب گندم کی فصل آجائے تو سال کے بعد اس میں سے ان پیشہ وروں کی محنتوں کے برابر گندم انہیں دے دی جاتی۔ انگریز سرکار کے لئیے بھی یہی ایک فصل تھی جس سے وہ اپنا حصہ وصول کرسکتا تھا۔ گندم کی فصل کی کٹائی عمومی طور پر بیساکھی والے دن یعنی 13 اپریل کو شروع کی جاتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ چونکہ پورے برصغیر میں اناج کی ذمہ داری زیادہ پر پنجاب پر ہی تھی اسی لئیے بیساکھی کو پنجاب بھر میں ہی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ فصل کٹتی، پھر اس سے جھاڑ پھونک کو علیحدہ کیا جاتا اور صاف گندم کے دانے، موتیوں کی طرح کمروں کے برابر بڑے بڑے برتن نما ذخیروں میں جمع کئے جاتے۔ یہ پورا عمل بیس سے تیس دن پر مشتمل ہوتا۔ یعنی مئی کا مہینہ حکومت کے لئیے مالیہ اور آبیانہ وصول کرنے کے لئیے بہترین تھا۔ حکومت کو بخوبی اندازہ ہو جاتا تھا کہ اس سال اس کے اہل کاروں نے زمینداروں سے کسقدر مالیہ اور آبیانہ وصول کیاگیا ہے اور یوں ان وصولیوں کی بنیاد پر جون کے مہینے میں اگلے پورے مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ یکم جولائی سے نئے مالی سال کا آغاز ہوتا۔ انگریز چلا گیا، دنیا بدل گئی، لیکن غلاموں کی خوئے غلامی آج تک باقی رہی۔
مالیہ اور آبیانہ اب سرکاری محصولات میں اتنے کم ہوچکے ہیں کہ گنتی میں نہیں آتے۔ کسٹم ڈیوٹی، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس جیسے "عفریت" عوام پر مسلط ہو چکے ہیں اور ان ٹیکسوں کا فصل کی کٹائی سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہے مگر ذہنی غلام اپنے آقائوں کی پیروی اور اطاعت اس حد تک کرتے ہیں کہ آج بھی اسی طرح باقی تمام کام تو کیلنڈر کے مطابق جنوری سے شروع کرتے ہیں لیکن مالی سال کا آغاز یکم جولائی سے کیا جاتا ہے۔ غلامانہ ذہنیت کی یہ علامتیں آپ کو بے شمار جگہ پر نظر آئیں گی۔ مثلاً ہر کسی کو معلوم ہے کہ پاکستان کا عمومی موسم گرم ہے، موسمِ سرما چند ماہ کے لئیے آتا ہے یا ملک کے چند علاقوں میں زیادہ دیر کے لئیے رہتا ہے لیکن انگریز کے زمانے سے لے کر آج تک ہمارے وکلاسیاہ کوٹ اور سیاہ گائون پہن کر جون جولائی میں لاہور کی گرمی کی اذیت سے گزرتے ہیں، ہمارے جج حضرات ویسا ہی لباس پہنتے ہیں لیکن کوئی ایک لمحے کو رُک کر سوچتانہیں کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لاتعداد سرکاری و غیر سرکاری کلبوں میں داخلے کے لئیے لباس کی جو شرائط ہیں وہ وہی ہیں جو انگریز سرکار نے رکھی تھیں۔ آپ جم خانہ سے اسلام آباد کلب تک اور کاکول اکیڈمی سے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے میسوں اور کلبوں تک کسی کے بھی ممبر ہیں تو آپ کو بند گلے (Closed Collar) کی روایت پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ آج ہماری موجودہ طرزِ معاشرت انگریزکی بجائے جدید مغربی تہذیب کی نقال بن چکی ہے۔ کارپوریٹ دنیا آج کی مرکزِ تہذیب ہے۔ امریکہ سے لے کر جاپان و آسٹریلیا تک سب پر یکساں جبری تہذیبی پابندیاں لاگو ہیں۔ جاپان، فلپائن، ملائشیائ، تھائی لینڈ، بھارت، ایران، یوگنڈا، سوڈان اور ایسے لاتعداد ممالک ہیں جن میں کبھی بھی پینٹ کوٹ اور ٹائی لوگوں کا لباس نہیں رہالیکن کارپوریٹ دنیا کے ہر دفتر میں یہ اب لازمی پہناوے کے طور پر رائج ہے۔
اسی طرح امریکہ کے فاسٹ فوڈ کی دکانوں سے لے کر یورپ اورایشیاء کی دکانوں تک سب ایک طرح کی وردی میں ملبوس کارندے آپ کو نظر آئیں گے۔ معاملہ اگر لباس، غذا کے ذائقوں یا گھریلو اور دفتری فرنیچر تک محدود ہوتا تو خیر تھی لیکن اس طرزِ معاشرت نے ہمیں ذہنی طور بھی معاشی، سیاسی اور معاشرتی اقدار کا غلام بنا دیا ہے۔ چند سال پہلے تک لوگ اس غلامی کو غلامی تصور کرتے تھے اور شرماتے لجاتے ہوئے اسے اپنی مجبوری بتاتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم عالمی دبائو میں ہیں، ہمیں قرضوں میں جکڑا جاچکا ہے۔ ہم آئی ایم ایف اور ولڈبنک سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمیں ان کی شرائط مجبوراً ماننا پڑتی ہیں لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب پاکستان کے مشیرِخزانۂ حفیظ شیخ صاحب نے اپنی بریفنگ میں آئی ایم ایف کو دنیا کا محسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ دراصل غریب ملکوں کی خیرخواہی کے لئیے بنایا گیا تھا، تا کہ ان کی معیشتیں مضبوط ہوں۔ کوئی عام شخص، سادہ سا سیاست دان یہ بات کرتا تو صبر آجاتا کہ ان بیچاروں کی معلومات ہی اتنی ہوتی ہیں لیکن حفیظ شیخ تو جانتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اس دنیا پر ایک عالمی مالیاتی نظام مسلط کرنے کیلئے یہ ادارے قائم کئیے گئے تھے تاکہ غریب ممالک کو قرض کی مستقل غلامی میں جکڑا جائے اور ان کی مصنوعات، زرعی اجناس اور معدنیات پرزبردستی قبضہ کیا جائے۔ شیخ صاحب! سادہ زبان میں عرض کروں، آپ کو بخوبی علم ہے کہ یہ ادارے، عالمی ساہو کار ہیں، بلکہ خون چوسنے والے ساہو کار، جو پہلے کسی ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنساتے ہیں اور جب اس ملک کی معیشت ڈوبنے لگتی ہے تو اسے مزید قرضے اس لئیے دیتے ہیں کہ یہ غریب ملک خود بھی کمائے اور ہمارا قرضہ اور سود بھی ادا کرتا رہے۔ آئی ایم ایف کے اس بدترین غلامی کے اصلاحاتی پروگرام میں آج تک دنیا کا کوئی غریب ملک خوشحال نہیں ہو سکا۔ بس اسے دو وقت کی روٹی کے قابل بنا دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی باقی ساری دولت اور وسائل عالمی ساہوکاروں اور بینکاروں کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ ہر سال بجٹ اسی بنیاد پر بنتا ہے کہ ہم نے خود کتنا کم کھانا ہے اور ساہوکاروں کی نذر کتنا زیادہ کرنا ہے۔