نفسیات کی تعلیم کے دوران جب ہم مختلف ذہنی مریضوں کا نفسیاتی مطالعہ کرتے، ان کی خاندانی، ذاتی اور معاشرتی زندگی کا معلوماتی چارٹ مرتب کرتے ہوئے مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے ان کے ذہنی لاشعور میں چلنے والی کشمکش کا مطالعہ کرتے تو، مہذب، تعلیم یافتہ اور بظاہر انسانی اخلاق کی پاسداری کرنیوالے شخص کا ذہن بھی غلاظت اور گندگی کا ڈھیر نظر آتا۔ یوں لگتا جیسے یہ بیماری ایک پردہ ہے، جس نے اس کی شخصیت کے گٹر پر ڈھکن دے کر اس پر چونا ڈال رکھا ہے۔ ایسے میں ہمارے ایک استاد ایم اے ملک جنہیں شاعری سے شغف بھی تھا اور ملک کے نامور دست شناس بھی تھے، ایک شعر پڑھا کرتے تھے
منکشف ہو اگر جبیں پہ ضمیر
آدمی آدمی سے ڈر جائے
انسانی نفسیات خاندان اور معاشرہ سے تخلیق پاتی ہے اور پھر جیسی انسانوں کی اکثریت کی ذہنی کیفیت ہوتی ہے وہ مل کر ایک معاشرتی نفسیات (Social Psyche) تخلیق کرتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ انسانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد جو اقتدارپر قابض ہوتی ہے، یا علم، سائنس اور معاشرت کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ معاشرہ تخلیق کرتی ہے۔ لکھنے والے اخلاقی و معاشرتی اصولوں پر ادب تخلیق کرتے ہیں، صاحبانِ اقتدار ان کی روشنی میں قانون مرتب کرتے ہیں، معاشرت اور معیشت کے ٹھیکے دار اپنے مقاصد کیلئے کاروباری، معاشرتی اور معاشی اقدار کو فروغ دیتے ہیں۔
انسانی زندگی کے ان تمام رویوں کو ایک اہم ترین "چوہدری" اپنی زیر نگرانی صحیح راستے پر گامزن رکھنے کی کوشش کرتا رہتاہے۔ اس "چوہدری" وڈیرے، یا سردار کا نام "مذہب" ہے۔ پوری دنیا کے تمام مذاہب، عالمی اخلاقیات رکھتے ہیں۔ جھوٹ نہیں بولنا، دھوکا نہیں دینا، انسانی جان کا احترام کرنا، خاندانی رشتے اور ان کا احترام، بوڑھوں، بچوں اور کمزوروں کی دیکھ بھال اور ایسی لاتعداد اخلاقی اقدار ہر مذہب کی گائیڈ لائن میں موجود ہیں۔
یہ "چوہدری یا سردار" اپنے اندر ایک قوتِ نافذہ بھی رکھتا ہے اس قوت کو اللہ، خداوند، بھگوان اور یزداں کہتے ہیں اور ہر مذہب کے نزدیک ایک یوم عدل یعنی روز حشر بھی ہے جہاں آخری جزا و سزا کا مرحلہ واقع ہوگا۔ اس "چوہدری" کو نفسیات دانوں نے فوق الانا (Super Ego) کہا ہے جو انسان کی خواہشات کو بے لگام ہونے سے روکتا ہے۔ خواہشات کے بے لگام گھوڑے کو (ID) کہا جاتا ہے۔ انسانی شخصیت دراصل ان دونوں کے درمیان جنگ پر مشتمل ہے۔ اللہ نے صدیوں پہلے قرآن پاک میں انسانی شخصیت کے انہی دونوں پہلوئوں کو بیان کیاہے، فرمایا، " پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی ہے جو اس کے لئے بدکاری کی ہے اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے" (الشمس: 8)۔
اسلام ان دونوں قوتوں کی جنگ میں کامیاب اس فرد کو کہتا ہے جس نے پرہیزگاری کا راستہ اختیار کیا اور بدکاری کی خواہش کو شکست دی۔ جبکہ جدید مغربی تہذیب کی نفسیات کے معماروں میں سے اہم ترین معمارسگمنڈ فرائڈ نے ان دونوں طاقتوں کے درمیان کشمکش کے دوران کامیاب، ایسے آدمی کا تصور دیا ہے جو ان دونوں طاقتوں کی لڑائیوں میں بیچ کا راستہ نکالتا ہے۔ اپنی خواہشات کووقتی طور پر روک بھی لیتاہے، اور موقع ملے تو پورا بھی کرتا ہے اور جب کوئی غلط کام سرزد ہو جائے تو اپنے آپ کو تسلی دے کر مطمئن بھی کر لیتا ہے۔ جیسے میں نے اکیلے تھوڑا شراب پی ہے، سب پیتے ہیں، میں نے ڈکیتی کی ہے، لیکن اس معاشرے نے بھی تو میرا سب کچھ چھین لیا تھا۔ یوں ہر انسان کو نفسیاتی طور پرصحت مند زندگی گزارنے کے لیے اپنے ہر جرم کا جواز میسر آجاتا ہے۔
اس سارے عمل کو وہ شعور کا مدافعاتی نظام (Defense Machanism of Ego) کہتا ہے۔ نفسیات کایہ تصور، جدید مغربی تہذیب کے ایک بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ یہی تصور ہے جس کی بدولت انسان اور حکومتیں دونوں، اپنے ظلم، گناہ، زیادتی اور بے انصافی کو جواز فراہم کرتی رہتی ہیں تاکہ اپنے ذہن کی اس اندرونی لعنت و ملامت (Guilt) کا سامنا کر سکیں۔ یہی اجتماعی رویہ ہی ہے جو لاکھوں کروڑوں انسانوں کو قتل کرنے کے بعد بھی مغرب کے حکمرانوں اور عوام کو چین کی نیند سلاتا ہے۔ دنیا بھر سے لوٹ مار کرنے کے بعد بھی سرمایہ دار کارپوریٹ کوذہنی طور پر پُرسکون رکھتا ہے۔
یہ انفرادی اور اجتماعی رویہ گذشتہ تقریبا ڈیڑھ سو سالوں سے جدید مغربی تہذیب کے انسانوں کے ذہنوں میں پوری قوت سے علم کے راستے ٹھونسا گیا ہے۔ اسی رویے کی تخلیق کیلئے اخلاقیات اور نظام حکومت کو تصورِ آخرت اور تصورِ خدا سے علیحدہ کیا گیایعنی ریاست کو مذہب سے جدا کر دیا گیا۔ معاشرہ مذہب کی بجائے خود حقوق اور ذمہ داریوں کی فہرست مرتب کرے اور جیسی چاہے اخلاقی اصول بنائے۔
ہم جنس شادیاں کرے یا بغیر شادی کے زندگی گزارے، والدین کو اولڈ ایج ہوم میں بھیجے یا بچوں کو فوسٹر ہوم میں سب جائز ہے۔ اس کھوکھلی تہذیب کی بنیاد "فرد" ہے یعنی ایک "اکیلا"فرد جسے صرف اپنا ہی مفاد دیکھنا ہے اور اپنی ہی بقا کے لیے زندہ رہنا ہے۔ اس رویے سیاب ایسا مغربی معاشرہ تخلیق پا چکا ہے جس کا اصل مکروہ چہرہ اسوقت سامنے آتا ہے جب کوئی آفت اور مصیبت آتی ہے۔ انفرادیت پر قائم اس خود غرض مغربی تہذیب کا غلیظ اور مکروہ چہرہ بیالیس سال قبل 13 جولائی 1977ء کو سامنے آیا جب نیویارک میں طوفان اور آسمانی بجلی گرنے سے مکمل بلیک آؤٹ ہوگیا۔
8 بج کر پینتیس منٹ پر آسمانی بجلی گرنا شروع ہوئی اور نو بج کر 31 منٹ پر پورا نیویارک تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس کے بعد نیویارک پر لٹیروں، غنڈوں اور جنسی درندوں کا راج شروع ہوا۔ ایسی ایسی کہانیاں سامنے آئیں کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ جدید مغربی تہذیب کا یہ چہرہ بار بار اسوقت سامنے آیا جب انسانوں پر کوئی آفت ٹوٹی یا بلا نازل ہوئی۔
آج کورونا وائرس کی وبا میں یہ مکروہ چہرہ دنیا کے ہر مہذب ملک اور شہروں میں جابجا نظر آتا ہے۔ اگر کوئی اس وقت نیویارک شہر سے گزرے تو دیکھے گا کہ لوٹ مار کے ڈر سے ہر بڑے سٹور نے اپنی دکانوں کے شیشوں کو لکڑی کے تختوں سے سربمہر کر رکھا ہے۔ ابھی وبا کا آغازہی ہوا تھا کہ امریکہ اور یورپ کے ہر بڑے شہر کے سٹوروں سے جس کے بس میں جتنا تھا اس نے راشن خرید لیا۔ امریکہ کے ہر شہر کے اسلحہ سٹوروں پر اسلحہ خریدنے والوں کی لائنیں لگ گئیں کہ کل اگر لوگ بھوک سے تنگ آکر ان کے گھروں پر حملہ کریں تو انہیں مارنے کے لیے ان کے پاس اسلحہ موجود ہو۔
امریکہ میں ایک حیرت انگیز کاروبار نے عروج پکڑا۔ فلوریڈا اور ورجینیا کے ریاستوں میں"بقا کے مستحکم کیمپ" (Fortitude survival camp) بنائے گئے ہیں جن کی ایک ہزار ڈالر سالانہ ممبر شپ فیس ہے۔ ان کیمپوں میں ایسے گھر بنائے گئے ہیں، جن میں ایک سال کی خوراک کا ذخیرہ موجود ہے، دریا کاپانی اور مچھلی میسر ہے اور بجلی کا انتظام ہے، کلینک ہے اور ساتھ اسلحہ کا وافر ذخیرہ ہے تاکہ اگر کوئی بھوکا اس طرف آنکلے تو اسے مار بھگایا جا سکے۔ مذہب کی اخلاقیات سے عاری مغربی معاشرے کی یہی معراج ہے کہ وہ کسی فرد کو اپنی دنیاوی زندگی بہتر بنانے کے لیے کتنا اور کیسے تیار کرتا ہے۔ ایسا کرنے کیلئے قتل، لوٹ مار، دھوکہ اور جھوٹ سب سکہ رائج الوقت کہلاتا ہے۔
لوگ بوڑھوں کو تنہا چھوڑ جاتے ہیں اور بچوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ انسان کے اندر کا خوفناک بھیڑیا جاگتا ہے تو اس کے دماغ پر نہ کسی ماورا طاقتور ہستی کا خوف ہوتا ہے اور نہ روزِ آخرت جواب دہی کا ڈر۔ جدید مغربی تہذیب کا معاشرہ، امن کے دور میں سہولیات اور آسائش کی وجہ سے انتہائی خوبصورت لگتا ہے جسے دیکھ کر میرا دانشور مبہوت ہو جاتا ہے لیکن آفت و مصیبت، بلا اور عذاب کے وقت اس کا مکروہ چہرہ سامنے آتا ہے۔ یہ بدترین روپ ہی امریکہ اور یورپ کا تہذیبی زوال ہے۔