پاکستان کی تخلیق ایک ایسا واقعہ ہے جو دنیا بھر کے سیکولر، لبرل اور مذہب بیزار گروہوں کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔ وہ جنہوں نے دنیا بھر کے علوم کو گزشتہ تین سو سال کی محنت سے سیکولر بنایا تھا، انسانوں کو یہ سکھایا تھا کہ جو کچھ انسانی مشاہدہ کے تحت سائنس بتاتی ہے وہی اصل سچ ہے باقی سب وہم و گمان ہے، انہی ماہرین اور دانشوروں نے پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کو یہ درس بھی پڑھایا تھا کہ تمام انسان رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور یہی بنیادی وجہ تقسیم ہے حالانکہ پاکستان کی قومیت مسلم ہونا چاہیے تھی جیسے اسرائیل کی یہودی ہے اور پاکستان کا نظریہ اور آئینِ اسلام اور قرآن ہونا چاہیے تھا جیسے اسرائیل کا آئین تورات اور تالمود ہے۔
اسرائیل کو تو مغربی طاقتوں نے اپنے ملکوں سے یہودیوں کو فلسطین میں زبردستی آباد کرکے بنایا تھا جب کہ پاکستان تو اس خطے کے مسلمانوں کی آواز تھا جو صرف اور صرف کلمہ گو مسلمان کے لیے ایک خطہ، وطن یا سلطنت چاہتے تھے۔ گیارہ اگست 1947 کی قائد اعظم کی تقریر کو جس طرح سیکولر معنی پہنائے گئے اور پھر اس عظیم لیڈر کو خود جنوری 1948 میں کراچی بار سے خطاب کرتے ہوئے اس کا جواب دینا پڑا اور کہنا پڑا کہ "کچھ لوگ یہ شرارت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم شرعی قوانین کو ترک کر دیں گے۔
شرعی قوانین آج بھی اسی طرح نافذ العمل ہیں جیسے تیرہ سو سال پہلے تھے۔ قرار داد مقاصد میں اسلام کی فتح سے لے کر ضیاء الحق کے دور حکومت تک پاکستانی ریاست پر بطور نظریہ یا ایجنڈا سیکولر چھاپ قائم نہ ہوسکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا 1973 کا آئین ایک ایسی دستاویز تھی جس کی روح تک اسلامی تھی۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے لے کر شراب اور جوئے پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی تک بھٹو حکومت اینٹی سیکولر، اینٹی لبرل ہی نظر آتی ہے۔
ضیاء الحق کے اسلامی قوانین کا اثر و نفوز پرویز مشرف کی آمریت کے آنے تک اس ملک پر سایہ فگن رہا۔ لیکن مشرف نے سیکولر پاکستان کی بنیاد رکھی اور پھر اس کے بعد خواہ زرداری آیا یا نواز شریف، سب کے سب اسی کی طرح مذہب بیزار، سیکولر، لبرل اقدامات ہی کرتے رہے اور اسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہے جس پر عملدرآمد مشرف نے شروع کیا تھا۔
ریاست مدینہ کے نعرے کی گونج میں عمران خان ایک ایسی پارٹی کے ساتھ برسر اقتدار آیا جس میں اقتدار کے ایوانوں میں اس کے ساتھی ایسے لوگ ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا سیکولرزم، لبرلزم اور مذہب بیزاری ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے وہ ایسے تمام اقدامات کررہے ہیں اور گزشتہ سیکولر اقدامات کا تحفظ کررہے ہیں جن سے معاشرے سے مذہب کو دور کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان صاحب کا تصورِ ریاستِ مدینہ دراصل ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور دیگر ویلفیئر ریاستوں سے ہو کر گزرتا ہے اور مدینہ کی اللہ کے سامنے جوابدہ ریاست کی بجائے عوام کے سامنے جوابدہ اور مدینے کی آخرت کے لئے دنیا سنوارنے والی ریاست کی بجائے فقط دنیا سنوارنے والی ریاست ہے۔
گذشتہ دنوں جب حج پر سبسڈی ختم کی گئی تو عام طور پر لوگوں نے اسے ایک معاشی مسئلہ سمجھا اور کچھ نے اس پر شرعی حوالے سے بات کی۔ یقینا شرع میں ایسے شخص پر حج فرض نہیں ہے جو استطاعت نہ رکھتا ہو اور پاکستان کی معاشی حالت بھی بہت پتلی ہے۔ لیکن معاملہ اصل میں یہ نہیں ہے۔ یہ اقدام دراصل سیکولر ایجنڈے کی ایک کڑی ہے۔
اس وقت دنیا میں سیکولر اور مذہب بیزار سرگرم افراد کے لیے ایک کتاب بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کو ان سرگرم افراد (Activists) کی رہنما (Toolkit) کا نام دیا گیا ہے۔ کتاب کا نام "how to defeat Religion۔ مذہب کو کیسے شکست دی جائے"ہے کتاب کے ٹائٹل پر لکھا ہے "In easy ten steps "یعنی " دس آسان اقدامات کے ذریعے"۔ کتاب کو امریکی ریاست فلوریڈا کی ٹیمپا (Tampa) یونیورسٹی کے پروفیسر ریان ٹی کراگن (Ryan T. Cragun)نے تحریر کیا ہے۔
یہ کتاب گزشتہ دو صدیوں کے تجربات اور اقدامات کا نچوڑ ہے۔ اس وقت یہ دنیا بھر میں زیربحث کتابوں میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں جو دس اصول اور اقدامات بتائے گئے ہیں، ان کی روشنی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مشرف سے لے کر اب تک پاکستان کی تمام حکومتیں پاکستان کوایک سیکولر معاشرے میں تبدیل کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں اور عمران خان کی ریاست مدینہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ یہ دس اقدامات یہ ہیں۔
1- سیکولر نظام تعلیم کی ترویج اور اس کا دفاع: پاکستان میں شروع دن سے ایک سیکولر نظام تعلیم رائج ہے اور گذشتہ تیس سالوں میں انگلش میڈیم نے اسے مکمل طور پر مذہب سے آزاد کر دیا ہے۔ عمران خان کا یکساں نظام تعلیم بھی دراصل یکساں سیکولر نظام تعلیم ہے جس کا آغاز خیبرپختونخوا سے ہوا تھا اور ان دنوں جس پر مزیدسرعت سے کام ہو رہا ہے۔
2- نسلی جنسی اور جنڈر کی اقلیتوں کو طاقت دینا (empower): پاکستان کی بدقسمتی دیکھئے کہ دنیا میں کہیں خواجہ سرا ایک علیحدہ جنس نہیں قرار دئیے جاتے۔ جنسی معذوری ایک عیب ہے لیکن اسے ایک علیحدہ جنس قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ تمام نسلی اقلیتوں کو ملکی مفاد کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
3- اسی دنیا (This life) کو تحفظ دینا: اس اقدام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مذہب کا صرف وہ حصہ قابل عمل سمجھا جائے جو آخرت کے تصور سے آزاد ہو اور اس دنیا کو ہی حرف آخر سمجھے۔ اگر یہاں خوشحالی ہے تو سب ٹھیک۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور اسی تصور پر مبنی ہیں خواہ وہ جماعت اسلامی کا خوشحال پاکستان ہی کیوں نہ ہو۔
4- ہر ایک کے لیے جنسی آزادی: یہ وہ نکتہ ہے جس پر گذشتہ تیس سالوں سے بہت محنت کی گئی ہے اور ہر اس شادی کو محترم اور مقدس بنایا گیا ہے جو گھر سے بھاگ کر کی جائے۔ میڈیا کے رول ماڈل بھی اسی تصور کے گرد گھومتے ہیں۔
5- مذہب کے لیے دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے اور اسے قوانین سے آزاد کردیا جائے: یہ وہ نکتہ ہے جس پر عمل کرنے کی جرات عمران خان سے پہلے کسی حکومت کو نہیں ہوئی تھی۔ حج پر سبسڈی نہ معاشی مسئلہ ہے اور نہ ہی شرعی احکام کی پابندی کا معاملہ۔ یہ دراصل ریاست کا مذہب کے ساتھ ایک رشتہ جوڑتا ہے اور اس رشتے کو توڑنا سیکولر ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ اسی لئے اس اقدام نے چونکا دیا ہے۔ اس کے بعدکتاب میں دیئے گئے پانچ اقدامات پر بھی ہمارے ملک میں مسلسل عمل ہو رہا ہے اور ریاست مدینہ کے علمبردار بھی ویسے ہی اس پر عمل کر رہے ہیں۔
6) سرمایہ دارانہ معیشت کا قانونی طور پر تحفظ۔
7) آرٹ اور سائنس کی ترویج۔
8) تہواروں اورمیلوں ٹھیلوں کو چھٹیوں سے منسلک کرنا۔ بسنت منانے کی کوشش اسی کا شاخسانہ تھی۔
9) لوگوں کو اخلاقیات کے بارے میں تنقید پر ابھارنا اور سائنسی تحقیق کی طرف مائل کرنا۔
10) سکولوں میں مذہبی اخلاقیات کی بجائے انسانیت کا درس دینا۔ یعنی جو کوئی یہاں لوگوں کی خدمت کرتا ہے اس کے لیے اللہ کے ہاں اجر نہیں بلکہ وہ اسی دنیا میں انسانیت کا ہیرو ہے اور یہی اس کا اجر ہے۔
اس آئینے میں عمران خان صاحب اپنی ٹیم کی تصویر دیکھ لیں اور پھریا تو ریاست مدینہ کا نعرہ لگانا چھوڑ دیں یا پھر ٹیم درست کر لیں۔