Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Sri Lanka Ke Baad, Bangladesh Ya Pakistan

Sri Lanka Ke Baad, Bangladesh Ya Pakistan

پاکستان میں سیاسی و معاشی پنڈتوں کا ایک ایسا گروہ موجود ہے، جو ہمیشہ سے اس ملک کے لوگوں کو مایوس کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ سیکولر، لبرل دانشوروں کا یہ طبقہ قیامِ پاکستان کے وقت کیمونزم کی چھتری تانے ہوئے تھا اور بھارتی معیشت دانوں کی "نفرت" سے تبصرے اُدھار لے کر مسلسل یہ پیش گوئیاں کرتا رہتا تھا کہ اسلام پر بننے والا یہ ملک زیادہ دیر چلنے کا نہیں ہے۔

وہ اکثر یہ کہتے کہ یہ ملک مسلمانانِ ہند کی اپنی تمنائوں اور آرزوئوں کا مظہر نہیں تھا، بلکہ ایک سازش کے تحت انگریز نے متحدہ ہندوستان کو "تقسیم کرو اور حکمرانی کرو" کے اُصول پر تقسیم کر کے پاکستان تخلیق کیا تھا، بھلا قوم قبیلہ، زبان ثقافت ترک کر کے صرف کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر لوگ اکٹھا رہ سکتے ہیں۔

ان دانشوروں نے بھر پور کوشش کی کہ زمین کے رشتے کو تہذیبی روایت سے جوڑ کر ایک بے جوڑ سی تاریخ مرتب کی جائے جس کے تناظر میں اسلام کا قبول کرنا اور یہاں پر مسلمانوں کی اکثریت کا ہونا ایک معمولی سا واقعہ محسوس ہو۔ مثلاً سندھ میں رہنے والوں کے لئے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک تاریخ مرتب کی گئی تم تو دُنیا کی قدیم ترین تہذیب "وادیٔ سندھ" کے امین و وارث ہو۔ حالانکہ امرواقعہ یہ ہے کہ گذشتہ دو ہزار سال سے جو لوگ بھی سندھ میں آ کر آباد ہوتے چلے آ رہے ہیں، ان میں سے اکثریت ان حملہ آوروں کی اولادیں ہیں جنہوں نے موہنجو داڑو کی عظیم تہذیب کو تباہ وبرباد کیا تھا اور یہاں پر بسنے والی دراوڑ اقوام کو اوّل تو قتل کر دیا یا پھر مار بھگایا تھا۔

وہ تمام اقوام جو پاکستان میں آباد ہیں، سب کی سب، مختلف علاقوں سے اس وقت ہجرت کر کے یہاں آئیں جب ان کے اپنے ممالک میں قحط نے ڈیرے ڈال لئے تھے یا پھر دُشمن نے انہیں مار بھگایا تھا۔ کوئی پچھتر سال پہلے پاکستان بننے پر یہاں آ کر آباد ہوا تو کوئی زیادہ سے زیادہ دو ہزار سال پہلے۔ ان سب کو "دھرتی ماتا" سے منسلک کرنے کے لئے انہیں پانچ ہزار سال پرانی تہذیب سے جوڑا گیا۔

حالت یہ ہے کہ اگر آج یہاں قحط، خشک سالی، جنگ اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے یہ تمام لوگ یعنی اس "دھرتی ماتا" کے بیٹے، اسی ماں کو چھوڑ جائیں گے۔ اسی طرح تعصب سے بھر پور زبان، رنگ، نسل اور علاقے کے باہمی تعلق کو معاشی استحصال سے جوڑ کر مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ اس نفرت کو پروان چڑھانے میں مغربی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور سول و ملٹری بیوروکریسی نے بھی برابر کا حصہ ڈالا اور یوں 1971ء میں ایک نیا ملک بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔

بنگلہ دیش کی تخلیق سے لے کر اب تک ٹھیک پچاس سال سے یہ سیکولر، لبرل معاشی پنڈت، پاکستان کے رہنے والوں کو مسلسل ایک ہی طعنہ دیتے چلے آئے ہیں کہ، دیکھو بنگلہ دیش کس قدر کامیابی کے زینے چڑھتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے معاشی اعشاریے دیکھو۔ یہ لوگ بڑے بڑے پائی چارٹ، گراف اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں سے یہ ثابت کرتے رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کی معیشت بہت مضبوط ہے۔

ان تمام معاشی تجزیہ نگاروں سے ہمیشہ میں نے تین سوال کئے ہیں، (1)کہ اگر بنگلہ دیش کی معیشت اس قدر خوشحال ہو چکی ہے، تو پھر تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ بنگلہ دیشی غیر قانونی طور پر بھارت میں معمولی قسم کی نوکریاں کیوں کر رہے ہیں، (2) دُنیا بھر کے تمام اعلیٰ ریسرچ اداروں کی تحقیق کے مطابق ہر سال پچاس ہزار بنگلہ دیشی لڑکیاں جن کی عمر 13 سے 25 سال کے درمیان ہوتی ہے، صرف بھارت سمگل کی جاتی ہیں۔

گذشتہ دس سال، (جنہیں بنگلہ دیش کے خوشحالی کے سال بتایا جاتا ہے) ان میں تقریباً گیارہ لاکھ بنگلہ دیشی عورتیں بھارت لائی گئیں۔ اور ان میں سے 25 فیصد جسم فروشی کے دھندے سے منسلک کر دی گئیں ہیں۔ کلکتہ کے بازارِ حُسن کی 70 فیصد طوائفیں بنگلہ دیش سے ہیں۔ آج بھی کراچی شہر میں بنگلہ دیشی افراد کی 200 کے قریب بستیاں آباد ہیں جن میں غیر ملکوں کی رجسٹریشن کے ادارے "NARA" کے مطابق بیس لاکھ بنگلہ دیشی آباد ہیں۔ بنگلہ دیش اگر اس قدر خوشحال ہو چکا ہے تو پھر یہ بنگالی واپس کیوں نہیں چلے جاتے۔ یہ ہے فریبِ معیشت و فریب شماریات۔

ان تمام سیکولر، لبرل معاشی پنڈتوں کی پیش گوئیاں اب عنقریب خلیج بنگال میں غرق ہونے والی ہیں۔ اس لئے کہ دُنیا کی موجودہ معاشی صورتِ حال کے بارے جو جائزے آ رہے ہیں، ان کے مطابق جنوبی ایشیاء میں سری لنکا کے بعد اگلا ملک جو تباہی و بربادی کا شکار ہو گا وہ بنگلہ دیش ہے۔ یہ ملک گذشتہ چند ماہ سے ضروری اشیاء کی کمی کا شکار ہو چکا ہے، جن میں پٹرول اور ادویات بھی شامل ہیں۔

اس کمی کی وجہ سے اس کی برآمدات اور درآمدات میں اس قدر زیادہ فرق پیدا ہو گیا ہے کہ معیشت کو سنبھالنا مشکل ہو چکا ہے۔ اس مالی سال کے گذشتہ نو ماہ میں بنگلہ دیش نے 61.52 ارب ڈالر کی اشیاء درآمد کیں جو گذشتہ سال کی نسبت تقریباً 45 فیصد زیادہ تھیں۔ جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات 33 فیصد کم رہیں۔ بنگلہ دیش کا زرِمبادلہ کا بڑا حصہ بیرون ملک ورکروں سے آتا ہے، ان چار مہینوں میں ان ترسیلات میں بھی 20 فیصد کمی آئی۔

بنگلہ دیش نے نو ماہ میں بیرون ملک سے 85 ارب ڈالر کی اشیاء منگوائیں جبکہ 35 ارب ڈالر کی باہر بھیجیں۔ 35 ارب ڈالر کا تجارتی فرق کسی طور بھی بیرون ملک کام کرنے والوں کی آمدن سے نہیں پورا کیا جا سکتا۔ بنگلہ دیش کو حالات بہتر رکھنے کے لئے 10 ارب ڈالر سالانہ چاہئیں۔ صرف گذشتہ آٹھ مہینوں میں بنگلہ دیش کے زرِمبادلہ کے ذخائر (جن کی پاکستانی دانشور بہت دھوم مچاتے تھے)، 48 ارب ڈالر سے 42 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں اور اگلے چار ماہ میں 35 ارب ڈالر رہ جائیں گے۔

بنگلہ دیش کی تباہی کا آغاز بھی اسی حماقت سے ہوا جس کا آغاز پاکستان میں نواز شریف نے کیا تھا، یعنی بڑے بڑے غیر ضروری پراجیکٹ کے لئے قرضے لینا، جیسے موٹر وے، میٹرو وغیرہ۔ سری لنکا کے حکمرانوں نے بھی عوامی مقبولیت کے لئے یہی کیا تھا اور تباہ ہو گئے، جبکہ حسینہ واجد بھی اسی راستے پر گذشتہ کئی سالوں سے گامزن ہے۔

جس طرح نواز شریف نے ضرورت سے زیادہ بجلی بنانے کے پلانٹ لگائے تھے ویسے ہی بنگلہ دیش نے روس سے 12 ارب ڈالر کا قرضہ لے کر ضروریات سے زیادہ 2400 میگا واٹ کا ایٹمی بجلی گھر بنایا تھا۔ اس بجلی گھر کے لئے گئے قرضے کی ہر سال پانچ کروڑ 65 لاکھ ڈالر قسط ادا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کے لئے حاصل کردہ قرضوں کی سالانہ اقساط 4 ارب ڈالر ہیں ان رقوم کی ادائیگی موجودہ معاشی حالات میں ناممکن نظر آتی ہے۔

بنگلہ دیش کی معیشت کو بیرون ملک خام مال منگوا کر مقامی سستی لیبر کے ذریعے ٹیکسٹائل پر استوار کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لئے کپاس بھی باہر سے منگوائی جاتی تھی جبکہ دیگر اشیاء میں پام آئل سے لے کر چاول اور گندم جیسی ضروری اشیاء بھی باہر سے آتی ہیں۔ حسینہ واجد نے لوگوں سے بچت کا کہا ہے، اپنے اور تمام حکومتی عہدیداروں کے بیرون ملک دورے منسوخ کر دیئے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں سے کم کھانے کو بھی کہا ہے۔

لیکن تباہی کا وہ بیج جو معاشی غارت گروں (Economic Hitman) نے بڑے بڑے خوشنما پراجیکٹ کیلئے قرضوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں بویا تھا اس کے زہر آلود پھل کا وقت آ چکا ہے اور جرمنی ٹی وی DW کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے بعد اگلا ملک جو معاشی تباہی کے راستے پر آ نکلے گا وہ بنگلہ دیش ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ ماہ کی پاکستانی حکومت نے جس طرح بحران پیدا کیا ہے، پاکستانی معیشت بھی زوال کی طرف جا رہی ہے۔

اس وقت دُنیا بھر کے اہم معیشت دان حیرت میں گم کھڑے ہیں، سوچ رہے ہیں کہ کون پہلے دیوالیہ ہوتا ہے، پاکستان یا بنگلہ دیش۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran