سیکولر اور لبرل عالمی لٹریچر اور عالمی نظامِ تعلیم کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ پیغمبر، سائنس دان، سیاست دان، فاتح، تاجر اور دیگر اہم افراد کی عظمت، بڑائی اور کامیابی کو جانچنے اور انہیں "کامیاب" انسان کے منصب پر فائز کرنے کا ایک ہی پیمانہ ہونا چاہیے اور آج کے دن تک وہ ہر کسی کو اس پیمانے کا قائل کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں مائیکل ہارٹ کی کتاب "دی ہنڈرڈ"(The 100) جو تاریخ کے سو کامیاب ترین انسانوں پر 1992ء میں لکھی گئی، پہلے دن سے مقبول ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب میں جو ترتیب یا رینکنگ دی ہے، اس میں رسول اکرم ﷺ کا نام پہلے نمبر پر لکھا ہے اور ساتھ ہی اس نے آپ ؐکے نام کو پہلے نمبر پر رکھنے کاجو پیمانہ بتایا ہے وہ یہ ہیکہ"Supremely successful in both the religious and secular realms"ـ (مذہبی اور سیکولر دونوں دائرۂ اثر میں انتہائی شاندار کامیابی)۔
یعنی کتاب میں پیغمبرِ خداﷺکو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے فرستادہ رسول نہیں، بلکہ ایک مصلح، مذہبی رہنما اور عام حکمرانوں کے معیار پر رکھ کر پرکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لسٹ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے ایک اور پیغمبر سیدنا عیسیٰ علیہ سلام کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ درمیان میں انسانی تاریخ کا دوسرا سب سے کامیاب شخص "سر آئزک نیوٹن" ہے۔ لوگ اسے ایک سائنس دان کے طور پر جانتے ہیں، لیکن اس کا "جدید سودی معیشت" کے قیام میں اہم ترین کردار رہا ہے۔ تاجِ برطانیہ نے آٹھ سالہ طویل جنگ کے دوران1692ء میں "چارلس ایرل آف ہیلی فیکس" سے قرض حاصل کیا۔ یہ انسانی تاریخ کا" پہلا" حکومتی قرضہ تھا، جس نے موجودہ" عالمی سودی مالیاتی نظام" کی بنیاد رکھی۔
برطانیہ کی حکومت کو جب قرض کی دلدل میں پھنسا لیا گیا تو 1694ء میں چارلس ایرل آف ہیلی فیکس نے حکومت سے" بینک آف انگلینڈ" کے چارٹر کی منظوری حاصل کر لی اور ساتھ ہی "کاغذ کے نوٹ" (Promissory note) جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل کر لیا۔ اب ایک عیاّر آدمی کی حکومت کے خزانوں پر تقرری کی ضرورت تھی۔ چارلس ایرل آف ہیلی فیکس کی نظر انتخاب کتاب کے مطابق"انسانی تاریخ کے اس دوسرے کامیاب انسان" سر آئزک نیوٹن پر پڑی اور ملکہ برطانیہ نے اس کے دباؤ میں آکر 1694ء میں نیوٹن کو برطانوی "خزانے کا سربراہ" (Chancellor of the Exchequer)مقرر کر دیااور یوں جدید سودی نظام کے ان "آباؤ اجداد" کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ نیوٹن کو سکوں کے ٹکسال(Mint) کا نگران بھی مقرر کر دیا۔
نیوٹن نے اپنے سائنسی علم اور سودی معیشت کی چالبازی کو ساتھ ملا کر ایک ایسا فیصلہ کیا، جس کے اثرات آج اکیسویں صدی تک جاری ہیں۔ قدرت نے سونے اور چاندی کے درمیان ایک اور بیس کی نسبت رکھی ہے اور دنیا بھر کی آزاد منڈیوں کے تاریخی مطالعے سے یہی پتہ چلتا ہے۔ نیوٹن نے اس" قانونِ فطرت" کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 1717ء میں بحثیت چانسلر خزانہ، سونے اور چاندی کے درمیان شرح مبادلہ 15.5مقرر کر دی۔ اس طرح منڈی میں سونے کی رسد اور چاندی کی طلب میں اضافہ ہو گیا۔ بینک آف انگلینڈ کے مالکان نے نیوٹن کی ملی بھگت سے اس "غیر قدرتی" شرح مبادلہ کو قانونی تحفظ فراہم کیا اور یوں سود خور بینکاروں کے خزانے بھرنا شروع ہو گئے۔
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف محسنِ انسانیت سیدالانبیاء ﷺ کا نام پہلے نمبر پر لکھا جاتا ہے، جو اس سودی نظام کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے خلاف جنگ ہے اور فورااً بعد نیوٹن کا نام آتا ہے، جو نہ صرف عالمی سودی نظام کے قیام کا معمار ہی نہیں، بلکہ اس کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ وہ اپنی ایک خوبصورت بھانجی کیتھرین بارٹون (Catherine Barton) کو لے کر چارلس آف ہیلی فیکس کے ساتھ بدنامِ زمانہ Kit Kat کلب جاتا تھااور پورا برطانیہ جانتا تھا کہ دونوں کے تعلقات دوستی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسی تعلق کی وجہ تھی کہ برطانیہ میں کسی کو نیوٹن کے اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے پر حیرت نہ ہوئی۔ کامیابی کے سیکولر پیمانوں میں چونکہ ذاتی اخلاقیات کی کوئی وقعت نہیں، اسی لیئے نیوٹن کا نام دوسرے نمبر پر آنااچھنبے کی بات نہیں۔
آپ مزید حیرت میں گم ہو جائیں گے، جب آپ یہ دیکھیں گے کہ سیدنا عیسیٰ ؑ کا نام تیسرے نمبر پر ہے۔ وہ پیغمبرَ برحق، جس کی آخری واضح جنگ ان "یہودی سودخوروں " کے خلاف تھی، جنہوں نے ہیکل کے اندر سود کی دکانیں سجا رکھی تھیں، جنہیں سیدنا عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں کے ساتھ جا کر الٹ دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد یہودی رومن گورنر کے پاس گئے تھے اور اس سے عیسیٰ ؑ کو" مصلوب" کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ فہرست میں نویں نمبر پر امریکہ دریافت کرنے والے "کرسٹوفر کولمبس" کا بھی نام ہے، جس کے قتل عام کی گواہی جنوبی امریکہ کے ساحل آج بھی دیتے ہیں۔
یہ صرف ایک کتاب ہی نہیں جو ان سیکولرپیمانوں پر تحریر کی گئی ہے، بلکہ دنیا میں لکھی جانے والی جدید تاریخ اور شخصیات کے جائزے، ان کی دنیاوی کامیابیوں کے حساب سے ہی لکھے جاتے ہیں۔ اس پورے سیکولر علم کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو یہ بات ذہن نشین کروا دیا جائے کہ یہی ایک دنیا ہے، جو اس میں کامیاب ہوا وہی کامیاب ہے اور جو اس میں ناکام ہوا وہ ناکام ترین شخص ہے۔ اس سیکولر پیمانے کی کامیابی دیکھئے کہ آج دین کا پرچم اٹھانے والی بے شمار سیاسی تنظیمیں بھی دین کی طرف بلانے کی ترغیبات میں یہ فقرہ بھی شامل کرتی ہیں کہ"اگر تم اللہ کے دین پر چلنے لگو گے تو خوشحال ہو جاؤ گے"۔
جبکہ اللہ تو قرآن میں اس کے بالکل مختلف فرماتا ہے، "اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کے ہاں رسول بھیجے، اوران قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلاکیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس جب ہماری طرف سے ان پرسختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ جو تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو۔ پھر جب انہوں نے اُس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان پر کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے ان کو پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لیئے" (الانعام:42تا 45)۔ یہ ہے اللہ کے ہاں کامیابی و ناکامی کے معیارات کا اعلان۔
کیا آج اس دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمان بحثیت مجموعی اس بات کے قائل ہیں کہ جہاں کہیں بھی خوشحالی آتی ہے، وہ دراصل اللہ کی طرف سے آزمائش اور وارننگ ہوتی ہے۔ ہم نے بحثیت اُمت اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیاہے۔ ہمارے معیارات ِ حق و باطل اور کامیابی کے پیمانے اللہ کے بتائے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اس کیفیت کومسلمان قوم کے مزاج میں ڈھونڈیں۔ اگرجواب یہ ملے کہ ہم نے اللہ کی نصیحت کوپس پشت ڈال رکھا ہے، تو پھر تیار ہو جاؤ کہ یہ تمام خوشحالیاں دراصل عذاب کی پیشگی اطلاع ہیں جس کاہم شکا ر ہونے والے ہیں۔