جیسے ہی ہمارے ملک میں کسی قسم کی آفت، مصیبت، پریشانی یا بیماری کا حملہ ہوتا ہے۔ ہمارے کچھ دانشوروں کے دماغوں میں خاموش بیٹھا سائنس اور ٹیکنالوجی کی پرستش کا وائرس جاگ اٹھتا ہے اور وہ ایک دم اخباری کالموں اور ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے حملہ آور ہو جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے اس پریشانی کے عالم میں لوگوں کو جتنا ممکن ہوسکے، اللہ، دعا اور اس کے ثمرات سے دور لے جاکر انہیں ڈاکٹر، دوا، احتیاط، معیشت، معاشیات اور انتظامات پر بھروسے کی مکمل ترغیب دی جائے۔ ایسے دانشوروں کے دامن میں جس قدر بھی دعا کے تصور، اللہ کے قادرو مطلق ہونے اور مرض کو ختم کرنے کے اختیار کا مذاق اڑانے کا ہنر ہوتا ہے، وہ اسے ضرور استعمال کرتے ہیں۔
کرونا وائرس کی اس عالمی وباء کے دوران ان قلم کاروں کا یہ وائرس بھی خوب اچھل اچھل کر حملہ آور ہورہا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ سب دانشور ایک ایسے وائرس کے بارے میں لوگوں کو اللہ کی تائید و نصرت مانگنے سے دور لے جانا چاہتے ہیں، جس کے بارے میں آج کے دن، اس وقت اور اس گھڑی تک دنیا کے لاکھوں سائنسدان اپنی بے بسی اور مجبوری کا اعلان کر چکے ہیں کہ ہمارے پاس اس وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
جس کسی صاحب علم نے بھی اس انسان کے جسمانی وجود پر غور و فکر کیا، وہ ایک نتیجے پر ضرور پہنچا ہے کہ انسان کا تمام کا تمام جسم اردگرد ہونے والے واقعات، خیالات، افکار نظریات، تصورات، خوف، شرم، حیا، خوشی اور غمی جسے جذبات و احساسات کا تابع ہے۔ ہم خوشی کے عالم میں مسکراتے ہیں، غم واندوہ میں روتے ہیں اور شرم و حیاء سے ہمارا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ اگر ہم بلاوجہ مسکرانے، رونے یا شرمانے لجانے لگ جائیں تو لوگ ہمیں پاگل تصور کریں گے۔ اسی طرح اگر ہم خوشی میں نہ مسکرائیں، غم میں نہ روئیں اور شرم سے ہمارا چہرہ لال نہ ہو تو بھی لوگ ہمیں ایک غیر معتدل انسان اور اکثر صورتوں میں ذہنی مریض تصور کریں گے۔
میڈیکل سائنس گذشتہ کئی صدیوں سے اس بات پر متفق ہے کہ انسان کی بیماری اور صحت دونوں کا اصل دارومدار اس کے ذہن اور اس پر چھائے ہوئے خیالات و افکار سے جنم دینے والی ذہنی کیفیت سے ہے۔ انسانی دماغ میں ان کیفیات کو جسم تک منتقل کرنے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک "نشریاتی آلہ" نصب کر رکھا ہے جسے ہائی پو تھیلمس (Hypothalamus) کہتے ہیں۔ یہ آلہ انسانی جسم کے بے شمار افعال کو کنٹرول کرتا ہے، جیسے بھوک، پیاس، تھکن، نیند، یہاں تک کہ محبت نفرت اور جنس وغیرہ۔ اگر یہ "نشریاتی آلہ" کسی بیرونی خوف یا اردگرد کے حالات کی وجہ سے پریشان ہوجائے تو پھر اس کی پریشانی پورے جسم میں منتقل ہونے لگتی ہے۔ اس کا موڈ ہی ہے جو ایک اہم ترین بلغمی غدود کے ذریعے جسم میں صحت مند یا غیر صحت مند ہارمونز پیدا کرتا ہے۔ پھر یہی موڈ ذہن میں صحت مندی اور بیماری کو جنم دیتا ہے۔
یہ "نشریاتی آلہ" جس موڈ کے زیراثر ہارمونز جسم میں منتقل کرے گا، انسان کا جسم اسی طرح کی صحت اور بیماری کا شکار ہو جائے گا۔ مثلا اگر آپ خوف کا شکار ہیں اور یہ نشریاتی آلہ اس "بلغمی غدود" کے ذریعے جسم میں خوفزدہ ہارمون منتقل کر رہا ہے، تو اس کا فورا اثر یہ ہوگا کہ آپ کے ہاتھوں میں پسینہ آنا شروع ہو جائے گا، آپ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگے گا، آپ کو پیشاب تیزی سے آئے گا۔
آپ کے معدے میں درد اٹھے گااور ایسی بیشمار غیر معمولی صورتیں پیدا ہوں گی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا جسم کے ان حصوں پر کسی وائرس نے حملہ کردیا ہے، یا پھر ہمیں کوئی جسمانی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ نہیں! بلکہ وجہ یہ ہے کہ آپ کا ذہن خوفزدہ ہے اور اس نے اپنا خوف جسم میں منتقل کر دیا ہے۔ جیسے ہی یہ خوف ختم ہوگا آپ نارمل ہوجائیں گے۔ اب ذرا اس خوف کو مستقل کر دیں۔
ایسا خوف جس سے نجات نہیں، ایسا خوف جس کا آپ کے پاس کوئی علاج نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے دل کی دھڑکن مستقل خراب رہنے لگے گی، آپ کو پیشاب مستقل زیادہ آئے گا اور بعض حالتوں میں تو کنٹرول ہی مشکل ہوجائے گا۔ آپ کا معدہ خراب رہنے لگے گا، بھوک اڑ جائے گی، نیند غائب ہو جائیگی۔ آپ بغیر کسی وجہ کے بیمار بیمار رہنے لگیں گے۔ اس بیماری کو جدید دور میں نفسی جسمانی بیماری (Psychosomatic Disorder) کہتے ہیں۔ آج کے دور میں بلڈ پریشر، معدے کا السر، ایگزیما اور دیگر ایسی ہی کئی بیماریاں خالصتا اس ذہنی کیفیت کا نتیجہ تصور ہوتی ہیں۔
یہ "نشریاتی ادارہ" اگر پریشان حال ہے، خوف کا شکار ہے، اس کا ایک اور بدترین اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو اگر کسی بھی قسم کی بیماری لاحق ہے تو وہ مزیدبڑھنے لگتی ہے، مستقل ہو جاتی ہے اور بہترین دوا بھی اس پر اثر نہیں کرتی۔ آدمی ایک ڈاکٹر سے دوسرے اور ایک دوا سے دوسری دوا پر منتقل ہو جاتا ہے لیکن بیماری جان نہیں چھوڑتی۔ پھرایک وقت ایسا آتا ہے کہ اگر یہ خوف انسان کے دماغ سے نہ نکلے تو وہ آدمی ایک مستقل مریض بن جاتا ہے۔
ایسے میں لاعلاج مرض کا علاج تو ممکن نہیں ہوتا مگر آدمی بے شمار ایسی دوائیں استعمال کرنے لگتا ہے جو پس پردہ خوف تو دور نہیں کرسکتیں، لیکن اس "نشریاتی ادارے" کو کچھ دیر کے لئے ناکارہ بنا دیتی ہیں، سلا دیتی ہیں، اور آدمی عارضی طور پر پُرسکون ہو جاتا ہے۔ ان دوائیوں کو مسکّن (Tranquilizer) دوائیاں کہا جاتا ہے۔ انکا اثر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے یا شترمرغ خطرہ بھانپ کر ریت میں منہ چھپا لیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ذہن کوخوف سے آزاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ مطمئن اور خوش وخرم کیسے رہ سکتا ہے، اسے ہر حال میں شکر گزار اور شکوے شکایتوں سے کیسے دور رکھا جاسکتا ہے۔ اسے اس دنیا کی بے ثباتی پر یقین اور اس فانی زندگی کے بعد شاندار اور خوش کن آخرت کے لئے تیار کیسے کیا جا سکتا ہے، اسے موت کے خوف سے آزاد کرکے ایک ایسی زندگی کی جانب رغبت کیسے دلائی جاسکتی ہے جس میں انعامات و اکرام ہیں، ایک جہانِ خوش کن و خوبصورت ہے جواس کے استقبال کے لیے تیار ہے۔
اس "نشریاتی آلے" کو ذات سے بالاتر ہو کر سوچنے اور انسانوں کی خدمت کرکے خوشیوں سے سکون حاصل کرنے کی جانب کیسے مائل کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ تمام اہداف ہیں، مقاصد ہیں، طرز زندگی کی صفات ہیں جو اگر انسان میں پیدا ہوجائیں تو اس کا یہ "نشریاتی ادارہ" (Hypothalamus) ایسا مطمئن ہوتا ہے جسکے نتیجے میں ایسے صحت مند ہارمون جسم میں منتقل کرتا ہے کہ آپ پر مسرت زندگی گزارنے لگتے ہیں، آپ کی نیند، بھوک، سانس، معدے کا ہاضمہ غرض ہر چیز ایک صحت مند زندگی کی عکاس بن جاتی ہے اور اگر آپ کو کبھی جسمانی طور پر کوئی بیماری لگے بھی تو وہ معمولی سی دوا بلکہ احتیاط سے ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس "نسخہ کیمیا" پر گفتگو کریں جس کی وجہ سے انسانی جسم کا یہ "نشریاتی ادارہ" مطمئن اور خوش کن زندگی گزار سکتا ہے، پہلے یہ جان لیں کہ وائرس کیا چیز ہے اور پھر یہ کہ "کرونا " وائرس کیا ہے۔ اے صاحبانِ فکر و علم! یہ جان لو کہ وائرس اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک ایسی تخلیق ہے جس کو مارنے یا موت دینے پر ابھی تک انسان قادر نہیں ہوسکا۔ وائرس مرتا نہیں۔ بلکہ یہ ابتدائی طور پر بھی ایک زندہ چیز نہیں ہوتا۔ یہ انسانی جسم کے کسی بھی خلیے میں مہمان بن کر داخل ہوتا ہے اور وہیں سے زندگی لیتا ہے۔ ہر خلیے کو چلانے کے لئے اللہ نے ایک نظام ڈی این اے کی صورت میں بنا رکھا ہے۔
اس نظام کے ذریعے جسم کو جینیاتی ہدایات (Genetic instructions) دی جاتی ہیں۔ یہ وائرس جس خلیے میں داخل ہوتا ہے اسکے جنیاتی نظام کو ہائی جیک کر لیتا ہے۔ یوں یہ بذات خود ایک زندہ خلیہ بن کر اپنی مرضی کی غلط جینیاتی ہدایات جسم کودینے لگتا ہے اورایک دن انسان کے پورے وجود پر اس کا غاصبانہ قبضہ ہوجاتا ہے۔
جاری ہے۔۔