گزشتہ چالیس سالوں سے پاکستان کے نظام تعلیم میں غیر ملکی کیکٹس کے خار دار پودوں کی طرح تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس ملک میں لاتعداد تعلیمی طبقات کو جنم دیا ہے۔ اس وقت چار واضح قسم کے تعلیمی ادارے، مختلف مقاصد، مختلف طریقہ ہائے تعلیم اور مختلف وسائل کے تحت چل رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ دینی مدارس ہیں جو برصغیر پاک و ہند میں 1781ء میں قائم ہونے والے کلکتہ مدرسہ کی چھاپ ہیں۔
یہ پہلا خالصتاً دینی مدرسہ وارن ہیٹنگ نے قائم کیا تھا۔ اس سے پہلے برصغیر پاک و ہندمیں دینی مدرسہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ مدرسہ رحیمیہ اور فرنگی محل کی روایت ایسے تعلیمی اداروں کی تھی جو دینی اور دنیاوی تعلیم بیک وقت دیتے تھے اور انہی سے فارغ التحصیل لوگ راج دربار میں فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ عام اکثریت کے لئے ہر گائوں میں اتالیق مقرر تھے جو بچوں کو فارسی، حساب کتاب اور مسلمان طالب علم کو قرآن اور ہندو کو گیتا کی تعلیم دیتے تھے۔
ہر گائوں میں ایک مسلمان اور ایک ہندو اتالیق مقرر تھا یہی وجہ ہے کہ جب 1857ء میں انگریز نے پورے ہندوستان پر قبضہ جما کر اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی دسترس سے نکال کر براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت کیا تو اس "پسماندہ" ملک کی شرح خواندگی 97فیصد تھی۔
وارن ہیٹنگ نے جب کلکتہ کا دینی مدرسہ قائم کر دیا تو یورپ کے عیسائی مشنریوں نے اس کی آڑ میں مشنری سکول کھولنے کی اجازت مانگی جو بخوشی دے دی گئی۔ اس کے لئے 1795ء میں لندن مشنری سوسائٹی قائم ہوئی اور مشہور پادری فورسائتھ (Forsyth)1798ء میں ہندوستان آیا تو یہاں پر موجود پادریوں سے مل کر 1805ء میں مدراس میں پہلا مشن سکول قائم کیا گیا اور دیکھتے دیکھتے پورے برصغیر میں ان سکولوں کا جال پھیلا دیا گیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مشنری سکول ہندوستان میں موجود صدیوں پرانے نظام تعلیم کی بنیاد پر چلائے جاتے تھے یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انجیل مقدسہ کی اخلاقیات(Biblicel ethics)اور سائنس ایک ہی سکول میں پڑھائی جاتی تھیں۔ یہ سفر پچاس سالوں تک چلتا رہا اور پورا برصغیر تین مختلف نظام ہائے تعلیم میں بٹ گیا۔ غیر رسمی اتالیق دینی تعلیم اور مشنری سکول۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک نظام تعلیم دینے کے لئے شدید غورو غوض شروع ہوا۔
لارڈ میکالے کے 1835ء کے نوٹس زیر بحث آئے۔ اب تک تمام کے تمام نظام ہائے تعلیم جو برصغیر میں رائج تھے ان میں دنیاوی تعلیم کے برابر اخلاقیات (Ethics)کا حصہ تھا جو ظاہر بات ہے مذہب سے حاصل کیا جاتاتھا۔ نظام تعلیم کو بدلنے کی جو کمیٹی قائم ہوئی اس میں سرسید احمد خان اور راجہ رام موہن رائے جیسی بڑی ہستیاں بھی موجود تھیں۔ تاج برطانیہ کے ماتحت آنے کے بعد جو نظام تعلیم یہاں رائج ہوا اس کی دو بڑی تبدیلیوں نے ہندوستان میں علم تحقیق اور تخلیق کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔
پہلی تبدیلی یہ تھی کہ سرکاری ملازمت کے لئے انگریزی لازمی قرار دی گئی اور دوسری یہ کہ نظام تعلیم سے اخلاقیات کو خارج کر دیا گیا۔ اب علم صرف اور صرف مارکیٹ میں بیچ کر زندگی گزارنے کا ذریعہ بن گیا۔ اسی نظام تعلیم کی کوکھ سے ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں کے جداگانہ سکول اور کالج قائم ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے سناتن دھرم سکول اور خالصہ کالج تک ہر کسی نے جدید تعلیم کے لئے اپنا تعلیمی ادارہ کھول لیا۔ لیکن ان تمام اداروں خواہ مشنری ہوں یا دیگر سب میں ایک ہی نصاب تعلیم پڑھایا جاتا رہا۔ البتہ اس نصاب تعلیم کو انگریز نے ہوشیاری سے ایسا مرتب کیا تھا کہ اس کی کوکھ سے کوئی باعمل مسلمان وید انتی ہندو یا امرت پیتا ہوا سکھ پیدا نہ ہو سکے۔
غیر رسمی اتالیق ختم کر دیے گئے۔ اب علم کے لئے صرف سکول رہ گئے یا مساجد کے مولوی۔ ایسے میں جب پورے بھارت میں سیکولر نظام تعلیم رائج ہو گیا تو مسلمان علماء نے اس لٹتی ہوئی دینی اساس کو بچانے کے لئے خالصتاً دینی مدارس قائم کئے۔ دیو بند اور ندوہ نے دین کے علوم میں اپنا فرض ادا کرنا شروع کیا۔ یوں پاکستان کو ورثے میں دو نظام ہائے تعلیم ملے یعنی سیکولر تعلیم کے سکول اور دینی تعلیم کے مدارس۔ ان دونوں اداروں میں تعلیم ابھی کاروبار نہیں بنی تھی۔ اسی لئے پشاور کے اسلامیہ کالج سے لے کر کراچی کے سندھ مدرستہ الاسلام تک ہزاروں سکول اور کالج ایسے تھے جو منافع خوری کے بجائے کم لاگت پر تعلیم مہیا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن نے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سرکاری ملکیت میں لے لیا۔
سرکار کی نوکری اور پھر وہ باز پرس جو ایک مقامی مالک سے ہوتی تھی وہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور ڈائریکٹر جیسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی یوں تعلیم اور تعلیمی نظام اپنے زوال کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا۔ زوال پذیر تعلیمی نظام کا خلا پر کرنے کے لئے ضیاء الحق کے برسر اقتدار ہونے کے فوراً بعد برطانوی نصاب تعلیم یعنی "اے لیول" اور "او لیول" کی تعلیم کے ادارے کھلنا شروع ہو گئے۔
سب سے پہلے ان میں مڈل کلاس اشرافیہ نے اپنے بچوں کو داخل کیا۔ دو تین سکول سسٹم تو پورے ملک میں آکسفورڈ، کیمبرج اور لندن یونیورسٹی کے نصاب کو پڑھانے میں نام بنا گئے۔ جب اشرافیہ نے اپنے بچے وہاں داخل کئے تو پھر غریب آدمی کو بھی سرکاری سکولوں سے گھن آنے لگی۔ ہر گلی محلے میں چھوٹے چھوٹے گھروں میں انگلش میڈیم سکول کھل گئے۔ ایسے سکول جن میں برطانوی نظام تعلیم رائج تھا اور نہ ہی پاکستانی۔
وہ اپنی نرسری کی نظموں، یونیفارم اور ادھر ادھر سے پکڑی ہوئی انگریزی کے بل بوتے پر غریب آدمی سے پیسے بٹورتے رہے اور غریب آدمی اس بات پر خوش ہوتا رہا کہ اس کے بچے بھی ویسے ہی انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جیسے کسی بڑے آدمی کے بچے۔ اب اس وقت پورے ملک میں لاتعداد سکول سسٹم چل رہے ہیں اور لاتعداد نصاب تعلیم پڑھائے جا رہے ہیں۔ مثلاً وہ ایلیٹ سکول جن میں بچوں کو داخل کروانے کے بارے میں ایک عام آدمی تو دور کی بات اچھا خاصہ امیر آدمی بھی نہیں سوچ سکتا۔
دوسرے وہ سکول سسٹم جنہوں نے نصاب تعلیم تو برطانیہ کا رکھا لیکن اپنی سہولیات اور کوچنگ میں وہ معیار قائم نہ رکھ سکے۔ ان سکولوں میں مڈل اور ہائر مڈل کلاس کے بچے اولیول اور اے لیول کرتے ہیں۔ تیسرے عام دیسی مارکہ انگریزی میڈیم سکول جہاں لوئر مڈل کلاس کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ چوتھے سرکاری سکول اور پانچویں دینی مدارس۔
ان اقسام کو اگر مزید غور سے دیکھا جائے تو ہر ایک سکول سسٹم میں تین تین چار چار نصاب تعلیم ملیں گے"او لیول" کے ساتھ حفظِ قرآن اور قرآنی تعلیم پڑھانے والے اور یہیں اسی "او لیول" کو مکمل سیکولر رکھنے والے اور کچھ دینی مدارس انگریزی کو ہاتھ نہیں لگاتے اور کچھ ایسے ہیں جو تمام جدید علوم کو پڑھاتے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم کا نعرہ بلند ہوا ہے اور اس کے لئے روز اجلاس ہو رہے ہیں۔ لیکن اس میں یکساں کا مطلب و مفہوم یہ لیا جا رہا ہے کہ اگر امیر کا بچہ انگلش میڈیم میں پڑھتا ہے تو غریب کا بچہ کیوں نہیں پڑھ سکتا۔ اس لئے سب انگریزی کر دو جیسے خیبر پختونخواہ میں کیا گیا۔
یہ تصور ایسے ہی ہے جیسے امیر کے بچے نے گٹر میں چھلانگ لگائی ہے تو باقی اس گٹر سے فیض یاب کیوں نہیں ہوتے۔ دنیا میں کوئی ملک بھی ایسا نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور ترقی کی ہو۔ جب تک اس ملک میں میڈیم آف انسٹرکشن یعنی طریقہ کار تعلیم انگریزی میں رہے گا یہاں علم کے مراکز میں تخلیق کے جواہر پیدا نہیں ہو سکتے۔
انگریزی زبان اپنے ساتھ اپنی تہذیب کلچر اور اخلاقیات لے کر آتی ہے ایسا تمام لٹریچر جسے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے وہ انہیں ایک انگریز تہذیب کا شہکار بناتا ہے۔ نصاب تعلیم میں مسئلہ یہ نہیں کہ سائنس انگریزی میں پڑھائی جائے مسئلہ ہے کہ سوشل سائنسز، تاریخ، اخلاقیات تہذیب اور تربیت کے اصول سب اردو میں ہونا چاہئیں۔ ان کی کتابوں کے کردار، کہانیوں کے ہیرو اور ان کے ملبوسات تک دیسی ہونا چاہئیں۔
فزکس، کیمسٹری، بیالوجی پوری دنیامیں یکساں ہوتی ہے فرق تو سوشل سائنسز ڈالتی ہیں۔ اگر وہ نہ بدلیں تو یہ یکساں نصاب تعلیم صرف ایک نعرے کے سوا کچھ اور نہ ہو گا۔