شاید چند برسوں بعد کوئی اس قافلے کے لٹنے کا ماتم کرنے والا بھی میسر نہ ہو۔ آج یہ داستان رقم کر دو، مرتب کردو کہ شاید گردآلود الماریوں میں موجود بوسیدہ کتابوں سے آج سے کئی سال بعد کسی کو اس تہذیب کے لٹنے اور برباد ہونے کا سراغ مل جائے۔ تہذیبیں آہستہ آہستہ اجڑتی ہیں اور لوگ نئی تہذیب کو بھی آہستہ آہستہ اوڑھتے ہیں۔ لیکن اگر کسی منصوبہ بندی سے تبدیلی لائی جا رہی ہو تو اسکی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور دوسری بات یہ کہ تبدیلی لانے والے گذشتہ تہذیب کے نشان تک بھی مٹا دیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلم تہذیب کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔
پوری دنیا میں علم و عرفان اور تہذیب و ترقی کی علامت یہ تہذیب اب صرف چند ناقابل زوال، عالیشان عمارتوں کی صورت دنیا کے نقشے پر موجود ہے جسے اب ان عمارات کے فنی محاسن کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان عظیم فنکاروں، کاریگروں، کاشی کاروں اور منبت کاروں کے فن کی داد، تاج محل سے شیش محل اور فتح پور سیکری سے قطب مینار تک ہر جگہ دی جاتی ہے، لیکن آج کوئی اس تہذیب کی کہانی سنانے والا موجود نہیں، ان علمی مراکز کے قصے کوئی بیان نہیں کرتا جن کی تعلیم و تربیت سے ایسے نابغہ روزگار فنکاروں نے جنم لیا۔
کوئی اس معاشرے کی داستان نہیں سناتا، جس کے ذوقِ سلیم اورحسِ جمالیات کا یہ عالم تھا کہ ان کے آباد کئے گئے شہروں کی کوئی چھوٹی سی عمارت بھی ایسی نہ تھی جو حسن وخوبی سے آراستہ نہ ہو۔ ان عمارتوں میں بسنے والے کیسے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے تھے۔ کن علماء کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی جمالیاتی حس کی آبیاری کرتے تھے اور ان کے اردگرد کونسا ایسا ماحول تھا جس نے اس عظیم باذوق معاشرے کو حسن ترتیب سے آراستہ کر رکھا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کا یہ معاشرہ جو سترہویں صدی تک اپنے بام عروج پر تھا اور جس کی بنیاد گیارہویں صدی میں اس وقت رکھی گئی جب قطب الدین ایبک کے سر یر آرائے سلطنت ہونے کے بعد، دلی اور لاہور کے دو تہذیبی مراکز کی بنیاد رکھی گئی۔
1192ء سے 1765ء تک ساڑھے پانچ سو سال تہذیبی ارتقاء کے سال ہیں۔ ان برسوں نے ایک ایسے ہندوستان کو جنم دیا جس کی نوے فیصد آبادی پڑھی لکھی تھی اور جسکی عام زندگی میں بھی گفتگو کے موضوعات اپنے زمانے کے دنیا بھر کے تمام علمی مراکز میں ہونے والی فلسفیانہ گفتگو اور تخلیقی مباحث سے بہتر تھے۔ اس تہذیب کے زوال کے دنوں میں بھی جو چند یورپی سیاح اور افسران یہاں آئے جن میں برطانوی سفارتکار سر تھامس رو اور لارڈ میکالے شامل ہیں، انہوں نے بھی اپنے تعصب کے باوجود یہاں کے علمی ماحول اور سماجی جمالیات کا جو نقشہ کھینچا ہے اسکی چھوٹی سی جھلک بھی اس دور کی مغربی دنیا کے علمی مراکز میں نظر نہیں آتی تھی۔
ہر مؤرخ یا ماہر آثار قدیمہ جب کسی خطے کی تاریخ مرتب کرتا ہے تو پہلا سوال جو وہ اپنے آپ سے کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس قدر عظیم الشان عمارات بنائیں اور اس قدر آراستہ شہر آباد کئے، ان کا علمی و تہذیبی مقام ومرتبہ اور سائنسی و تحقیقی معیار کیا ہوگا۔
دنیا کی ہر تہذیب کے بارے میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے اور اس کے جواب میں سرگرداں ہو کر کتابوں پر کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ مثلا مصر کے اہرام، بابل کے لٹکتے باغات، سائرس اعظم کے محلات، روم کے کھیلوں کے میدان، چین کی ٹیرا کوٹا فوجی مجسمے اور یونان کے پارتھنون کو دیکھنے کے بعدہر مورخ وہاں کے علمی خزانوں اور تعلیمی مراکز کا سراغ لگاتا ہے جہاں سے ایسے نابغہ روزگار لوگ پیدا ہوئے، جنہوں نے نہ صرف یہ عمارتیں تخلیق کیں بلکہ ان عمارتوں میں ایک چلتی پھرتی، ہنستی بولتی جمالیاتی زندگی کو بھی آباد رکھا۔ لیکن برصغیر کے ساتھ یہ تعصب برتا گیا کہ ان پانچ سو برسوں کے علمی مراکز اور تہذیبی ماحول کو جان بوجھ کر گرد آلود کر دیا گیا ان پر کوئی تحقیق نہ کی گئی اور آج لوگوں میں یہ تصور عام ہوچکا ہے کہ ہم شاید جاہل، گنوار اور ان پڑھ رہ جاتے اگر یہاں انگریز نہ آتا اور وہ انگریزی تعلیم کے ادارے نہ کھولتا۔
آج کا نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے پورا برصغیر جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، بادشاہ اور امراء عالیشان عمارتیں اور محلات بنانے میں مصروف تھے اور خلق خدا روکھی سوکھی کھا کر زندگی گزار رہی تھی۔ انگریز آیا اور اس نے یہاں علم کی شمع روشن کی، کالج اور اسکول کھولے اور ہمیں مغربی دنیا کے علمی ورثے سے منسلک کیا۔ اسی وجہ سے آج ہم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔
یہ ہے وہ عام تاثر جو گذشتہ سو برسوں سے ہمارے مورخین دانشور ادیب صحافی اور تاریخ دان اپنی تحریروں اور لچھے دار گفتگو سے قائم کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے سے ہم اپنے ماضی پر شرمندہ اور مستقبل سے مایوس قوم بن چکے ہیں۔ ان مغرب زدہ مورخوں اور دانشوروں نے ہمارے ماضی سے متعلق بے تحاشہ جھوٹ بول کر ہمیں اس سے برگشتہ کیا اور ہمیں مغربی تہذیب و علم کے سہانے خواب دکھائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ماضی پر شرمندہ ہیں مگر ہم اپنے مستقبل سے بھی اس لئے مایوس ہو چکے ہیں کیونکہ ہم آج تعلیمی اداروں میں جو علم حاصل کر رہے ہیں اس کی کھپت ہمارے معاشروں میں نہیں۔ ہماری صلاحیتوں کا عروج ہی مغرب کے قائم کردہ معاشروں میں ہوتا ہے۔
ہم یہاں ایک ایسا ناکارہ وجود ہیں کہ جس نے جتنا علم حاصل کیا ہے اور جیسی تہذیب کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہے، جن سیکولر، لبرل اقدار کو ہم نے دل و جان سے چاہا ہے، ایسا ماحول ہمیں اپنے معاشرے میسر نہیں۔ اس لیے ہر آنے والی نسل اپنے، اپنی قوم اور ملک کے مستقبل سے مایوس ہے اور یہ مایوسی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ وہ مغرب میں جاکر آباد ہونا چاہتی ہے جہاں اس کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور وہ اپنی مرضی کے ماحول میں زندگی گزار سکے۔
اس مایوسی کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ اپنے ماضی کی عظمت کا صحیح ادراک حاصل کیا جائے اور اس کی تباہی کے ذمہ دار کرداروں کا تعین کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر اسی ماضی کی عظمت رفتہ کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی نئی عمارت کی تعمیرکی جائے
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
سب سے پہلے اس علم و تہذیب کے زوال کے عوامل اوران کرداروں کا جائزہ لیں کہ اسی زوال کی داستان میں ہی ہماری عظمت رفتہ کی تہذیبی بالادستی بھی پوشیدہ ہے اور ہمارے دوستوں اور دشمنوں کے چہرے بھی چھپے ہوئے ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے برصغیر پاک و ہند میں آمد سے پہلے پورا خطہ علم و آگہی کا ایک گہوارہ تھا۔ دنیا بھر میں غیر رسمی تعلیم کو متعارف کروانے کا سہراہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے سر جاتا ہے۔ ہندوستان کے ہر گاؤں میں ایک اتالیق مقرر تھا بلکہ اکثر جگہوں پر دو اتالیق (ایک مسلمان دوسرا ہندو) مقرر تھے۔ ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ ہر فرد کو فارسی زبان اس قدر سکھاتے تھے کہ وہ کتاب پڑھ سکے اور عرضی نامہ لکھ سکے۔ اس کے علاوہ اسے حساب کتاب بھی سکھایا جاتا تاکہ وہ سودا بیچ سکے، خرید سکے اور مالی معاملات میں کسی کا محتاج نہ ہو۔ جب کہ مسلمان کو قرآن پاک پڑھایا جاتا تھا اور ہندو کو وید اور گیتا۔
یوں پورا ہندوستان ایک ایسا تعلیم یافتہ معاشرہ تھا جو نوے فیصد تک پڑھا لکھا تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب The Discovery of India میں کیا ہے جو اس نے اپنی قید کے چار برسوں میں تحریر کی، جب وہ 1942ء سے 1946ء تک احمد نگر کے قلعے میں انگریز کی قید کاٹ رہا تھا۔ یہ کتاب ان شواہد پر مبنی ہے جو برطانیہ میں انگریزوں کے آنے سے پہلے عالیشان تہذیب کلچر فلسفہ اور علم و عرفان سے متعلق تھے۔ نہرو نے مغلوں کے اس ہندوستان کی بات کی ہے جس میں نہ صرف ہر شخص پڑھا لکھا تھا بلکہ پورے ملک میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک ایسا جال بچھا ہوا تھا جہاں اپنے زمانے کی اعلی ترین تعلیم دی جاتی تھی۔
انگریز کے کلکتہ آنے سے پہلے اور بنگال میں اپنی حکومت کے قیام تک تین بڑے تعلیمی مراکز تھے جن کے زیرِسایہ بے شمار تعلیمی ادارے ان کے نصاب کے مطابق تعلیم دیتے تھے۔ 1۔ لکھنؤ کا فرنگی محل 2۔ دلی کا مدرسہ رحیمیہ اور خیرآباد کا جدید سائنسی علوم کا سکول۔ (جاری ہے)