اورنگزیب عالمگیر کا ہندوستان اپنے دور میں آباد دنیا کی تہذیبوں میں علم و عرفان کا ایک درخشندہ ستارہ تھا۔ ایک ایسا خطہ جس میں گلی گلی اور گاؤں گاؤں سکول کالج اور یونیورسٹیاں لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی تھیں۔ اس عظیم علمی میراث کی گواہی کسی مسلمان مورخ یا ہندوستان میں آباد شاہی وظیفہ خوار ہندولکھاری نے نہیں بلکہ انگریز حملہ آوروں نے دی ہے، جنہوں نے حکومت سنبھالنے کے بعد اس سارے علمی ماحول کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیاتھا۔
ہندوستان کے عظیم نظام تعلیم کی پہلی گواہی ایک برطانوی پادری ولیم ایڈم نے اپنی ان تین رپورٹوں میں دی ہے جو اس نے گورنر جنرل کے کہنے پر تحریر کیں تھیں۔ یہ شخص 1818ء میں ہندوستان آیا اور اس نے یہاں 27 سال گزارے۔ اس دور میں گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک نے اسے بنگال اور بہار کے تعلیمی نظام کے سروے کی ذمہ داری سونپی تاکہ برصغیر کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی جاسکیں۔ اس نے اپنی پہلی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ بنگال اور بہار میں تقریبا ایک لاکھ سکول ہیں جو بنیادی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق سکول جانے کے قابل ہر 32 لڑکوں کے لیے ایک سکول میسر ہے۔ اس رپورٹ کے بعد اس نے ان سکولوں کے نظام کار کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لئے، ضلع راجشاہی کے قصبے نلتور کو منتخب کیا جس کی آبادی 129,640 تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ یہاں دو قسم کے سکول ہیں، ایک رسمی تعلیم کے سکول جن میں جدید تعلیم دی جاتی تھی اور دوسرے گھریلو سکول، جہاں ایک استاد یا اتالیق پورے خاندان کو ایک ساتھ بٹھا کر تعلیم دیتا ہے۔ رسمی تعلیم والے سکول میں داخلے کی اوسطاً عمر آٹھ سال ہے اور پانچ سال تعلیم کے بعد اوسط 14 سال کی عمر میں ایک لڑکا فارغ التحصیل ہو جاتا ہے۔ نلتور کی اتنی چھوٹی سی آبادی میں بھی گیارہ سکول تھے جو عربی زبان میں تعلیم اور قرآن پڑھانے کیلئے مخصوص تھے، جبکہ دس بنگالی میں تعلیم دیتے تھے اور چار فارسی میں۔
ہر کسی کو آزادی تھی کہ وہ پرائمری تعلیم عربی، فارسی یا بنگالی کسی ایک میں حاصل کرے۔ اوسطاً ایک اسکول میں دس سے پندرہ طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اسی عرصے میں یعنی 1822ء سے 1826ء تک مدراس کے علاقے میں بھی علاقائی نظام تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے سروے کیا گیا۔ یہ رپورٹ Survey of indigenous education in Madras presidency کے نام سے شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں 12,498 سکول تھے جن میں 1,88,650 طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ایسا ہی سروے بمبئی کے علاقے میں بھی ہوا اور وہاں بھی ہر تیس طلباء پر ایک سکول کی موجودگی پائی گئی۔
پنجاب کے بارے میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلب ولیم لایٹنزکی ہزاروں صفحات پر مشتمل کتاب "History of indigenous education in Punjab" وہ مہر تصدیق ہے کہ جس میں ہر گاؤں میں موجود استادوں کے نام، طلبہ کی تعداد، مضامین کی اقسام اور معیار تعلیم کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ یہ تو ان سکولوں کا تذکرہ ہے جو رسمی تعلیم دیتے تھے، جبکہ دیہاتوں میں ایسے استاد اور اتالیق مقرر تھے جو گھروں میں تعلیم دیتے تھے، انکی وجہ سے ہر شخص ایک پڑھی لکھی، مہذب دنیا کا فرد نظر آتا ہے۔
ایڈورڈ تھامسن ایک برطانوی ادیب اور ناول نگار تھا۔ اس نے بنگالی ادب کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کیلئے بہت کام کیا۔ اسکے مطابق ہندوستان کے بازار کا ماحول بھی ایک پڑھے لکھے معاشرے کا نقشہ کھینچتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ "ہندوستان کے غریب عوام جو کسی بھی سکول میں پڑھنے نہیں گئے وہ بھی لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ یقینا ان لوگوں کے لئے علم حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہوگا ورنہ جتنے سکول یہاں موجود ہیں ان کے حساب سے کئی گناہ زیادہ پڑھے لکھے افراد یہاں پائے جاتے ہیں۔ ہر بنگالی بازار میں کتابوں کی دکانوں کی بھرمار ہے اور کتب کی فروخت لاکھوں میں ہے"۔
اس نے لکھا ہے کہ مشہور بنگالی ناول نگار سرات چندر چیٹرجی جس نے دیوداس ناول تحریر کیا تھا، اس نے بتایا کہ اسکے اس ناول نے جس کی قیمت صرف بارہ آنے تھی، اس نے اسے بارہ ہزار روپے رائلٹی فراہم کی، جس کا مطلب ہے کہ دیوداس کے دو لاکھ نسخے فروخت ہوئے۔ عام آدمی پڑھا لکھا بھی تھا اوررعایا کے بچوں کے لئے پرائمری سکول کی تعلیم کا بھی اہتمام تھا۔ بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔
1820ء سے 1830ء تک بمبئی صوبے کے دیسی نظام تعلیم کا سروے کیا گیا، جس کے مطابق صرف احمد نگر میں 16 بڑے کالج موجود تھے اور پونا شہر میں 164 کالج اعلی تعلیم کیلئے مخصوص تھے۔ جبکہ پورے صوبے بمبئی میں 222 بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ یہی حال مدراس کے علاقے کا تھا جہاں اعلی تعلیم کے لیے 1,101 کالج موجود تھے۔ سب سے زیادہ کالج، 279 راج مندر میں تھے جبکہ ترچن لوبائی میں 173، بنگلورمیں 137 اور تنجور میں 109 کالج تھے۔ ان کالجوں میں 5431 طلبہ کو قانون، فلکیات، فلسفہ، شاعری، جہاز رانی، طب، فن تعمیر اور آلات حرب بنانے کے علوم سکھائے جاتے تھے۔
کروشیا کا ادیب فراپاولینو دی بارلٹو لومیو جو بعد میں رومن چرچ سے وابستہ ہوگیاتھا، اس نے ہندوستان کے تعلیمی و ادبی ماحول پر بہت کام کیا ہے۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے سنسکرت کی گرائمر تحریر کی تھی۔ یہ 1774ء میں ہندوستان آیا اور یہاں اس نے 14 سال گزارے۔ یہ زبانوں کا ماہر تھا۔ یہ بیک وقت جرمن، لاطینی، یونانی، عبرانی، رومن، پرتگیزی، انگریزی، سنسکرت اور ہندوستان کی دیگر کئی زبانیں بول سکتا تھا۔ اس نے 1798ء میں جس ہندوستانی تعلیمی نظام کا جو نقشہ کھینچا ہے اسکے مطابق یہ اپنے دور کی موجود دنیا کا سب سے بہترین اور اعلی پائے کا تعلیمی نظام تھا جس میں ایسے تمام فکری، مابعدالطبعاتی اور سائنسی علوم پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔
مسلمان بادشاہوں کا کمال یہ تھا کہ ان کے آنے سے پہلے برصغیر میں تعلیم صرف اور صرف برہمنوں اور شاہی خاندانوں تک محدود تھی، لیکن مغلوں کے دیے گئے نظام ہائے تعلیم نے ہر رنگ اور نسل کے بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کردیا۔ انگریزوں نے جب بنگال میں ذات پات کے حوالے سے پہلا سروے کیا تو وہ حیران رہ گئے کہ 1,75,089 ہندو طالب علموں میں صرف 24 فیصد یعنی 42,502 برہمن نسل کے تھے، جبکہ 19,669 ویش اور 85,400 شودروں کے بچے تھے۔
ٹیپو سلطان کے میسور کے سکولوں میں 65 فیصد شودر بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہ ان تمام علاقوں کا حال ہے جو دلی دربار سے دور تھے، جیسے بنگال، بہار، اڑیسہ، مدراس، میسور، پنجاب وغیرہ۔ یہاں انگریز 1857ء کی جنگ آزادی سے بہت پہلے آ گیا تھااور اس نے وہاں حکومتیں بھی بنا لیں تھیں۔ اسی لئے اس نے یہاں کی تہذیب اور تعلیمی ماحول کو بدلنے کے لئے سروے کیے تھے اور یہی سروے پور ہندوستان کے تعلیمی ماحول کی گواہی دیتے ہیں۔ لیکن اس دور دراز ہندوستان کے علاوہ دلی اور اس کے ملحقہ علاقے تو علم و عرفان کے مراکز تھے جنہیں دبستان (seats of learnings) کہا جاتا تھا۔ یہاں کے مدرسہ رحیمیہ، فرنگی محل، اور خیرآباد سکول پورے ملک کے لئے اعلیٰ ترین نصابی تعلیم مرتب کرتے تھے، اساتذہ کی کھیپ تیار کرتے تھے اور یوں پورا ہندوستان ایک مربوط تعلیمی نظام سے منسلک تھا۔
یہ وہ دور تھا جب برطانیہ کا نظام تعلیم سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی کے وسط تک ایسے مضامین سے نا آشنا تھاجو ہندوستان میں پڑھائے جاتے تھے۔ پورے برطانیہ میں اٹھارویں صدی تک صرف 500 گرامر سکول تھے اور ان میں بھی تعلیم صرف اور صرف اعلیٰ نسل (Elites) کے بچوں تک محدود تھی۔ اے ای دوبز (A.E. Dobbs) کی 1920ء میں چھپنے والی کتاب (A short History of education)، برطانیہ کے تعلیمی نظام کی پسماندگی اور اسکے خاص طبقوں تک محدود ہونے کے المیے کی داستان ہے۔ (جاری ہے)