پاکستان پہلے دن ہی سے نا شکروں اور اللہ کی اس عظیم نعمت کے منکروں کا یرغمال بنا رہا ہے۔ جی چاہتا ہے فیض احمد فیض سمیت ان تمام شاعروں کی نظمیں، غزلیں اور گیت بھارت کے شہروں کی ان جلی ہوئی مسلمان بستیوں کے باہر زور زور سے سناؤں اور کہوں کہ وہ تمہارے ہی بھائی تھے جو قائداعظم محمد علی جناح کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ایک ایسی سرزمین کی جانب چل پڑے تھے جو آج ان کے لئے جائے امن ہے اور اس وقت ایک جائے پناہ تھی۔ انہیں بتاؤں کہ ہمارے ہاں صبح آزادی کے نام پر ہمارے شاعر فیض احمد فیض نے جویہ لکھا تھا
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ شعر بلکہ یہ پوری نظم بھارت کے مظلوم مسلمانوں پر آج کس قدر سچ ثابت ہوتی ہے۔ مغربی بنگال کے ضلع ہگلی کے علاقے ٹیلی نی پاڑہ میں 10 مئی، 2020 کو جلی ہوئی دکانیں، خاکستر ہوئے گھر، خون میں لتھڑے ہوئے اللہ اللہ پکارتے مرد، عورتیں اور بچے، آنسو، آہیں اور چیخ و پکار کے مناظر نظر آتے ہیں تو مجھے اس ملک پاکستان کی تاریخ کا ہر وہ ناشکرا شاعر، ادیب، مصنف، صحافی اور اینکرپرسن زہر لگنے لگتا ہے، جو اس جائے امن سرزمین پاکستان کے خلاف لکھتا اور بولتا رہاہے۔ آخری چند برس تو ہم پر قیامت کے گزرے ہیں، جب اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں ابوالکلام آزاد کی پیشن گوئیوں کو حرف بہ حرف سچ ثابت کرنے اور اسے مستقبل کی خبر دینے والا ایک سچا رہنما دکھانے کے لیے میرے ملک کی ناکامیوں اور نا آسودگیوں کی داستانیں بڑھا چڑھا کر پیش کی گئیں۔ زبان پر یہ جملے کس دیدہ دلیری سے آئے کے اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو آج ہم امن میں ہوتے۔ میرے قبیل کے و ہ لوگ جو اس ملک سے، اس کے نظریے سے، اس کی اساس سے اور اس کے لاالہ اللہ والے تشخص سے محبت کرتے ہیں، قیام پاکستان سے اب تک یہ زہر میں بجھے فقرے سنتے چلے آئے ہیں۔ یہی فقرے پچاس سال پہلے مشرقی پاکستان میں ایک منصوبے کے ساتھ عام کیے گئے تھے۔ انہیں مظلومیت، لاچاری، بے آسرا پن اور استحصال کے منظرنامے دکھا کر آگ بگولا کیا گیا، ان کے سامنے بھارتی سماج کی رنگینیوں اور کثیر المذہب ہم آہنگی کی جھوٹی تصویریں پیش کر کے گمراہ کیا گیا، تو بیچارہ بنگالی مسلمان اس فریب میں ایسا آیا کہ بھارتی افواج کو مسیحا تصور کرنے لگا۔ پھر ایک دن وہ اس جائے امن، پاکستان سے علیحدہ ہوگیااور اس نے علیحدہ وطن بنالیا۔ مگر میرے ملک کا یہ ناشکرا اور جھوٹا دانشور آج بھی ہمیں اس بنگلہ دیش کی خوشحالی کی خوش کن تصویریں دکھا کرہمیں گمراہ کررہا ہے۔ یہ کیسی خوشحالی ہے کہ اس بنگلہ دیش کے ڈیڑھ کروڑ شہری ناجائز طریقے سے سرحد پار کر کے بھارت میں چند ہزار کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں، بلکہ اسقدر مجبور ہیں کہ قتل ہو رہے ہیں، لیکن واپس بنگلہ دیش بھی نہیں جا پا رہے۔ یہی بنگلہ دیشی مہاجرین ہی تو ہیں جن کی وجہ سے بھارت مسلمانوں کیلئے شہریت کا قانون لے کر آیا ہے۔ پاکستان سے علیحدگی کے بعد یہ کیسی خوشحالی آئی ہے کہ بنگلہ دیش سے بھلا پھسلا کر بہتر مستقبل کا جھانسا دے کر بیس لاکھ کے قریب بچیاں دنیا کے بازاروں میں بیچی گئی ہیں۔ ابھی تک ہر سال پچاس ہزار بنگلہ دیشی بچیاں بھارت میں لاکر فروخت کی جاتی ہیں۔ 16 دسمبر 1971ء سے پہلے تو میرا مشرقی پاکستان ایسا نہ تھا، لیکن میرے ملک کا ناشکرا سیاستدان اور پاکستان کی اساس سے بغض رکھنے والا دانشور اس وقت کے مشرقی پاکستان کو ایک جہنم کہتا تھااور آج کے بنگلہ دیش کو جنت۔
بنگال کے ٹیلی نی پاڑہ کے مسلمانوں کی یہ داستان کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔ صرف بنگال کی آزادی کے بعد کی تاریخ کی بات کرتے ہیں، جس کی خوابناکی کا ذکر کر کے میرے مشرقی پاکستانیوں کو گمراہ کیا گیا تھا۔ آج 2020ء کا تباہ شدہ ٹیلی نی پارہ اسی دریائے ہگلی کے کنارے واقع ہے، جس دریا میں گذشہ ستر سال سے مسلمانوں کی خون آلود لاشیں تیرتی چلی آ رہی ہیں۔ کلکتہ کا 1964ء کسی کو یاد ہے، جب مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر حملے شروع ہوئے، لوٹ مار کی گئی، سو سے زیادہ مسلمان شہید کر دیے گئے اور 438 شدید زخمی ہوئے تھے۔ ستر ہزار کے قریب مسلمان جان بچانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر اس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں جاکر پناہ گزین ہو گئے۔ یہ مسلم کش سلسلہ کلکتہ تک نہیں رکا تھا بلکہ گاؤں گاؤں پھیل گیاتھا۔ فوج بلانی پڑی اور فوج نے 58 ہزار مسلمانوں کو ہندوؤں کے بڑھتے ہوئے ہجوم سے نجات دلائی۔ ابھی تک مشرقی پاکستان جائے پناہ تھی کہ وہاں جا کر اطمینان کا سانس لے سکتے تھے۔ لیکن جب یہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو وہاں کے بنگالی اس خیال میں گم تھے کہ اب تو ہم نسل، زبان اور زمین و تہذیب کے حوالے سے ایک ہو چکے ہیں تو چلو وہاں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ بیچارے بنگلہ دیشیوں نے بہتر مستقبل کے لیے بھارت منتقل ہونا شروع کر دیا۔ لیکن جیسے ہی ان مسلمانوں کی تعداد بھارت میں تھوڑی محسوس ہونے لگی تو 1983ء میں نیلی کے مقام پر ہندو غنڈوں اور بلوائیوں نے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ان مسلمانوں پر حملہ کردیا، جن میں سے اٹھارہ سو کے زیادہ مسلمانوں کو باقاعدہ چھریوں سے ذبح کیا گیا۔ اس فساد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی علاقے میں ہونے والا سب سے بڑی قتل و غارت تھی۔ اس لیے کہ ذبح کیے جانے والوں میں سے اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ اس قتل و غارت پر تیواڑی کمیشن بنا جس نے چھ سو صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کروائی جسے آج تک شائع نہیں کیا گیا۔
یہ تو صرف بنگال اور بنگالی مسلمانوں کی اذیت ناک داستان ہے، جس کا تازہ ترین ہولناک منظر ٹیلی نی پاڑہ میں نظر آیا۔ لیکن اس گنگاجمنی مشترکہ سرزمین پر 1970ء میں بھیونڈی فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کے ہزاروں گھر نذر آتش کر دیئے گئے، 1980ء میں مرادآباد میں تقریبا ڈھائی ہزار مسلمان شہید کیے گئے اور واقعہ کی ساری منصوبہ بندی پولیس سے مل کر کی گئی، 1988ء میں بھاگل پور کے شہر میں ایک ہزار مسلمان قتل کر دیے گئے۔ بھاگل پور کا واقعہ جو رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع ہونے کے بعد پہلا واقعہ تھا، 22 مئی 1987ء کو میرٹھ شہر میں آرمڈ کانسٹبلری کے 19 جوان، 42 مسلمانوں کو ٹرک پر سوار کر کے لے گئے، مراد نگر کے قریب جنگلوں میں لے جا کر مار دیا اور لاشیں نہر میں پھینک دیں۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد 1992ء کے ممبئی فسادات میں نو سو مسلمان شہید کئے گئے اور اور نریندر مودی کی وزارت اعلی کے دوران 2002ء کے گجرات کا قتل عام تو ایک عالمی سطح کی دہشت و بربریت کا سانحہ ہے۔ گذشتہ ساٹھ سالوں سے مسلمان بھارت کے اندر ہی مسلسل ہجرت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ہجرت کسی دوسرے ملک کی جانب نہیں بلکہ اپنے ہی گھروں سے نکل کربھارت ہی میں ان پسماندہ اور بدترین حالات والی کچی آبادیوں کی جانب ہے، جنہیں عرف عام میں (Ghettos) کہا جاتا یے۔ جہاں بدبو ہے، سڑاند ہے، غربت و افلاس ہے، صحت ہے نہ تعلیم، پانی ہے نہ سیوریج۔ وہ جو 1947ء میں ایک ہجرت کے منکر تھے، اللہ نے انہیں اسی بھارت کے اندر ہی مستقل مہاجر بنا دیا۔ یہ ہے وہ شب گزیدہ سحر اور داغ داغ اجالا۔ میرے ملک کا ناشکرا دانشور آزادی پر لکھی ہوئی ساحر لدھیانوی کی یہ نظم بہت زور و شور سے پڑھتا تھا، خصوصاً یہ شعر
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری
خدا کی مملکت میں تو سوختہ جان آج بھی امن سے ہیں، اور عزت و آبرو سے زندہ ہیں۔ لیکن بغیر خدا والی سیکولر مملکت کا نوحہ بھی لکھ دو۔ آج کوئی نہیں بولے گا۔ اللہ ناشکروں سے وہ زبان ہی چھین لیتا ہے جو شکر گزاری کرنے کے قابل ہو۔