جامعہ حفصہ اور سانحہ ماڈل ٹاؤن دو ایسے المناک واقعات ہیں کہ ان کا تقابل امرتسر میں 1919ء میں ہونیوالے جلیانوالہ باغ کے قتل عام سے کیا جا سکتا ہے۔ یوں تو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے اپوزیشن کے جلسے پر 23 مارچ 1973ء کو "قائد عوام" اور جدید مورخین کی نظر میں"جمہوریت کی آبرو" ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی "عظیم" پارٹی کے کارکنوں کے بہروپ میں فیڈرل سیکورٹی فورس سے فائرنگ کروائی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے درجنوں لوگ مارے گئے تھے۔
جلیانوالہ باغ کے جنرل ڈائرکے قتل عام سے ذوالفقار علی بھٹو کے لیاقت باغ حملے سے ہوتا ہوا تشدد کا یہ سفر پرویز مشرف کی لال مسجد اور جامعہ حفصہ تک جا پہنچتا ہے۔ لال مسجد کے مکینوں نے جتنے بھی جرم کئے تھے، اگر ان تمام کی ایف آئی آر کاٹی جاتی تو ان سب کی سزا شاید ایک سال سے زیادہ نہ ہوتی۔ لیکن سینکڑوں شہید کر دیے گئے۔
جامعہ حفصہ کے ٹھیک سات سال بعد 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن کے منہاج القرآن میں بھی ویسی ہی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ شہباز شریف کے "سایہ التفات" میں پروان چڑھنے والی پولیس نے جو کچھ کیا وہ جدید میڈیا نے لمحہ با لمحہ بائیس کروڑ عوام تک براہ راست پہنچایا۔ ان یاداشتوں میں سے ایک تلخ ترین یاد اس بچی کی چیخیں تھیں جس کی ماں کو براہ راست منہ میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا۔
یہ بچی آج پاکستان کے نظام عدل و انصاف پر ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے اس بچی کا نام بسمہ امجد ہے۔ اس یتیم و مظلوم بچی نے اپنی ماں کی دردناک شہادت کے ساڑھے چار سال بعد انصاف کیلئے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے رجوع کیا۔ 5 دسمبر 2018ء کو چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اس معاملے کو سننے کے لیے ایک پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جس میں موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی شامل تھے۔
ان ساڑھے چار سالوں میں اس بہیمانہ ظلم کے واقعہ پر دو مختلف ایف آئی آر درج ہو چکی تھیں، ایک حکومتی اور دوسری عدالتی، شریف خاندانی حکومت کے زیر سایہ دو جے آئی ٹی اپنی رپورٹس دے چکی تھیں اور ان دونوں جے آئی ٹیز میں سے کسی نے بھی واقعہ کے سو زخمیوں میں سے کسی ایک کا بھی بیان قلمبند نہیں کیاتھا لیکن رپورٹیں مرتب کردیں تھیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں واقعہ کے مظلومین کی جانب سے دائر درخواست مسترد ہو چکی تھی اور سپریم کورٹ میں اپیل "حالت نزع" میں تھی۔
ایسے میں بسمہ امجد نے انصاف کے بلند دروازے پر صرف ایک درخواست کی کہ میری ماں کے قتل کی تحقیقات دوبارہ کی جائے، کیونکہ پہلی دونوں تحقیقات ان لوگوں کی حکومت کے دوران ہوئیں جن پر بذات خود قتل کا الزام ہے۔ 3 جنوری 2019ء کو اس لارجر بینچ نے اس بچی کی فریاد کو سنا۔ دوران مقدمہ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دہشت گردی کے انسداد کے قانون کے سیکشن 19 کو پڑھا اور کہا کہ اسکے تحت صوبائی حکومت جب اور جس وقت چاہے ایک نئی جے آئی ٹی بنا سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس بات کے قائل (Convinced) ہیں کہ دونوں جے آئی ٹیز نے تفتیش کے تقاضے پورے نہیں کیے اس لیے نئی جے آئی ٹی بنائی جانی چاہیے۔ لیکن جب اسکے بعد فیصلہ سنایا جانے لگا تو شریف برادران کے وکلاء نے نکتہ اعتراض اٹھایا جس پر جج صاحبان نے کہا کہ ہم آپ کا اعتراض ریکارڈ کر لیتے ہیں اور اسکے بر خلاف فیصلہ دے دیں گے کیونکہ قانون بہت واضح ہے تو اس پر انہوں نے اپنا اعتراض واپس لے لیا اور سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کر دیا۔
نئی جے آئی ٹی نے کام شروع کیا تو شریف برادران، جنہیں حکومتوں کے زیر سایہ ہی تفتیش کی عادت تھی، انہوں نے 24 جنوری 2019ء کو ہائی کورٹ میں ڈویژن بینچ کے سامنے ایک درخواست دائر کرتے ہوئے کہا یہ نئی جے آئی ٹی غیر قانونی ہے، بحث کے دوران انہوں نے درخواست کی کہ ہم چیف جسٹس سے اپیل کرنیوالے ہیں کہ اس معاملے میں ایک لارجر بینچ تشکیل دیا جائے اسی وجہ سے یہ مقدمہ دو ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اس دوران نئی جے آئی ٹی ڈویژن اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے تھی۔ سب پر ایک خوف کا عالم تو طاری تھاکہ کل کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
ایسے میں 22 مارچ 2019ء کو بغیر کسی کاز لسٹ(cause list) یا سپلیمنٹری لسٹ جاری کیے، اچانک یہ اعلان ہوا کہ لارجر بینچ تشکیل پا چکا ہے اور اسکی آج پیشی ہے۔ ریکارڈ سے پتہ چلا کہ 5 مارچ کو شریف برادران کے وکلاء نے خاموشی سے ایک سول اپیل (CMA) جمع کروائی، جسے ہائی کورٹ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے انتظامی (Administrative) کارروائی میں بدلا اورلارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا، جسکی 22 مارچ کو بے خبری کے عالم میں پیشی بھی رکھ دی گئی۔ پیشی کے دوران عدالت میں ایک چھوٹے سے سرکاری وکیل کے سوا کوئی موجود نہ تھا جو وہاں ویسے ہی آ گیا تھا اور اسے اس کیس کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس کو ڈھونڈا گیا۔ 12:25 پر وہ عدالت پہنچ پائے تو اسوقت تمام جج حضرات اپنے چیمبر میں جا چکے تھے۔ جمعے کا دن تھا۔ ایک بج کر بیس منٹ پر ایڈوکیٹ جنرل کو چیمبر میں بلایا گیا اور بتایا کہ ہم تو فیصلہ لکھ چکے ہیں اور دو بجے فیصلہ سنانے والے ہیں، پھر ڈھائی بجے کا اعلان ہوا، پھر تین بجے اور آخرکار سوا چھ بجے فیصلہ سنا دیا گیا۔ جے آئی ٹی معطل کردی گئی۔ نون لیگ کے فلک شگاف نعروں میں بسمہ امجد کی چیخوں کی آواز دفن ہوگئی۔ لیکن ایسے میں ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے جب اس فیصلے پر صدا بلند کرنے کی کوشش کی کہ ہمیں سنے بغیر فیصلہ کیا گیا ہے تو انہیں توہین عدالت کا نوٹس دے دیا گیا۔ وہ تمام سپاہی پرسکون ہو گئے جنکے چہرے بسمہ امجد کی معصوم آنکھوں پر آج بھی خوف کی علامت ہیں۔
بسمہ امجد کی ماں جس ماڈل ٹاؤن میں بے رحمی سے ماری گئی تھی، اسی کے آس پاس ایک اور گھر میں پنجاب کے اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کرنے کے لیے نیب کی ٹیم پہنچتی ہے جس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے اور وہ ٹیم واپس آ جاتی ہے۔ حمزہ شہباز پریس کانفرنس کرتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اسے گرفتاری سے دس دن پہلے مطلع کیا جائے۔ اس حکم نامے پرجلیل ارشد والے کیس میں سپریم کورٹ میں اپیل ہو چکی تھی اور 19 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے کہا کہ "لاہور ہائی کورٹ نے "قانون " کی غلط تشریح کی ہے، نیب کسی بھی مجرم کو بغیر اطلاع کے گرفتار کر سکتا ہے"۔ لیکن حمزہ شہباز لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو دہراتا ہے۔
اگلے دن دوبارہ نیب ٹیم وہاں جاتی ہے، ہنگامہ ہوتا ہے اور پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخِ انصاف میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ ہوتا ہے، ایک ملزم جو ریاستی اداروں سے اسوقت برسرپیکار تھا، جس پر دفعہ 353 یعنی کار سرکار میں مداخلت کے جرم کا اطلاق ہوتا ہے، وہ خود کوعدالت میں پیش نہیں کرتا۔ عدالت اسکی ریموٹ فریاد سن لیتی ہے اور ان سرکاری اہلکاروں کو گرفتاری سے روک دیتی ہے جو ایک قانونی حکم کی بجا آوری کرنے کے لیے گئے تھے۔
یہ دونوں واقعات آنے والی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک ایسی تاریخ جسکے تیز رفتار پہیوں تلے بسمہ امجد کی چیخیں دفن ہیں اور اس تیز رفتار گاڑی پر حمزہ شہباز کا فتح مند ہاتھ لہرا رہا ہے۔ کالم ختم کیا تو سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس کانوں میں گونج رہے ہیں"یہ لاہور ہائی کورٹ نہیں جہاں شور مچا کرفیصلہ لے لو "۔