جنگ کا جنون اور واحد عالمی طاقت کے مقام پر فائز رہنے کا خبط امریکہ کو آج جس مقام پر لے آیا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ لوگ جو خبر رکھتے ہیں، جن کے مطالعہ میں قوموں کے عروج و زوال کی کہانیاں آئی ہیں اور جن کی انگلیاں عالمی معیشت کی نبض پر ہیں، وہ سب امریکہ کے ایک ایسے ہی بدترین زوال کا منظر دیکھ رہے ہیں جیسا آج سے پچیس سال قبل دنیا کے افق پر دوسری بڑی عالمی طاقت سوویت کا ہوا تھا۔ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا۔
ہزاروں ایٹم بم، مستعد فوج، ٹینک توپ خانہ، افواج کے چاک و چوبند دستے، فیکٹریوں میں کام کرتے ہوئے لوگ، دکانیں بازار سب کے سب معمول کے مطابق چل رہے تھے، لیکن سوویت یونین قوت و طاقت کی سیڑھی سے پھسل چکا تھا اور معاشی بدحالی کے گڑھے میں غرق تھا۔
سابق امریکی جائنٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن اپنی ریٹائرمنٹ لے کر اب تک گزشتہ سات سالوں سے کہتا اور بار بار کہتا چلا آ رہا ہے کہ امریکہ کا جنگی جنون اسے لے ڈوبے گا۔ اس کے نزدیک امریکی معیشت اس وقت اٹھارہ ہزار ارب کی مقروض ہے اور یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے امریکہ خسارے کا بجٹ پیش کر رہا ہے اور اس سب کی وجہ گیارہ ستمبر کے بعد شروع کی جانے والی امریکی جنگ ہے جس میں سرمائے کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانوں کا بھی نقصان ہوا ہے اور اب یہ جنگ امریکہ ہار چکا ہے۔ اس لئے کہ نہ تو اب اس میں معاشی سکت باقی رہ گئی ہے اور نہ ہی اس کی فوج میں مزید جنگ لڑنے کا حوصلہ باقی ہے۔
مائیک مولن کے ان خیالات کو برائون یونیورسٹی کے ولسن انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ کے اختصاریہ یعنی سمری میں خاص طور پر جگہ دی ہے۔ رپورٹ کا نام جنگ کی قیمت(Cost of War)ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان جنگوں میں جو افغانستان، عراق اور پاکستان میں لڑی گئیں تقریباً پانچ ہزار چھ سو ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں یہ سرمایہ ڈرون حملوں اور القاعدہ سے جنگ میں صرف ہوا۔ لیکن اس رپورٹ کا وہ حصہ خوفناک حقائق لیے ہوئے ہے جو انسانوں کے زیاں، اموات و معذوری اور ہجرت سے متعلق ہے۔
افغانستان جہاں طالبان نے قابض امریکی فوج سے جنگ لڑی اور آج وہ فتح یاب ہیں اور پاکستان جس نے اپنے مسلمان افغان بھائیوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا، دونوں کے جانی نقصانات کا موازانہ حیران کر دیتا ہے۔ افغانستان جہاں براہ راست امریکی اور اتحادی افواج قابض ہوئیں انہوں نے ایک افغان فوج منظم کی اور مسلسل طالبان کے ساتھ جنگ لڑی۔ وہاں 2401امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ جبکہ 6امریکی سویلین بھی جان سے گئے۔ پاکستان میں موجود تمام امریکی محفوظ رہے۔
اسی طرح باقی ممالک کے 1141فوجی افغانستان میں مارے گئے جسے امریکیوں اور دیگر اتحادیوں نے سخت ٹریننگ سے تیار کیا اور پھر افغانستان کے ماحول کے مطابق ٹیکنالوجی کے کیل کانٹوں سے لیس کیا۔ اس "شاندار فوج" کے 58596سپاہی مارے گئے، یعنی ان سترہ سالوں میں اوسطاً روزانہ دس افغان سپاہی جان سے گئے۔ جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد 8832ہے۔ یعنی تقریباً ڈیڑھ سپاہی روزانہ یا ہر دو دن میں تین سپاہی جاں بحق ہوئے۔ جنگ زدہ افغانستان جہاں جہاز شہروں پر بم برساتے تھے۔ وہاں تقریباً38480عام شہری جان کی بازی ہار گئے۔ جبکہ پاکستان جہاں نہ کوئی قابض فوج تھی اور نہ ہی آزادی کی جدوجہد، وہاں 23372شہری ہلاک ہوئے۔
افغانستان میں 54صحافیوں کی ہلاکت ہوئی اور پاکستان اس میں بازی لے گیا۔ یہاں 63صحافی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ چونکہ افغانستان میں این جی اوز کا ایک جال پھیلایا گیا تھا اور وہ امریکی ایجنٹ کی حیثیت سے نشانہ پر بھی تھے۔ اس لئے وہاں 409این جی او ورکرز مارے گئے لیکن پاکستان میں بھی ان کی تعداد 95تھی۔ رپورٹ دونوں جانب لڑنے والوں کا بھی ایک موہوم سا اندازہ بتاتی ہے۔
رپورٹ مرتب کرنے والے کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی اموات اور پاکستان میں دہشت گردوں کی اموات کے اعداد و شمار ہم نے حکومتوں کے دعوئوں اور عام ذرائع کو ملا کر بنائے ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں لڑنے والے حریت پسندوں میں سے 38480لوگوں کو مارنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور پاکستان 23372دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کی بات کرتا ہے۔ افغانستان کی کل اموات 147000ہیں جبکہ پاکستان کی کل اموات 65000ہیں۔ یعنی پاکستان نے صرف امریکہ کا ساتھ دینے، اس کی جنگ لڑنے میں افغانستان کے مقابلے میں آدھا جانی نقصان برداشت کیا۔
ایک ایسی جنگ جس میں نہ کوئی تمغہ ملا اور نہ انعام، الٹا رسوائی، ذلت اور ملکی عدم استحکام ہمارے حصے میں آیا۔ لیکن اس ساری جنگ میں تقریباً 4027 اموات ان ٹھیکیداروں، کرائے کے گوریلوں اور فوجیوں کی ہیں جو امریکہ سے تنخواہ نہیں بلکہ اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے تھے۔ ان میں سے نوے(90) پاکستان کی سرزمین پر ہلاک ہوئے۔ یہ وہ کرائے کے فوجی تھے جو بلیک واٹر کے ذریعے دنیا بھر سے لائے گئے۔ ان کی تعداد جنگ میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ تھی۔ افغانستان اور عراق میں اگر 175000امریکی فوجی تھے تو یہ کرائے کے فوجی 190000تھے۔
پاکستان میں ان کرائے کے فوجیوں کے مرنے کی تعداد 90ہے تو یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کتنے کرائے کے فوجی کام کر رہے تھے اور کیا حکومت پاکستان بتا سکتی ہے کہ ان کا یہاں کیا کام تھا۔ یہ کرائے کے فوجی اس لئے رکھے جاتے کہ اگر یہ قتل کر دیں۔ اغوا کر لیں۔ تشدد کریں تو یہ ایک فرم کی ذمہ داری بنتی ہے اور حکومتیں ان کی عالمی ذمہ داری سے آزاد رہتی ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ 5مئی 2010ء کو امریکی اخبار میں پاکستان کے لئے کرائے کے فوجی بھرتی کرنے کا اشتہار چھپتا ہے۔ وہ بھرتی ہوتے ہیں اور پاکستان کے طول و عرض میں روزانہ 5000ٹرکوں کو کراچی سے افغانستان لے جانے میں مدد دیتے ہیں، لیکن پاکستان کا آزاد خود مختار، حریت پسند میڈیا مدتوں خاموش رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ نوے(90) کرائے کے فوجی کون تھے، یہاں کیا کر رہے تھے۔ کیسے مارے گئے، ان کے نام و پتہ کیا کیا تھے۔ یہ سوال پاکستان کی سلامتی کا سب سے بڑا سوال ہے۔ اس لیے کہ ریاست سب کچھ کر سکتی ہے کرائے کے قاتل نہیں رکھ سکتی۔