Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Ye Sirf Aik Drama Nahi Hai

Ye Sirf Aik Drama Nahi Hai

ترک افواج دریائے فرات کے اس مقام پر اکٹھی ہو چکی تھیں جہاں سے یہ دریا ترکی سے شام کے ملک میں داخل ہوتا ہے۔ ہفتہ، 25 فروری، 2015 کی یخ بستہ رات11بجے انہیں شام میں داخل ہونے کا حکم ملا اور ترک ٹینک بکتربند گاڑیاں اور جیپیں شام کی عالمی سرحد عبور کر گئیں۔ شام اس وقت مختلف گروہوں کی آپس کی لڑائیوں میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا تھا، اور آج بھی اس ملک کی حالت ویسی ہی ہے۔ مہاجرین کے قافلے، سرحدیں عبور کر کے ترکی اردن اور سعودی عرب میں پناہ لے رہے ہیں۔ وہ لڑائی جو چند سال پہلے صرف دمشق کے بازاروں میں نہتے عوام نے بشار الاسد کی ظالم حکومت کے خلاف شروع کی تھی، اس نے پورے خطے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جون 2014 میں جب پندرہ سال پہلے 1999 میں بننے والی جماعت التوحید والجہاد کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے موصل کے شہر پر قبضہ کرکے "اسلامی ریاستِ عراق و شام" جسے عرف عام میں "ISL" کہتے ہیں کا اعلان کیا تو دریائے فرات کے دونوں کناروں پر آباد عراق وشام کے لاتعداد شہر اس کے قبضے میں تھے۔ یہ پورا خطہ بشار الاسد کی افواج، اس کی فوج سے بغاوت کرنے والے سپاہیوں کی تنظیم "احرارالشام"، جبتہ النصرہ، ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی زیرنگرانی افغانستان اور پاکستان سے بھرتی کیے جانیوالے زینبیوں اور فاطمیوں جسے ملیشیا اور کردوں کے مسلح گروہ پیش مرگہ کے علاوہ دیگر لاتعداد چھوٹے چھوٹے گروہوں کے درمیان لڑائی کا خوفناک مرکز تھا۔ اس منظر نامے میں اپنی افواج کو شام میں اتارنا ترکی کیلئے ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ لیکن ترکی کی حکومت اور عوام کے نزدیک یہ ان کیلئے عزت و توقیر اور زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ یہ افواج شام کی سرحد عبور کرکے ایک ایسے قطعہ ارضی کی جانب بڑھ رہی تھیں جو یوں تو شام میں واقع تھا لیکن عالمی معاہدات کی رو سے اس پر ترکی کا جھنڈا لہراتا تھا۔ یہ شام اور ترکی کی سرحد سے 27 کلومیٹر دور شام کے علاقے میں دریائے فرات کے کنارے ارطغرل کے والد اور کائی قبیلے کے سربراہ سلمان شاہ کا مقبرہ ہے جو 1236 میں اسی دریائے فرات میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا تھا۔

سلیمان شاہ خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کا دادا تھا۔ جب تاتاریوں نے 12ویں صدی میں ایشیاء پر یلغار شروع کی تو سلیمان شاہ پچاس ہزار افراد پر مشتمل اپنے کائی قبیلے کو لے کر موجودہ ترک بارڈر سے سو کلومیٹر دور قلات جبار کے قریب اناطولیہ کے علاقے میں جاکر آباد ہوگیا۔ سلمان شاہ کے پوتے عثمان اوّل نے 1299 نے جس "دولت عثمانیہ علیہ" کی بنیاد رکھی اسے خلافت عثمانیہ کہا جاتا ہے۔ یہ خلافت مسلمانوں کی مرکزیت کی پانچ سو تیئس سال تک علامت رہی اور جنگ عظیم اول کے اختتام پراتحادی افواج میں شامل ممالک فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان، یونان، رومانیہ، اور جمہوریہ سرب و کرویشیا کی اتحادی افواج نے ترکی کیساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے معاہدہ لیوزان (Treaty of Lausanne) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر 24 جولائی 1923 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لیوزان میں دستخط ہوئے اور موجودہ ترکی کے علاوہ خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں سے وہ تمام علاقے نکل گئے جو تین براعظموں پر پھیلے ہوئے تھے۔ لیکن اس معاہدے سے دو برس قبل 21 اکتوبر 1921کو ترکی اور فرانس کی افواج کے درمیان انقرہ میں ایک معاہدہ ہوا، جس کے آرٹیکل 9کے تحت سلمان شاہ کے مزار کو ترکی کا علاقہ تسلیم کیا گیا تھا۔ ان دونوں معاہدوں کے بعد ترک قوم نے تمام علاقوں سے اپنی دستبرداری کا اعلان کیا، لیکن عالمی معاہدے کے تحت سلیمان شاہ کے مقبرے کے چند ایکڑ علاقے کو ترکی کی سلطنت کا حصہ قراردے دیا گیا جہاں ترکی مزار کی حفاظت کے لیے مسلح دستے رکھ سکتا تھا اور اس پر ترکی کا پرچم لہراتا تھا۔ سلمان شاہ کا یہ مزار جو 1236 میں بنایا گیا تھا 1973 تک اسی مقام پر رہا، پھر جب فرات دریا پر ڈیم بنایا جارہا تھا اور تو یہ اس کی جھیل کی زد میں آ رہا تھا۔ ترکی نے شام کی حکومت سے مل کر اسے دریائے فرات کے کنارے ترکی کی سرحد کی جانب ایک نئی جگہ منتقل کردیا گیا جو بارڈر سے 27 کلومیٹر دور تھی۔ داعش نے فروری 2015 میں ترک حکومت کو کہا کہ اگر مقبرے پر موجود ترک گارڈز نہ ہٹائے گئے تو وہ مقبرے پر حملہ کر دیں گے۔ ترکی نے شام کی حکومت سے شکایت کی، تو بے بس بشارالاسد کچھ بھی نہ کر سکا۔ یوں 22 فروری 2015 کی رات ترک افواج کے 39 ٹینک، 57 بکتر بند گاڑیاں اور چھ سو سپاہی ایف سولہ طیاروں اور ڈرون طیاروں کی چھاؤں میں مقبرے کی جانب روانہ ہوئے۔ مقبرہ کو باقاعدہ مشینری کی مدد سے ملحقہ زمین سمیت نکالا گیا اور اسے ترکی کی سرحد سے صرف 180 میٹر دور شام کے ہی علاقے میں دریائے فرات کے کنارے لا کر نصب کر دیا گیا۔ اب یہ نیا مقبرہ بارڈر پر تعینات ترک افواج کی نظروں کے سامنے شام کے ملک میں واقع ہے۔ جس پر ترک فوجی پہرا دیتے ہیں اور ترک پرچم لہراتا ہے۔ پاکستان میں ان دنوں ترکی کا مشہور ڈرامہ ارطغرل غازی ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا ہے، جس میں کائی قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا جاندار کردار اسلامی تہذیب و تمدن اور قبائلی روایات کا شاندار نمونہ ہے۔ اس ڈرامے نے گذشتہ پچیس سال سے پاکستانی میڈیا پر قابض سیکولر، لادین اور ملحد طبقات کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ مشرف آمریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان طبقات نے پچیس سالوں میں میرے ملک کے عوام پر اخلاق باختہ کہانیوں، فحش کرداروں اور خاندانی زندگی دھجیاں اڑانے والے سکرپٹس پر ڈرامائے گئے سیریلزکے ذریعے پورے معاشرے کے دل و دماغ سے اسلام اور اس سے وابستہ طرز زندگی کو محو کرنے بلکہ کمپیوٹر کی زبان میں "واش" کرنے کی انتھک کوشش کی تھی۔ لیکن ان کی تمام کوششوں کے برعکس آج صرف یہ ایک ڈرامہ جو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور عظیم کردار کی علامت ہے، اس نے دلوں کو پھر سے گرما دیاہے۔ ارطغرل نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت جو کچھ دیکھنا چاہتی ہے وہ ہم اسے نہیں دکھاتے ہیں اور اگر ہم اسے ویسا کچھ دکھائیں توپھر وہ دیوانہ وار اس کے عشق میں سرشار ہو جاتی ہے۔

جوش و جذبے کا یہ عالم دیکھیں کہ، پاکستان میں صرف دو ہفتوں میں یہ ڈرامہ 14 ملین افراد نے دیکھا جب کہ ترکی میں پانچ سالوں میں اسے بارہ ملین افراد نے دیکھا۔ اس ڈرامے نے جو کیفیت دلوں میں زندہ کی ہے، اسکا خوف ہی تو ہے جس سے اس وقت ہر سیکولر، ملحد، قوم پرست دہریے کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ انہیں خوب اندازہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان تو وہ قوم ہے جو خود انگریزی کی غلامی میں تھی لیکن اس نے 1920 کی دہائی میں برصغیر کی سب سے بڑی اور پہلی سیاسی مومنٹ "تحریک خلافت" شروع کی تھی۔ جس کے بارے میں گاندھی جیسے شخص نے بھی یہ کہا تھا کہ مجھے اگر اپنی زندگی میں کسی ایک بات کا انتخاب کرنا ہو تو میں "تحریک خلافت" کا انتخاب کروں گا کہ کیونکہ یہ ہندوستان میں سیاسی شعور کا آغاز تھی۔ ایک ایسا سیاسی شعور جو مسلمانوں کو خلافت کی لڑی میں پروئے جانے کے خواب دکھاتا ہے۔ آج بھی خوف یہی ہے کہ اس طرح کے ڈرامے کے کرداروں سے کہیں پاکستان کے عوام کی راکھ سے مسلم خلافت کی چنگاریاں نہ پھوٹ پڑیں۔ سلیمان شاہ مسلمان امت کا ایک ایسا ہیرو ہے جس سے ترک قوم اتنی محبت کرتی ہے کہ ایسا ہیرو کے مزار کے لیئے کمال اتاترک جیسا اسلام دشمن سیکولر بھی ترک فوجی دستے بھیجتا تھا۔ جس کا مزار آج ترک افواج کو شام کے ملک میں گھسنے اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے پر مجبور کرسکتا تھا۔ اگر مزار دلوں میں اسقدر دھڑکتا ہے تو ڈرامے میں جیتا جاگتا کردار دلوں کو کتنا گرمائے گا۔ یہی تو خوف ہے جس سے پاکستان کے ہر قوم پرست سیکولر، ملحد اور لبرل کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran