مملکتِ خداداد پاکستان ہی نہیں بلکہ اس کرہ ارضی پر بسنے والے انسانوں کیلئے اللہ نے روزِ اول سے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ یہ اسکی زمین ہے اور اس پر اسی کا حکم چلے گا، وہی فرماں روا ہے۔ انبیاء و مرسلین کا مقصد ہی اس دنیا کی سیاست کو اللہ کے فرامین کے تابع کرنا تھا۔ اس مقصد کی تکمیل کے مخالف کھڑے ہونے والے افراد ہمیشہ سے ایسے ہی سوال اٹھاتے رہے ہیں جیسے بلاول بھٹو نے اے پی سی میں اٹھائے، اور جنکی فواد چوہدری نے تصدیق کی۔
ان انبیاء کی قوموں کے دانشور بھی اسکا ویسا ہی مضحکہ اڑاتے تھے جیسے میرے ملک کے کچھ دانشور کالم نگارآج اڑا رہے ہیں۔ سیاست عربی زبان کا لفظ ہے، اس کو سمجھنے اور اس کی شرعی توجیہہ کرنے کیلیے کسی دوسری لغت کی بھول بھلیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ عربی میں اس لفظ کے معانی ہیں"السیاسیۃ علم حکم الدوّل " سیاست ریاستوں پر حکومت کرنے کا علم ہے۔ بلکہ اسکی مزید وضاحت بھی ہے "السیاسیۃ فن حکم المجمعات الانسانیہ" سیاست انسانی معاشروں پر حکومت کا فن ہے۔
عربی زبان کی سب سے بڑی لغت المنجد نے تو بہت ہی وضاحت کردی، اسکے مطابق "سیاست حکومت کرنے کا فن ہے اور حکومت کا وہ ادارہ ہے جو داخلی اور خارجی سیاست سے متعلق ہو۔ سیاست کا لفظ رسولِ رحمت ﷺکی زبانِ مبارک سے بار بار ادا ہوا ہے اور آپؐ نے سیاست کو دین کے تابع کرنے کی بے شمار ہدایات دیں۔ فرمایا: بنی اسرائیل کی سیاست انکے انبیاء کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ جب ایک نبی انتقال کر جاتا تو دوسرا نبی اسکی جگہ آ جاتا تھا۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میرے خلفاء موجود رہیں گے اور بعض اوقات بیک وقت ایک سے زیادہ ہوں گے (بخاری: کتاب الانبیاء، مسلم کتاب الامارہ)۔
میرے ملک کا مغربی طرز زندگی سے متاثر سیکولر لبرل نما سیاستدان اورمرعوب دانشور طبقہ نعوذباللہ انبیاء کا تصورزیادہ سے زیادہ ایک عظیم عبدالستار ایدھی یا پھر مشرف بہ اسلام مدر ٹریسا اور گنگا رام سے ذرا بہتر شخصیت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک مذہب تو بس بقول میر، "پل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا" جیسے کاموں کے لیے ہی دنیا میں آیا تھا۔ اسکا سیاست سے کیا کام۔
اپنے وقت کے فرعون اور نمرود کو چیلنج کرناتو خالصتا سیاست دانوں کا مقام ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ یہ فریضہ ہر پیغمبر نے وحی الہی کے مطابق اپنے وقت کی ظالم، بدترین سیاست، طرز حکومت اور طرز زندگی کو چیلنج کرکے ادا کیا۔ بنی اسرائیل کے مفلوک الحال پسے ہوئے غلاموں کی دار رسی اور مدد، دس بارہ بڑی بڑی این جی اوز طرز کے فلاحی ادارے بنا کر بھی کی جاسکتی تھی، انہیں ہنر سکھا کر مالی طور پر مستحکم کیا جا سکتا تھا، انہیں خاموشی سے سرحد پار کروا کر کسی دوسری مملکت میں"سیٹل" بھی کروایا جا سکتا تھا۔
آج کے دور کا سیاستدان اور دانشور اپنے مذہبی رہنماؤں سے ایسے ہی کام کروانا چاہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ان سے اخلاقیات پر پند و نصائح والے وعظ دلوانا چاہتا ہے۔ لیکن اللہ نے سیدنا موسیٰ کے ہاتھوں میں سیاست کا پرچم دے کر فرعون کے دربار میں کھڑا کرکے رہتی دنیا تک اس کائنات میں سیاست و حکومت کو اپنے لیے خاص کرنے کا راستہ دکھایا۔ صرف حکومت بدلنے کا ہی نہیں بلکہ طرز زندگی اور بودوباش بدلنے کا منشور بھی پیش کیا۔
آج کے سیاستدان خواہ وہ امریکہ، برطانیہ میں ہوں یا پاکستان میں، آج کا دانشور خواہ کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہو، اخبار میں لکھتا ہوں یا تھنک ٹینک چلاتا ہو، اسکو مذہب کے سیاست میں آنے سے ویسا ہی خطرہ ہے جیسا فرعون کے درباریوں اور اس کے حواریوں کو محسوس ہوا تھا۔ قرآن پاک نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے، "انہوں نے کہا کہ: یقینی طور پر یہ دونوں (موسیٰ اور ہارون) جادوگر ہیں، جو اپنے جادو کے زور پر تم لوگوں کو تمہاری سرزمین سے نکال باہر کریں گے اور تمہارے بہترین طرز زندگی (طریقتکم المثلیٰ) کا خاتمہ کردیں گے (طہ: 63)۔
آج کے جدید محاورہ (Diction) کے مطابق " طریقتکم المثلیٰ" کا صحیح مفہوم "آئیڈیل لائف سٹائل" ہے۔ میرے ملک کے ان سیاستدانوں اور دانشوروں کو یہ "آئیڈیل لائف سٹائل" کینیڈا، سنگاپور اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں ہی نظر آتا ہے۔ جس طرح فرعون کے درباریوں نے اپنے آئیڈیل لائف سٹائل کے چھن جانے کے خوف سے لوگوں کو سیدنا موسیؑ ٰکی مذہبی سیاست کے خاتمے کے لئے اکٹھا کیا، ویسے ہی آج کا میرا سیکولر نما سیاستدان اور دانشور بھی سیاست میں دین کے داخلے پر سیخ پا ہوتا ہے۔
مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں"فرعون کے درباری بھی یہی کہتے تھے کہ یہ تہذیب جو ہم نے اتنی محنت سے بنائی ہے، یہ ثقافت، ہمارا آرٹ، یہ خوبصورت تمدن، ہماری تفریحات اور خواتین کی آزادی (جس کے شاندار نمونے حضرت یوسفؑ کے زمانے کی خواتین پیش کر چکی تھیں) غرض وہ سب کچھ جس کے بغیر زندگی کا مزہ نہیں، غارت ہو کر رہ جائے گا۔ اسکے بعد تو نری ملائیت کا دور دورہ ہو جائے گا، جسے برداشت کرنے سے مر جانا بہتر ہے (تفہیم القرآن)۔
کیا آج کا بددیانت، کرپٹ اور چور سیاستدان ویسا ہی نہیں ہے جیسے حضرت شعیبؑ کی قوم کے لوگ تھے۔ قرآن اس قوم کے بدیانت لوگوں کا جواب جو انہوں نے حضرت شعیبؑ کو دیا تھا اس طرح بیان کرتا ہے: "کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کی بندگی ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ہم انہیں ترک کردیں یا اپنے مال میں جو تصرف کرنا چاہیے نہ کریں (ھود: 87)۔ آج بھی سیاستِ الہیہ کے مقابلے میں سیاستِ دنیا کے افراد کا جواب بالکل ویسا ہی ہے، یعنی "کمائیں تو ہم خود لیکن خرچ اللہ کی مرضی کے مطابق کریں، واہ کیا بات ہے"۔
کیا سیدنا لوطؑ کی جنگ ایک آئیڈیل لائف سٹائل کی جنگ نہیں تھی جس میں ہم جنس پرستی کو جمہوری سرپرستی حاصل تھی۔ آج کے جن جدید معاشروں سے یہ میرے سیاستدان اور کالم نگار متاثر ہیں کہ انہوں نے بھی تو ویسا ہی فیصلہ کیا جیسا لوطؑ کی قوم نے کیا تھا کہ ہم جس طرح اپنی جنسی زندگی کے قانون نافذ کریں اور جیسی طرز زندگی اختیار کریں اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہیے۔
آج یہ تمام آئیڈیل ممالک ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دے چکے ہیں اور یہ سب جمہوری لائف سٹائل کے پرچم تلے ہو رہا ہے۔ لوطؑ کی قوم کا جواب بھی بالکل ویسا ہی ہے، بلاول بھٹو اور ان دانشوروں جیسا، یعنی مذہب کو سیاست اور تہذیب سے الگ کردو۔ قرآن بتاتا ہے کہ انہوں نے آخر کار کہا تھا "لوط کے گھر والوں کو اپنے شہر سے نکال دو، یہ لوگ پاک رہنا چاہتے ہیں"(النمل: 56)۔
میرے ان صاحبانِ سیاست و دانش کا بھی بس نہیں چلتا کہ سیاست کو دین سے نکالنے کے ساتھ اس کا نام لینے والوں کو بھی ملک بدر کردیں یا کم سے کم انکو لاپتہ افراد ضرور بنادیں اور ایسا وہ مشرف کی سیکولر آمریت کے دور سے کرتے آرہے ہیں۔ سید الانبیاء نے مکہ کے سرداران، دانشوران اور ارباب حل و عقد کو جو جواب دیا تھا وہ سیاست پر دین کی بالادستی کا رہتی دنیا تک منشور ہے۔
مکہ کے لوگ آپ ؐسے کہنے لگے، "جس خاتون سے چاہتے ہو شادی کروا دیتے ہیں، جتنا سرمایہ چاہتے ہو مہیا کروا دیتے ہیں" اور پھر بولے، ہم آپکو متفقہ طور پریعنی "جمہوری طریقے" سے بلامقابلہ سردار تسلیم کر لیتے ہیں۔ لیکن سرداران مکہ کے مقابلے میں طاغوت سے جنگ اور اللہ کی حاکمیت کے زمین پر نفاذ کے آخری مبعوث پیغمبر سید الانبیاء ﷺنے دوٹوک اعلان فرمایا "اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور ایک ہاتھ پر سورج بھی لا کر رکھ دیں تو میں اپنے مشن سے نہیں ہٹوں گا"۔
سیاست کو مذہب کے تابع کرنے کے مشن کی تکمیل کے لئے قرآن نازل ہوا، احکامات الہیہ اور شریعت نازل ہوئی۔ یہ مشن وہی تھا جو تمام انبیاء کا مشن تھا، جسکو رسول اکرم ؐ نے تسوسہم الانبیاء (انبیاء کی سیاست) کا نام دیا۔ آپ ؐنے صاف لفظ "سیاست" استعمال کیا تاکہ 2019 کے کسی دانشور کو کوئی شک نہ گزرے اور وہ تاویلات میں نہ پڑے۔
مجھے معلوم ہے میرے کالم کے بعد صرف یہی جواب آئے گا کہ فلاں فلاں مولوی کی سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایاہے اس لئے مذہب سیاست کیلئے برا ہے۔ کتنی منافقت ہے کہ جمہوری سیاستدان ملک لوٹ کر کھا جائیں لیکن کوئی یہ نہیں کہتاکہ جمہوریت کو ملک سے دور رکھو اس نے ملک کو بہت لوٹاہے۔ لیکن مولوی کی غلطی پر اسلام کو گالی دی جاتی ہے۔