ٹھیک ویسا ہی منظر تقریباً انیس سال بعد لاتعداد کیمروں اور خبر کی تلاش میں سرگرداں رپورٹروں کے سامنے تھا۔ حیرت میں گم کردینے والا ایک ایسا لمحہ کہ جب جہاز سے اترتی ہوئی اٹلی کی پچیس سالہ شوخ و چنچل لڑکی سبز رنگ کے ایک خوشنما حجاب اور عبایا میں ملبوس تھی جس نے اس کا تمام جسم ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ اٹھارہ ماہ صومالیہ کی الشباب اسلامی جہادی تنظیم کی اسیری میں گزار کر آئی تھی۔ اسے کینیا کے ہوٹل سے اغوا کرنے والا ایک پیشہ ور اغوا کار تھا۔ اس غیر مسلم ملک میں اغواء برائے تاوان مدتوں سے ایک پیشہ اور دولت کمانے کا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کینیا سے صومالیہ کیسے پہنچی اور الشباب کے ارکان کے پاس کیسے آگئی یہ ایک ایسا عقدہ ہے جسے حل ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن اس کے پہلے انٹرویو نے مغرب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان اسلام دشمن پراپیگنڈے کے ماہرین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو اس کی رہائی کی خبر سے مصالحے دار مواد تلاش کر رہے تھے۔ اس نے کہا " میں نے اسلام اپنی مرضی اور آزادی سے قبول کیا ہے اور مجھ پر اغواء کاروں کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مجھ سے بہترین انسانی رویوں کے ساتھ برتاؤ کیا۔ یہ غلط ہے کہ مجھے وہاں زبردستی شادی کرنے یا جسمانی تعلق رکھنے کے لیے کہا گیاتھا۔ میں کسی بھی قسم کی جسمانی پابندیوں میں جکڑی ہوئی نہیں تھی اور نہ ہی مجھ پر کسی قسم کا ٹارچر کیا گیا"۔ یہ بیان سن کر سب کے چہرے لٹک گئے اور بات کا رخ دوسری جانب موڑ دیا گیا کہ اٹلی کی حکومت دوسرے ملکوں میں جاکر کام کرنے والے اپنے شہریوں، خصوصا امدادی کارکنوں کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے اور حکومت نے جو تاوان اسے چھڑانے کے لیے ادا کیا ہے وہ دہشت گردی کے کام آئے گا۔ کمال کی بات ہے کہ یہ فقرے اٹلی کے صحافی اور سیاستدان بول رہے ہیں، اس سرزمین کے صحافی جہاں کے مافیاز کا سب سے بڑا دھندہ ہی اغوا برائے تاوان کا تھا۔
پچیس سالہ سیلویا رومانوی (Silvia Romano) جس کا نام اب عائشہ ہے، اس نے ویسے ہی دنیا کو حیران کر دیا جیسے 8 اکتوبر 2001ء کو تورخم بارڈر پر 43 سالہ برطانوی صحافی ایوان رڈلی (Yovonne Riddly) نے کر دیا تھا جس کا نام اب مریم ہے۔ وہ تو وقت ہی بہت عجیب تھا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کو ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ جب 28 ستمبر کو ایوان رڈلی کو طالبان نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت دنیا بھر کا میڈیا طالبان کی ایک اور تصویر پیش کر رہا تھا۔ ہر کوئی انہیں خوفناک دہشت گرد اور انسانیت کا دشمن بتاتا تھا۔ رڈلی کی گرفتاری پر پہلی حیرانی تو مغربی دنیا اور امریکہ کو اس وقت ہوئی جب پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے کہا کہ طالبان نہ کوئی تاوان مانگ رہے اور نہ ہی اس کی رہائی کسی رعایت سے مشروط ہے۔ انہیں صرف ایک ثبوت چاہیے کہ ایوان ایک مستند صحافی ہے۔ کیوں کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق عام شہریوں اور جاسوسی کرنے والوں کے درمیان واضح فرق رکھا جاتا ہے۔ اس ثبوت کے ملنے کے فورا بعد اسے رہا کردیا گیا۔ جیسے ہی وہ تورخم بارڈر پر اپنی گاڑی سے نکلی تو فلیش لائٹس، اور لاتعداد مائیکوں کے سامنے اس سے سب سے پہلے یہ سوال پوچھا گیا، " طالبان کا آپ کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟ ایوان نے فورا جواب دیا، "انتہائی مہذب اور شریفانہ"۔ دنیا بھر کا پریس وہاں جمع تھا جو گذشتہ چھبیس دن سے طالبان کو خونخوار درندے کے روپ میں پیش کر رہا تھا، ان کے لئے یہ جواب ایک دوسرے گیارہ ستمبر سے کم نہ تھا۔ ایوان کے اس جواب نے ان کے جھوٹ کے بنائے گئے میڈیا ٹاورز کو زمین بوس کر دیا تھا۔ ایوان کی یاداشتیں اگلے دن سے ہی اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوگئیں تھیں۔ یہ ڈائری اس نے طالبان کی قید میں گزرنے والے گیارہ دنوں کے بارے میں تحریر کی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ سرخ و سپید رنگت، سیاہ کالی چمکدار گھنی داڑھی اور زمرد کی طرح سبز آنکھوں والے طالبان جن کو دیکھ کر کسی بھی یورپی لڑکی کا دل قابو میں نہ رہے، وہ میرے سامنے ایسے نظریں جھکائے کھڑے رہتے جیسے کوئی مجرم ہوں۔ وہ خود بھوکے رہتے مگر مجھے کھلاتے۔ وہ مجھ سے ایسی عزت و احترام سے پیش آتے تھے جیسے انہوں نے مجھے نہیں بلکہ میں نے انہیں گرفتار کیا ہوا ہے"۔ ایوان رڈلی جو اب مریم کہلاتی ہے، اس سے میری ملاقات لندن کے علاقے بارکنگ میں منعقدہ ایک تقریب میں ہوئی جہاں ہم دونوں اولڈ ھم میں قائم کیے جانے والے یورپین اسلامک سنٹر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے لوگوں کا لہو گرما رہے تھے۔ اس کا اسلام کے ساتھ تعلق اور جوش و جذبہ دیکھ کر میں حیران ہوا اور اپنے تاثر کو زائل کرنے کے لئے اس سے صرف ایک سوال کیا، کہ کیا آپ سٹاک ھوم سنڈروم (Stockholm Syndrom) کا شکار تو نہیں ہوئیں اور اس قسم کے نفسیاتی اثر کے تحت آپ نے اسلام قبول تو نہیں کیا۔ اس نے پہلے نفی میں سر ہلایا، پھر زور سے" نو" کہا اور جواب دیا کہ میں نے رہائی کے دو سال بعد اسلام قبول کیا ہے۔ میں افغانستان سے صرف حیرت لے کر آئی تھی کہ یہ اسلام کیسا مذہب ہے جو ان جنگجوؤں کو جنہیں مارنے کے لیے پوری دنیا اکٹھی ہو چکی ہے، اسقدر مہذب، بااخلاق اور شریف النفس رکھ سکتا ہے۔ میں نے دو سال قرآن کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ قرآن کی تعلیمات ہی ہیں جو انسان کو اس قدر تبدیل کر سکتی ہیں۔ اسی لیے میں نے اسلام کے عظیم اور بہت بڑے خاندان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا"۔ مریم رڈلی وہی خاتون ہے کہ جب پوری مسلم امہ کے حکمرانوں اور صحافیوں کی زبانیں گنگ تھیں، تو اس وقت اس نے عافیہ صدیقی پر ہونے والے بگرام جیل میں جنسی تشدد کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اسی آواز کا نتیجہ تھا کہ امریکیوں کو عافیہ صدیقی کی گرفتاری واضح کرنا پڑی تھی۔
ہوسکتا ہے کچھ دنوں بعد سیلویا رومانو جو اب عائشہ رومانوکہلاتی ہے کا بھی ایسا ہی ایک نفسیاتی تجزیہ دیکھنے کو مل جائے جیسا مریم رڈلی کے بارے کیا گیا تھا کہ وہ سٹاک ہوم بیماری کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ اصطلاح دراصل ایک امریکی وکیل نے ایک خاتون مجرم کو بچانے کے لئے تراشی تھی۔ کیلفورنیا کے اخبار کی پیٹی ہارسٹ "Patty Hearst" کو کچھ انقلابی قسم کے جنگجوؤں نے اغواء کیا، وہ ان کے درمیان ایسی گھل مل گئی، کہ ان کے ساتھ مل کر بینک لوٹنے لگی۔ جب پکڑی گئی تو ہوشیار وکیل نے اسے سزا سے بچانے کے لیے سویڈن کے ماہر نفسیات نلز بیجی روت (NILS Bejerot) کی اس اصطلاح کو استعمال کیا جو اس نے 1970ء میں سٹاک ہوم میں ہونے والی ایک بینک ڈکیتی کے دوران ڈکیتوں کی محبت میں گرفتار لڑکی کا نفسیاتی مطالعہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں استعمال کی تھی۔ سٹاک ہوم کے ایک بنک پر ڈاکہ پڑا تو یہ لڑکی وہاں موجود تھی کہ وہاں پولیس آگئی۔ ڈاکو چاروں جانب سے گھر چکے تھے اور اس لڑکی کو بہت سنبھال کر رکھتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک یہی ان کی زندگی کی ضمانت تھی۔ اس لڑکی نے رہائی کے بعد ان کے خلاف عدالت میں بیان دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ انہوں نے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا ہے۔ اٹلی کا میڈیا ابھی تک بحث اس بات پر الجھا ہوا ہے کہ تاوان کیوں ادا کیا گیالیکن جب ذرا اس صدمے سے نکلے گا تو نفسیاتی تعبیریں کرنے لگے گا۔ لیکن عائشہ رومانو کا اسلام قبول کرنا اور خود کو اس رنگ روپ میں ڈھالنا ایک ایسی تبدیلی ہے جو نفسیات دانوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عائشہ رومانو جب ایئرپورٹ سے اپنے گھر جا رہی تھی تو شہر کے تمام چرچ گھنٹیاں بجا رہے تھے۔ انہیں کیا خبر کہ جن کانوں نے اذان میں اللہ اکبر کی عظمت کی صدا سن لی ہو اور جس دل میں اسلام کی حقانیت رچ بس گئی ہو، وہاں چرچ کی گھنٹیاں اور بالکونیوں پر کھڑے ہوکر پھول نچھاور کرنے سے دل نہیں بدلا کرتے۔