کیا کسی کے کانوں اور آنکھوں کویقین آئے گا کہ چین جس کی آبادی ایک ارب چوالیس کروڑ ہے اور جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے وہ پکار اٹھا ہے کہ اگر ہم نے آئندہ اپنی آبادی میں اضافہ نہ کیا تو ہم ایک معاشی، معاشرتی، سیاسی اور عسکری قوت کے طور پر دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں گے۔ آج سے صرف دو دہائی قبل جب یورپ کے ممالک میں آبادی پر کنٹرول کے خطرناک اور تباہ کن نتائج سامنے آنے لگے تو مشہور میگزین "اکانومسٹ"(Economist)نے تین درجن صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی، "مالتھس: ایک جھوٹا پیغمبر" (Malthus: The false Prophet)۔ یہ شخص جس کا نام، تھامس رابرٹ مالتھس تھا، اس نے آج سے دو سو سال قبل 1826ئمیں ایک مضمون لکھا جس کا نام تھا"Essay on Principle of Population "یعنی "آبادی کی بنیاد پر ایک مضمون"۔ اس شخص نے اس کرۂ ارض پر موجود انسانوں کی آبادی، انکی تعداد اور مستقبل کا زمین پر موجود وسائل سے موازنہ کرتے ہوئے، " پیغمبرانہ" دعوے کیے۔ اس نے کہا کہ اس زمین پر انسانوں کی آبادی 1، 2، 4 اور 8کی رفتار سے بڑھتی ہے اورزمین میں موجودخوراک کے وسائل 1، 2، 3، 4 اور 5کی رفتار سے بڑھتے ہیں۔ اگر انسانوں کی اس بڑھتی ہوئی آبادی کو روکا نہ گیا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ انسان اپنے بھائی کا گوشت کھانے پر مجبور ہو جائے گا۔"مالتھس" ان چند جھوٹے "زمینی پیغمبروں " میں سے ایک ہے جنہیں گذشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے پہلے کیمونسٹ ملحد اور پھر سیکولر، لبرل ملحد مستقل پوجتے چلے آرہے ہیں۔
معاشیات کو انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد بتانے والے کارل مارکس کا نظریہ پچھتر سال تک روس اور آدھی دنیا پر نافذ رہنے کے بعد گذشتہ تیس سالوں سے اب تاریخ کے قبرستان کی زینت ہے۔ دوسرا زمینی پیغمبر "ڈارون" تھا جس نے 1859ء میں "Origin of species"لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ انسانی زندگی ایک مسلسل ارتقاء کا نتیجہ ہے اور آخرکار یہ اشرف المخلوقات، بندر سے ترقی کرکے انسان بنا تھا۔ اس کے اس دعویٰ میں ایک غائب کڑی (Missing link)تھا، جسے گذشتہ دو سو سال سے ڈھونڈنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔ تیسرا "زمینی پیغمبر" سگمنڈ فرائیڈ تھا جس نے جنسی قوت (Libido)کو زندگی کا محور بتایا، لیکن اپنے ہی زمانے کے "ینگ" اور "ایڈلر" نے اس کے اس تصور کو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ کارل مارکس، ڈارون، مالتھس اور فرائیڈ دو صدیوں سے آج تک ہمارے سیکولر، لبرل اور یادش بخیر کیمونسٹوں کے محبوب"زمینی پیغمبر" ہیں۔ صرف معیشت کے معاملے میں تھوڑااختلاف ہے، سیکولر، لبرل مارکس کی بجائے کینز (Kaynes) کو یہ درجہ دیتے ہیں، جس نے کیمونزم کے مقابلے میں آزاد معیشت کا تصور دیاتھا۔
مالتھس کی تھیوری اور آبادی پر کنٹرول کا تصور آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے دنیا بھر میں ایسے تھاجیسے آج پاکستان میں پولیو ویکسین، یعنی اگر آبادی کو نہ روکا گیا تو کرۂ ارض تباہ ہو جائے گا۔ زیادہ بچے پیدا کرنے والے کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ غربت، جہالت، بے روزگاری اور بیماری کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ہے۔
آبادی پر قابو پانے کا پہلا کلینک 1921ء میں برطانیہ میں قائم ہوا۔ یہ کلینک حقوق نسواں (Feminist)کی تحریک کے زیر سایہ کھولا گیاتھا۔ اس وقت تک اولاد حاصل کرنے کی کنجی صرف مرد کے ہاتھ میں تھی اور اسے ہی ترغیب دی جاتی کہ تم وقفہ ڈالو، عزل کرو، اور ساتھ ہی اسے کنڈوم نما ایک ربڑ پکڑا دیا جاتا تاکہ وہ بچے کی پیدائش کو روک سکے۔ بنیادی طور پر یہ کنڈوم جرمنی نے فوجیوں کو آتشک کے جنسی مرض سے بچانے کے لیے بنایا تھا۔ اس کے بعد یہ دنیا بھر کی افواج کو جنسی امراض سے بچانے کے لیے سپلائی کیا جانے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ صرف امریکی افواج میں ہی چار لاکھ فوجی آتشک اور سوزاک کے غلیظ مرض کا شکار ہوچکے تھے۔ جنسی بے راہ روی کو تو نہ روکا گیا، البتہ مرض سے بچنے کے لیے کنڈوم استعمال کروایاگیا۔ مگر جیسے ہی 1961ء میں مانع حمل گولی (The Pill)ایجاد ہوئی توایک انقلاب آگیا۔ اس ایجاد نے نہ صرف آبادی کو کنٹرول کرنے کی حکمتِ عملی بدلی بلکہ دنیا بھر کی اخلاقیات کا توازن ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ اب بچوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار براہ راست عورت کے پاس آگیا۔ عورت نہ صرف بچوں کو کنٹرول کرنے میں خود مختار ہو گئی بلکہ اس "گولی" نے اس کے لیئے لاتعداد ناجائز اور خفیہ تعلقات کے لیے ایک "محفوظ رازداری" بھی فراہم کردی۔
ٹھیک سو سال گذرنے کے بعد آج پوری مغربی دنیا اپنے اس آبادی کو کنٹرول کرنے کے پروگرام پر ماتم کناں ہے۔ بیس سال پہلے اس پروگرام سے ہونے والی تباہی کا الارم یورپ کے اٹھارہ ممالک اور جاپان میں بجنا شروع ہوااور ان تمام ممالک میں معاشی خوشحالی کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ فرانس، جرمنی جاپان، سویڈن اور ڈنمارک اس کی بدترین مثال ثابت ہونے لگے، کیونکہ وہاں پینسٹھ سال سے زیادہ افرادکی تعداد تیس فیصد کے قریب جا پہنچی۔ کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے ایک بوڑھے کے ساتھ پانچ نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان ملکوں میں تو دو بوڑھوں پر تین نوجوان رہ گئے۔ حالت یہاں تک آپہنچی کہ اگر افرادی قوت باہر سے نہ منگوائی جائے تو پانی، بجلی، سیوریج، صفائی اور ٹریفک جیسی لازمی سہولیات کا مہیا کرنا بھی مشکل ہو جائے۔ لیکن اس سائنسی "خود کشی" کا تو کوئی علاج نہ تھا۔ یہ سب تو اپنے ہی کیے کا نتیجہ تھا۔ آبادی کوکنٹرول یہ پروگرام زیادہ خطرناک اس لیے بھی ہوا کیونکہ اس سے پہلے پوری تہذیبی زندگی کو خود غرض اور اخلاق باختہ بنایاگیا تھا۔ جب ایسے خودغرض لوگوں کے ہاتھ میں مانع حمل کنڈوم یا گولی آگئی تو انہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ میں ایک ایسی اولاد کیوں حاصل کروں جس نے کل مجھے اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ کر چلے جانا ہے یا جو ہر لمحہ میرے پاؤں کی زنجیر بنی رہے گی۔ جو میرے کیرئیر اور مستقبل کے منصوبوں کو خاک میں ملائے گی۔ نئی نسل پیدا نہ ہوئی اور بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی کے لیے صحت، دیکھ بھال، خوراک اور پینشن کا بوجھ اتنا بڑھنے لگا کہ معیشتیں بوکھلا اٹھیں۔
مگر جن ملکوں میں آبادی پہلے ہی سے زیادہ تھی، ان کے بارے میں یہ دلیل دی جاتی رہی کہ ان ممالک کو آبادی کا بم تباہ کر دے گا۔ پاکستان، بھارت اور چین ان آبادی کے پر وگراموں میں سب سے آگے تھے۔ اندراگاندھی کی مردوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کے خاتمے کے پروگرام پر ایک طوفان برپا ہوا تھا۔ ایوب خان کے زمانے میں امریکی امداد سے چلنے والے پروگرام پر شدید ردعمل ہوا۔ چین میں چونکہ ماؤزے تنگ کی کیمونسٹ ڈکٹیٹرشپ نافذ تھی، اس لیے چین نے 1979ء میں ایک بچے سے زیادہ پیدا کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور اسے سختی سے نافذ بھی کیا گیا۔ مقصد ایک تھا کہ اس طرح آبادی کم کرکے ہم معاشی خوشحالی حاصل کر سکیں گے۔ 2010ء میں ان کے ہاں بچے پیدا کرنے کی شرح ایسی کم ہونے لگی کہ محسوس کیا جانے لگا جیسے کچھ ہی عرصے بعد، پورا چین بوڑھا ہو کر موت کا انتظار کر رہا ہوگا۔ ایک الارم بجا، 2015ء میں کہا گیا کہ ایک نہیں آپ دو بچے پیدا کیا کریں۔ لیکن صرف پانچ سال بعد ہی ایک ارب چوالیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں آج ایک بار پھر خوف کی ایک اور لہر دوڑی ہے۔
چین سمجھتا ہے کہ اس کی آباری میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگ اب18فیصد ہیں، مگر 2040میں یہ تعدادبڑھ کر 30فیصد ہو جائے گی اور اسکے بعد بوڑھے ہونے کی یہ رفتار اس تیزی سے بڑھے گی کہ چین میں شاید موت کا انتظار کرنے والے بوڑھے ہی باقی رہ جائیں۔ خوف سے کانپتے ہوئے چین نے کہا ہے اگر ملک بچانا ہے توپھر تیسرا بچہ بھی پیدا کرو۔ بچہ ایک ہی اچھا، پھر بچے دو ہی اچھے کے نعرے آج انسانی بے بسی کے سمندر میں غرق ہوچکے ہیں۔ زمین پر خدا بننے کے دعویدار اور انسانوں کو خوراک مہیا کرنے کی پلاننگ کرنے والے زمینی پیغمبر اپنے دعوؤں سمیت دفن ہو چکے ہیں۔