Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Zamindari, Mazariat Aur Sood (1)

Zamindari, Mazariat Aur Sood (1)

ستر کی دہائی کی بات ہے، پوری دنیا دو گروہوں میں تقسیم تھی، سرمایہ دارانہ نظام کی دنیا اور اشتراکی دنیا۔ روس کے بالشویک انقلاب کو آئے تقریبا پچاس سال بیت چکے تھے اور اس وقت اس کے زیراثر ریاستوں کی تعداد بھی درجن سے زیادہ تھی جو دنیا کے ہر براعظم میں موجود تھیں۔

چین میں ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ اور لال کتاب کی فتح کو تیس سال ہونے کو آئے تھے۔ اس نظریاتی تقسیم میں مذہبی طبقے کی اکثریت سرمایہ دارانہ نظام کی خاموش حامی تھی اور کیمونسٹ تحریک کو دین، ایمان اور سب سے بڑھ کر آزادی اظہار، تحریر اور مذہبی رسومات کی ادائیگی پر پابندی کے حوالے سے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی تھی۔

اس تصور کے مضبوط ہونے میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے وسیع پراپیگنڈہ نیٹ ورک کا دخل تھا، وہیں کیمونسٹ تحریک سے وابستہ افراد کی مذہب دشمنی، آزاد زندگی، مغربی تہذیب کی نقالی اور سب سے بڑھ کر الحاد کی سرپرستی نے مذہبی طبقے کو کیمونسٹ نظریات کے مخالف لا کھڑا کیا اور ان کی اکثریت سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو اسلام کی بقا اور تحفظ کے لیے ضروری سمجھنے لگی۔

برصغیر پاک وہند کا المیہ بھی دنیا بھر سے مختلف نہ تھا۔ تمام ادیب، شاعر، افسانہ نگار، جو عمومی طور پر مذہبی پابندیوں سے نالاں اور انسان کی عظمت کے پرستار ہوتے ہیں، حسن و عشق کی وادیوں میں گھومنے والے اور تخیلاتی دنیا کے مسافر ہوتے ہیں، انہیں کیمونسٹ نظریہ بہت بھایا، "بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے" والے لوگ "لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے" کے تصور میں گم ہوگئے۔

سب کو "اک گونا بیخودی" چاہیے تھی، "مے سے غرض نشاط" کرنے سے مل جائے یا انقلاب کے گیت گانے کی سرمستی میں میسر آجائے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے افسانے، شاعری اور مضامین ایسے تھے کہ ان کو نچوڑو تو جو عطر برآمد ہوگا، اس کی بو میں اللہ کو دیس نکالا دیتے، سرمایہ داروں کی گردنیں دبوچتے، عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں اتارتے، اور نئی تہذیبی اقدار مرتب کرنے کے خواب رقصاں نظر آتے تھے۔

آسمانوں سے اترتی ہے، نبوت نہ کتابآسمانوں میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں (ظہیر کاشمیری)جب آسمانوں سے احکامات ہی نازل نہیں ہوتے تو پھر ادیب شاعر نئی اقدار اور تہذیب کے معبد تراشنے لگے، اور ایسے ہر جدید معبد میں عورت تو مرکز و محور ہے، انقلاب کے نعرے لگائے یا سٹیج پر کیٹ واک کرے۔

حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھاخود اپنے حسن کو پردہ بنا لیتی تو اچھا تھاترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکنتو اس آنچل سے، اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا(مجاز)کیمونزم کے فلسفے کو اس طرح شاعرانہ آزاد خیالی سے سجانے کا یہی عمل تھا کہ آج کا جمہوری کالم نگار اور شاعر بھی یورپ کی عریانیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "وہاں عریانی بھی ستر ہوتی ہے"۔

غرض کارل مارکس کا سارا فلسفہ حو مزدور کی بادشاہت اور کسان کی حکمرانی سے متعلق تھا، جس کے "قدرِ زائد کے نظریے" theory of surplus volume))نے دنیا بھر کے سرمایہ دارانہ مراکز میں زلزلہ پیدا کر دیا تھا، برصغیر کے شعراء، ادباء فلسفیوں کی آزاد خیالی، مذہب بیزاری، تعیش پسندی اور روایت شکنی کی نذر ہوگیا اور اس کے سارے لٹریچر پر اس کا ایک فقرہ حاوی آ گیا کہ "مذہب ایک افیون ہے"۔

مذہبی طبقے کے دل میں کیمونزم کے خیالات سے نفرت کی دوسری وجہ سوویت روس کا مسلمان ریاستوں تاجکستان، ازبکستان، آذربائجان، قازقستان، کرغزستان اور ترکمانستان میں مساجد پر پابندی، قرآنی تعلیم کا خاتمہ اور مدارس کی تالا بندی کرنا تھی۔ اس ساری صورتحال کا فائدہ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام نے خوب اٹھایا۔ کارل مارکس کے اجتماعی ملکیت کے نعرے کو ایک خوفناک ہوّا بنا کر پیش کیا گیا۔

لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا۔ دیکھو اگر کیمونسٹ آگئے تو ذاتی ملکیت ختم کر دیں گے، تمہاری فیکٹری مزدوروں کے ہاتھ میں ہو گی، کھیت مزارعوں میں تقسیم ہو جائیں گے، کسی کے پاس ذاتی ملکیت میں رکھنے کے لیے مکان بھی نہیں ہوگا، یہاں تک کہ تمہاری بیوی بھی تمہاری ذاتی ملکیت نہ ہوگی۔ برصغیر میں سرمایہ دار تو بہت کم تھے کہ یہاں انگریز نے صنعت کاری کو فروغ ہی نہیں دیا، تاکہ انگلینڈ کی صنعتوں کے لئے یہاں سے خام مال جاتا رہے۔ لیکن جاگیریں بنائی گئی اور جاگیرداروں کا ایک طبقہ پیدا کیا گیا جو معاشی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر غالب ہو۔

کیمونسٹ آوازوں سے اسی طبقہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ کسان، ہاری اور مزارع کا نعرہ گونجا۔ انگریز ایک سمجھدار حاکم تھا، وہ دیکھ رہا تھا کہ کیمونسٹ نعرے میں غریبوں کے لیے ایک کشش موجود ہے۔ یورپ میں کیمونسٹ تحریکیں چل پڑی ہیں تو کہیں یہاں بھی ان کا اثر نہ پہنچ جائے اور پھر یہاں کے غریب کسان مزدور اس کے خلافِ اٹھ نہ کھڑے ہوں۔ اس لئے اس نے 1885 میں "بنگال قانون مزارعت" Bengal Tenancy Act نافذ کیا جس میں مزارعوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔

کس قدر مضحکہ خیز قانون ہے کہ تم نسل در نسل مزارع رہو گے، تمہیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ یعنی تمہاری محنت سے مالک عیش کرسکتا ہے، لیکن تم اسی پر خوش رہو کہ تمہیں کوئی نکال نہیں سکے گا اور تمہاری نسلیں بھی اس زمین پر غلامی کرتی رہیں گی۔ ملک تقسیم ہوا، انگریز چلا گیا، بھارت میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے وہاں کی اسمبلی نے بھی جاگیرداری کا نظام کا خاتم کر دیا۔ لیکن مغربی پاکستان میں سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے پروپیگنڈے کا جادو چل گیا۔

پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ جمہوری سپہ سالار نوابزادہ نصراللہ سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک تنظیم بنائی جس کا نام تھا "انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ"۔ یعنی شریعت کی چھتری میں زمینداری اور جاگیرداری کا تحفظ کرنے کی ٹھان لی گئی۔ علما پہلے ہی کیمونزم، سوشلزم اور بالشویک انقلاب کی خوفناک داستان سن کر اور کیمونسٹ ادیبوں کی مذہب بیزاریاں روشن خیالیاں دیکھ دیکھ کر اس نظام کے ناقد بن چکے تھے۔ انہوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر زمینداری اور جاگیرداری نظام کے حق میں شرعی دلائل دینا شروع کردیے۔

نوابزادہ نصراللہ خان کی محنت اور بار بار اصرار پر مولانا مودودی نے بھی "مسئلہ ملکیت زمین" جیسی کتاب لکھ ڈالی۔ یوں وہ گائوں کا مولوی جس کا نام انگریز نے ریوینیو ریکارڈ میں "فہرست کمیاں " میں شامل کرکے ذلیل و رسوا کیا تھا، وہ بھی مطالعے کی کمی یا اساتذہ و اسلاف کے احترام میں جاگیرداری کو اللہ کی عطا اور نصیب کا لکھا بنا کر پیش کرنے لگا۔ بہت کم ایسے علما تھے جو قرآن و سنت اور فقہ کی کتابوں میں سے آیات وبینات اور دلائل کے ساتھ ثابت کرتے کہ اسلام میں تصور ملکیت و مزارعت کیا ہے۔

اسی ستر کی دہائی میں مجھے ایک شخص کی دوستی اوررفاقت نصیب ہوئی جن کا نام عطاء المحسن بخاری تھا۔ برصغیر کے خطیب العصر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے فرزند۔ قرآت اس قدر خوبصورت کرتے کہ لگتا لحن داؤدی عطا ہوا ہو۔ شاعری، ادب، فلسفہ و تاریخ اور علم الکلام کے دریا کے غواّص۔ انہوں نے صرف چھ صفات پر مشتمل ایک کتابچہ تحریر کیا "اسلام دولت کی مساوی تقسیم کا قائل ہے"۔

یہ مختصر کتابچہ اپنے وقت کے علماء میں ایک جاندار بحث کو زندہ کر گیا۔ عطاء المحسن کتابچہ ہاتھ میں پکڑتے اور کہتے ہمارے علماء کو قرآن کی یہ آیتں کیوں نظر نہیں آتیں۔ ان آیتوں میں ایک سورہ نحل کی یہ آیت تھی جس کا سحر مجھ پر آج تک قائم ہے۔ "اللہ تعالی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں زیادتی دے رکھی ہے۔ پس جن لوگوں کو رزق میں برتری دی گئی ہے، وہ اپنا رزق اپنے غلاموں (زیردستوں ) کو اس طرح کیوں نہیں لوٹاتے کہ وہ سب برابر ہوجائیں (النحل 70)۔

اس آیت میں لفظ "لوٹانا" ہے، دینا نہیں۔ لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کا مال آپ کے پاس آ گیا ہے اور آپ اسے لوٹا رہے ہیں، واپس کر رہے ہیں (جاری ہے)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran