Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Prof. Mazhar/
  3. Bikharte Khwab

Bikharte Khwab

صاحبو! یہ پَل دوپَل کی بات نہیں پون صدی کا قصّہ ہے، بے مہر موسموں کی داستان ہے۔ نہاں خانہ، دل سے بار بار سوال اُبھرتے ہیں کہ جب رَبِ لم یزل نے ہمیں دنیا کی ہر نعمت سے نواز رکھا ہے تو پھر کشکولِ گدائی کیوں؟ آنکھوں میں چھُپے خوابوں کی تعبیر درویزہ گری کیوں؟ مردودِحرم منصورِ حقیقت سرِدار کیوں؟ نسیمِ بہار ہمیشہ گردآلود کیوں؟ ہوائے دوراں دلوں کی دم سازی سے گریزاں کیوں؟ اور بخت اتنے برگشتہ کیوں کہ اُمیدِ سحر کا فقط خبط ہی باقی۔

تاریخ کے پَنوں پہ اِن سوالات کے جوابات روزِ روشن کی طرح عیاں مگر ہم نے کبھی ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اگر ہم تھوڑا سا تردد کر لیتے تو تاریخ کی گواہی مل جاتی کہ اِس دھرتی پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ایسے زورآور مسلط رہے جنہوں نے صرف ذاتی خواہشوں کو ہی مقدس جانا۔ فکری وسعتوں سے محروم یہ لوگ اُس ناحیے سے تعلق رکھتے تھے جہاں اذہان کے بند دریچوں میں افکارِ تازہ کا کوئی ایک روزن بھی نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات کہ مشفق ومہربان ربِ علیم وخبیر نے ہمیں بار بار سنبھلنے کا موقع بخشا مگر ہم وہ کم نصیب کہ ایک زورآور شرابی کے ہاتھوں وطن دولخت کرانے کے باوجود ہوش نہ آیا۔ تاریخ گواہ کہ جمہوریتوں کے جنازوں پر ماتم کناں ہونے کے بجائے ہم آمریتوں کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرتے رہے، اظہار، تشکر میں دیگیں چڑھاتے رہے۔

جب 28 مئی 1998ء کو پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن کے اُبھرا تو صرف پاکستان ہی نہیں شرق تا غرب بسنے والے ہر مسلمان کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ ایسا جذبہ وجنوں یا تو اُس وقت سامنے آیا جب قیامِ پاکستان کے وقت لُٹے پُٹے قافلے پاکستان پہنچتے تو پُرنم آنکھوں کے ساتھ دھرتی ماں کو بے ساختہ چومنے لگتے، یا پھر ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پورے عالمِ اسلام میں مبارک سلامت کی صدائیں گونج رہی تھیں۔

سرخوشی وسرشاری کی اِس کیفیت کا دورانیہ بہت کم ثابت ہوا۔ یہ احساسِ تفاخر اُس وقت دم توڑ گیا جب طشتِ اُفق نے دور بیٹھے یہ عجب نظارہ کیا کہ آمریت کے گھور اندھیروں نے ارضِ وطن کی فضاؤں کو مسموم کر دیا اور ایٹمی دھماکے کرنے والے کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا۔ پھر ہمارا جذبہ وجنوں تب پاتال کی گہرائیوں میں دفن ہوگیا جب ایٹم بم کے خالق محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ آمر پرویز مشرف نے وہ سلوک کیا جسے لکھتے ہوئے بھی قلم لرزہ براندام۔

کتنے کم نصیب ہیں ہم کہ بھارت نے اپنے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبد الکلام کو صدرِمملکت کے منصب سے سرفراز کیا اور ہم نے محسنِ پاکستان کو الیکٹرانک میڈیا پر بٹھا کر اقوامِ عالم میں رسوا کیا۔ یہی نہیں بلکہ زورآوروں نے تو ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ کے ایک انتہائی متنازع فیصلے (4/3) کے ذریعے سزائے موت کا حقدار ٹھہرایا اور قوامِ عالم کے شدیدترین دباؤ کو پسِ پُشت ڈال کر ایٹمی دھماکے کرنے والے میاں نوازشریف کو خاندان سمیت جلاوطن کر دیا گیا۔ یہ گھناؤنا کھیل اہلِ دجل وفریب نے آمریتوں کے سائے تلے کھیلا۔

لاریب موجودہ آرمی چیف سید جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں فوج "نیوٹرل" ہوچکی لیکن ماضی میں فوج کے بھرپور سیاسی کردار سے مفر ممکن نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی اندھی طاقت کے بَل پر جمہوریتوں کے گلے کاٹتی رہی اور عدل کے اونچے ایوان اُس کے دست وبازو بنے رہے۔ جہاں آمریتوں کو ضرورت محسوس ہوئی وہیں جسٹس منیر کا تخلیق کردہ "نظریہئ ضرورت" فعال ہوا۔

یہ اِسی نظریہئ ضرورت کی "کرشمہ سازیاں" ہیں کہ 51 سال میں 30 وزرائے اعظم آئے اور 24 سال تک وطنِ عزیز میں کوئی وزیرِاعظم ہی نہیں تھا۔ اِسی نظریہئ ضرورت سے آمر ایوب خاں مستفید ہوااور اِسی کے تحت ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو عدلیہ نے حقِ حکمرانی عطا کیا۔ عدلیہ کاساختہ پرداختہ نخل نظریہئ ضرورت اب تن آور درخت بن چکا اور عدالتِ عظمیٰ سمجھتی ہے کہ وہ جب جی چاہے آئین کو RE-WRITE کرنے کے علاوہ مَن مانے فیصلے بھی کر سکتی ہے۔ ماضی سے قطع نظر اب بھی عدلیہ کے ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں جنہیں دیکھ کر "نظریہئ ضرورت"بھی انگشت بدنداں۔

2014ء کا ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دراصل اسٹیبلشمنٹ کی میاں نوازشریف کو مائنس کرنے کی ایک کوشش تھی۔ اِس دھرنے کی نوک پلک جنرل احمد شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام نے سنواری لیکن ایک تو عمران خاں ڈی چوک میں عوام کی مطلوبہ تعداد لانے میں ناکام رہے اور دوسرے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں میاں نوازشریف کی پُشت پر کھڑی ہوگئیں۔ اِس ناکامی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کا سہارا لیا اور پاناما کیس کے ذریعے ایک انتہائی متنازع فیصلے میں میاں نوازشریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ پھر میاں صاحب کے خلاف واٹس ایپ پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور آئینی گنجائش نہ ہونے کے باوجود اُسی بنچ کے ایک جسٹس اعجاز الاحسن کو جے آئی ٹی پر نگران بھی مقرر کر دیا گیا۔

آئین کی رو سے کسی بھی منتخب وزیرِاعظم کو صرف پارلیمنٹ ہی عدم اعتماد کی بنیاد پر نااہل قرار دے سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے پہلے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی اور پھر میاں نوازشریف کو نااہل قرار دیا حالانکہ آئین میں کہیں بھی تاحیات نااہلی کا ذکر نہیں۔ فیصل واوڈا کیس میں موجودہ چیف جسٹس محترم عمر عطا بندیال تاحیات نااہلی کو کالا قانون قرار دے کر اِس نااہلی کو 5 سال تک محدود کر چکے ہیں لیکن طُرفہ تماشا یہ کہ محترم عمر عطا بندیال نے ہی میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ لکھا۔

اب بھی جب کوئی سیاسی کیس سامنے آتا ہے تو محترم چیف جسٹس ہم خیال ججز کا بنچ بنا لیتے ہیں اور ہر کہ ومہ کو علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے۔ آرٹیکل 63A کی تشریح کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں 3 ہم خیال ججز نے جو فیصلہ دیا اُسے بنچ کے دیگر 2 محترم جج صاحبان نے آئین کو RE-WRITE کرنے کے مترادف قرار دیا۔ اِس کے علاوہ بھی کئی فیصلے ایسے ہیں جن میں اعلیٰ عدلیہ کے لاڈلے سے محبتوں کے سوتے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب عدلیہ کا سارا عدل کسی ایک شخص کی جھولی میں آگرے گا تو پھر 9 مئی جیسے سانحات جنم لیتے رہیں گے۔

9 مئی کو پاکستان کا نائن الیون کہاجا رہا ہے لیکن یہ سانحہ اُس سے کہیں بڑھ کر کہ نائن الیون امریکی دشمنوں کا منصوبہ تھاجبکہ 9 مئی کے زخم اپنوں نے دیئے۔ یہ پہلے سے طے شدہ ایسا منصوبہ تھا جس کا ٹارگٹ افواجِ پاکستان کی تنصیبات تھیں۔ بے مہار دہشت گرد ہر اُس جگہ دندناتے نظر آئے جہاں دفاعی تنصیبات تھیں۔ دہشت گردوں کو سمجھا دیا گیا تھا کہ جی ایچ کیو کے علاوہ کورکمانڈرز کی رہائش گاہوں اوردیگر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا ہے۔

میانوالی کی ایئربیس پر موجود 80 لڑاکا طیاروں کو تباہ کرنے کی بھرپور منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلح دہشت گرد بھوسے سے بھری ٹرالیوں اور آگ لگانے والے آلات سے لیس ہو کر ایئربیس پر حملہ آور ہوئے لیکن ایئربیس کی حفاظت پر مامور سکیورٹی فورس کے جری جوانوں کی بھرپور مزاحمت سے یہ منصوبہ ناکام ہوا۔ کوئٹہ، پشاورکے کورکمانڈرز کے گھروں اور گوجرانوالہ کینٹ پر دہشت گردوں کو مُنہ کی کھانا پڑی۔

جی ایچ کیو راولپنڈی میں شرپسندوں کی توڑپھوڑ بھی بیرونی گیٹ تک محدود رہی۔ اِس کے باوجود بھی پورے ملک میں پھیلے جتھوں نے تباہی وبربادی کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی نظیر تاریخِ پاکستان میں نہیں ملتی۔ لاہور کے جتھوں نے کورکمانڈر ہاؤس کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ سی ایس ڈی لوٹ لی گئی اور عسکری پلازہ کو نذرِآتش کیا۔ فیصل آباد میں براہِ راست آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملہ ہوا۔

پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلا دیا گیا۔ ایف سی ہیڈکوارٹر اور قلعہ بالا حصار پر آتش زنی کی گئی، شُہدا کی یادگاریں شکست وریخت کا نشانہ بنیں، کیپٹن کرنل شیرخاں نشانِ حیدرکے مجسمے کو پیروں تلے روندا گیا اور 1965ء کی یادگار طیارہ شعلوں کا رزق بنا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی جائے سے نکل کر لاڈلے کی یوں پرورش وپرداخت نہ کرتی تو سانحہ 9 مئی جنم نہ لیتا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran