ربِ لازوال کی ہر نعمت سے مالامال یہ ارضِ پاک جہاں ایک طرف برف پوش چوٹیاں جن کے دامن میں پربتوں کی شہزادیاں تو دوسری طرف شبنم کے موتیوں سے لدی مخملیں گھاس کی اُٹھان اور موتی بکھیرتے کھلیان۔ ایک طرف لق و دَق صحرا تو دوسری طرف شبنمی لہجوں میں مُرغانِ چمن کی صدا۔ صحنِ چمن کی معطر فضاؤں میں نغمہ سرا مست طیور۔ پانچ دریاؤں کی سونا اُگلتی دھرتی جس میں تہہ در تہہ چھُپے خزانے اور سب سے بڑھ کر سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کی حامل یہ ارضِ پاک۔ رَبِ لَم یزل کا تحفہ جس کی ہم نے قدر نہ کی اور اب یہ عالم کہ مایوسیوں اور محرومیوں کی صدائے جَرس یہ پیغام دیتی ہوئی
کہو خزاں سے رہے مطمئن نہ گھبرائے
کہ میرے باغ میں اندیشۂ بہار نہیں
مایوسی کفر ہے مگر پھر بھی اندیشۂ زوال روح کی گہرائیوں تک اُٹرتا ہوا۔ جہاں حسد و رقابت کے جھلستے باسی دھرتی ماں کو دشتِ ظلمت کے گھور اندھیروں میں گُم کرنے کے دَرپے ہوں وہاں حیات جرم اور زندگی وبال بن جاتی ہے۔ جہاں زہر اور قند میں تفریق ختم ہو جائے اور تاویلِ مسائل کا بہانہ بنا کر قوم کا استحصال کرنے والے خلقِ خُدا کی گھات میں ہوں وہاں سفینہ موجِ حوادث سے کیوں کر بچے۔ جہاں مردانِ خرد مند مفقود یا خاموش اور منصورِ حقیقت سرِدار وہاں مایوسیوں کی سیاہ رات نویدِ صبح کیسے دے۔ جہاں عدل کے اونچے ایوان اور سیاستدان متحارب، اپنا اپنا میمنہ و میسرہ درست کرتے نظر آئیں اور صحافت کھنکتے سکوں کی جھنکار میں تُل جائے وہاں کوئی زنجیرِعدل کہاں سے لائے۔
لرزاں و ترساں سوچوں کا محور یہی کہ کہیں یہ دَورِ ابتلا دینِ مبیں سے دوری کی وجہ سے تو نہیں کیونکہ ہم نے تو اپنے رَب سے زمین کا ٹکڑا اِس عہد کے ساتھ حاصل کیا تھا کہ ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ یہ وعدہ 77 سال گزرنے کے باوجود آج بھی تشنۂ تکمیل۔ قائدِاعظمؒ کی سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر جولائی 1948ء کو کی گئی تقریر آج بھی اپنے اصل الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے جس کے مطابق ایک ایسی مملکت کی تشکیل کا عزم جس میں آزادی کی حدود قُرآن کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق اور قُرآن کے منافی کسی بھی قانون کی ممانعت لیکن ہم نے کبھی اِن اصولوں کی پیروی نہیں کی۔
شائد اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سانحۂ مشرقی پاکستان کی صورت میں جھٹکا دیا کہ شاید سنبھل جائیں لیکن عبث۔ اِس سانحے کے بعد بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے کہا "ہم نے دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا"۔ اندرا گاندھی کے اس بیان پر لبرلز کی آنکھوں کی چمک دوچند ہوگئی اور اُنہوں نے دو قومی نظریے کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا۔ یہ مگر اُن کی کج فہمی اور کوتاہ نظری تھی کیونکہ قُرآنِ مجید میں قوم کی جگہ وسیع تر معنی و مفاہیم رکھنے والے الفاظ "حزب اور اُمت بیان کیے گئے ہیں"۔ وجہ یہ کہ قوم تو رنگ، نسل اور جغرافیائی حدود کی بنیاد پر بھی تشکیل پا سکتی ہے جبکہ بقول اقبالؒ "خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی"۔
حضرتِ اقبالؒ نے لفظ "قوم" کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا "قُرآنِ کریم میں مسلمانوں کے لیے "اُمت" کے سوا کوئی لفظ نہیں آیا۔ "قوم" رجال کی جماعت کا نام ہے۔ یہ جماعت بہ اعتبار قبیلہ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اخلاق ہر جگہ اور ہر رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے لیکن ملت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ملت یا اُمت جاذب ہے اقوام کی خود اِس میں جذب نہیں ہوتی"۔ قُرآنِ مجید نے حزب اللہ اور حزب الشیطان کی واضح تقسیم فرما دی ہے۔ فرمایا "شیطان اُن پر غالب آ گیا اور اُس نے اُنہیں خُدا سے غافل کر دیا۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور یاد رکھو شیطان کی پارٹی آخرکار نامراد رہنے والی ہے" (المجادلہ آیت 19)۔
دوسری طرف لوگ رنگ و نسل اور لسان و وطن میں خواہ کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں اور اُن کے درمیان کتنی عداوتیں ہوں، جب وہ اللہ کے بتائے ہوئے مسلکِ حیات میں متفق ہو گئے تو گویا حزبِ شیطان سے کٹ کر نئی جماعت میں داخل ہو گئے۔ پارٹی کا یہ اختلاف بیٹے سے باپ کی وراثت کا حق چھین لیتا ہے اور بیوی کو شوہر سے جُدا کر دیتا ہے۔ ارشاد ہوا "نہ وہ اُن کے لیے حلال نہ یہ اِن کے لیے حلال" (الممتحنہ آیت 10)۔
اِسی سورۃ مبارکہ کی آیت 4 کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد کو کہا کہ وہ اُس کی مغفرت کی دُعا ضرور کریں گے لیکن سورۃ التوبہ آیت 114میں ارشاد ہوا "ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دُعا کرنا محض اِس وعدے کی بنا پر تھا جو وہ اُس سے کر چکا تھا۔ مگر جب اُس پر کھُل گیا کہ اُس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے دستبردار ہوگیا۔ سورۃ المجازلہ کی آیت 22 میں ارشاد ہوا "تم ایسا ہرگز نہ پاؤ گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے"۔
اِس صراحت کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ حزب اللہ کا حزب الشیطان سے کوئی تعلق کوئی واسطہ اور کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ یہی فرق ہے قومِ مسلم اور دیگر اقوام کے درمیان اور دو قومی نظریہ بھی یہی ہے۔ اندرا گاندھی کے بقول یہ نظریہ خلیجِ بنگال میں ڈوبا نہیں کیونکہ بنگلہ دیش اسلامی مملکت ہے اور مسلمان جہاں بھی بستا ہے ہمارا بھائی ہے۔ یہی نظریہ محترم جاوید احمد غامدی کا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں"قُرآن کی رو سے مسلمان وہ دسیوں ریاستوں اور بیسیوں ممالک میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ مسلمانوں سے یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہو کر لازماً ایک ہی قوم اور ایک ہی ریاست بن جائیں"۔
حقیقت یہی کہ دو قومی نظریے کا مطالبہ یہ ہرگز نہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان اپنی اپنی قومی شناخت چھوڑ کر ایک ہی ریاست میں اکٹھے ہو جائیں۔ مولانا مودودیؒ کا نکتۂ نظر بھی یہی ہے۔ فرمایا "اسلامی قومیت کی بنیاد نسل اور وطن کے بجائے اعتقاد و عمل پر رکھی گئی ہے"۔ اِس لیے ایک ملک کے مسلمان اور دوسرے ملک کے مسلمان میں جغرافیائی یا نسلی تفریق کی کوئی وجہ نہیں"۔
قرآنِ مجید کی سورۃ العمران آیت 10 اور سورۃ البقرہ کی آیت 143 کے مطابق قوم کے لیے دوسرا لفظ اُمت استعمال کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو بہترین اُمت قرار دیتے ہوئے اُنہیں"اُمتِ وسط" اور اقوامِ عالم پر نگران مقرر کیا ہے۔ گویا مسلمان ایک بین الاقوامی جماعت کا نام ہے جو ایک خاص اصول کو ماننے، ایک خاص پروگرام پر عمل کرنے اور ایک خاص مشن کو انجام دینے کو تیار ہوں۔
یہ لوگ چونکہ ہر قوم میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں اِس لیے ایک پارٹی بن جانے کے بعد کسی قوم سے اِن کا تعلق نہیں رہا۔ اِسی لیے یہ اُمتِ اوسط یا بیچ کی اُمت ہے جنہیں ایک عالمگیر مشن کے تحت نوعِ انسانی پر نگران مقرر کیا گیا ہے۔ اب اپنے مَن میں جھانک کر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا ہم نے اِس مشن کی تکمیل کیلئے کوشش کی؟ اگر جواب نفی میں ہو تو سمجھ لیجئے کہ صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالمِ اسلام کی دگرگوں حالت محض اِس لیے ہے کہ ہم صرف نام نہاد مسلمان ہی ہیں۔