13 مارچ کی شام کو ملکی تاریخ میں پہلی بار صحت پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ وزیرِاعظم کی سربراہی میں ہونے والے اِس اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان کے علاوہ وزراء اور حکومتی نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ موضوع عذابِ الٰہی کی صورت نمودار ہونے والا کورونا وائرس تھا جو چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا پر چھا گیا۔ پاکستان اِس وائرس کا شکار ہونے والا 48 واں ملک ہے جبکہ اب یہ وائرس دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اجلاس میں ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ پر غور کیا گیا اورپورے ملک کے تمام سکول، کالج اور یونیورسٹیاں 5 اپریل تک بند کر دی گئیں۔ اِس دوران دینی مدارس اور ٹیوشن سینٹرز بھی بند رہیں گے۔ مذہبی اجتماعات پر پابندی ہوگی۔ جشنِ بہاراں سمیت تمام تقریبات منسوخ کر دی گئیں۔ اِس عرصے کے دوران سینماگھر، میرج ہالز اور مارکیز بھی بند رہیں گی۔ طلباء و طالبات کے ہوسٹلز خالی کروا لئے جائیں گے۔ کوئی نجی یا سرکاری سپورٹس فیسٹیول ملک میں نہیں ہو سکے گا۔ پنجاب اور سندھ میں پی ایس ایل کے بقیہ میچ شائقین کی شمولیت کے بغیر منعقد ہوں گے (پی سی بی نے غیرملکی کھلاڑیوں کو میچ چھوڑ کر واپس جانے کی اجازت دے دی ہے)۔ سوائے لاہور، کراچی اور اسلام آباد ایئرپورٹس کے تمام ملکی ایئرپورٹس غیرملکی پروازوں کے لئے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اِس دوران قیدیوں سے ملاقات پر بھی پابندی ہوگی۔ پاکستان کی مغربی سرحدیں بند کر دی گئی ہیں۔ چمن اورطورخم اور کے بارڈر سیل کر دیئے گئے اور تفتان راہداری بند کر دی گئی۔ اِس اجلاس میں نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔ چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء اور چیئر مین این ڈی ایم اے اِس کمیٹی کے ممبرز ہوں گے۔ اِس کے علاوہ آئی ایس آئی، آئی ایس پی آر اور ایم او کے نمائندے بھی اِس کمیٹی کا حصّہ ہوں گے۔ کمیٹی کی سربراہی وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے پاس ہے اور سیکرٹری ہیلتھ اِس کمیٹی کے سیکرٹری۔ یہ بھی شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ہر سال23 مارچ کو منعقد ہونے والی فوجی پریڈ بھی منسوخ کر دی گئی۔ پاکستان میں اِس وقت کورونا وائرس کے 28 مریض کنفرم ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی جائے گی کہ وہ بھی تمام کورٹس بند کرنے کا اعلان کر دیں۔ یہ ہے کورونا وائرس جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو منجمد کرکے رکھ دیا ہے۔
قدرتی آفات کا آنا اِس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ "کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے"۔ یہ الگ بات کہ ہم اِسے سمجھ نہیں پاتے یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ اِس نئے وائرس کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوا۔ 31 دسمبر 2019ء کو چین نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کو ووہان میں نمونیا کے کئی کیسز کے حوالے سے الرٹ کیا۔ ووہان کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ 10 لاکھ ہے۔ چونکہ ووہان میں اِس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت جنگلی جانوروں کے گوشت کی مارکیٹ میں کام کرنے والوں کی تھی اِس لیے یکم جنوری 2020ء میں اِس مارکیٹ کو بند کر دیا گیا۔ شروع شروع میں یہ خیال کیا گیا کہ یہ وہی سارس وائرس ہے جس سے 2002ء اور 2003ء کے دوران دنیا بھر میں 770 افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن بعد میں اِس خیال کو مسترد کر دیا گیا کیونکہ نئے پیدا ہونے والے وائرس کی نوعیت مختلف تھی۔ 7 جنوری 2020ء کو چینی حکام نے اعلان کیا کہ یہ وائرس کورونا وائرس کی فیملی کا حصّہ ہے۔ شروع میں اِس وائرس کا تعلق سؤروں سے جوڑا گیا۔ پھر خیال کیا گیا کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے پھیلالیکن اب چینی سائنسدانوں کی غالب اکثریت نے پینگولن نامی جانور کو کورونا وائرس کی وجہ قرار دے دیا ہے۔ پینگولن کو اُردو میں "چیونٹی خور" کہا جاتا ہے۔ یہ پوٹھوہار اور چکوال کے علاقے میں عام پایا جاتا ہے۔ چینی اِسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ چین اِس جانور کو مختلف ممالک سے درآمد کرتا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جب چینی سائنسدانوں نے پینگولن کے جینیاتی مواد کا کورونا وائرس سے موازنہ کیا تو پتہ چلا کہ دونوں میں 99 فیصد اشتراک ہے۔ اِسی لیے چینی سائنسدان متفق ہیں کہ یہ وائرس پینگولن کی وجہ سے ہی پھیلا ہے۔
11 جنوری 2020ء کو چین میں پہلی موت واقع ہوئی۔ 13 جنوری کو تھائی لینڈ میں کورونا وائرس کا ایک مریض سامنے آیا اور 16 جنوری کو جاپان میں پہلا مریض رپورٹ ہوا۔ اِس کے بعد یہ وائرس اتنی تیزی سے پھیلا کہ اِس پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے جن میں سے ساڑھے چار ہزار سے زائد جاں بحق ہوئے۔ اِس وقت چین اِس وائرس پر مکمل قابو پا چکا ہے(چینی حکومت نے محض 10 دنوں میں 10 نئے ہسپتال کھڑے کر دیئے)۔ اٹلی اور ایران میں یہ وائرس اب بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اب اٹلی میں اِس وائرس کے مریضوں کی تعداد چینی مریضوں سے بڑھ چکی ہے۔ چین میں 67 ہزار مریض صحت یاب ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں جبکہ صرف 13 ہزار مریض باقی ہیں۔ اُس کے مقابلے میں اٹلی میں 14900 سے زائد مریض اِس وائرس میں مبتلاء ہیں۔ یہ وائرس امریکہ میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ امریکہ نے اِس آفت کے حل کے لیے 20 ارب ڈالر مختص کر دیئے، یورپ کی فلائیٹس پر پابندی عائد کر دی اور اب امریکہ، برطانیہ کی فلائیٹس پر پابندی عائد کرنے کا سوچ رہا ہے۔ سعودی عرب میں "لاک ڈاؤن" کی سی کیفیت ہے، عمرے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، صحنِ کعبہ میں کسی کو طواف کی اجازت نہیں۔ سعودی عرب نے بہت سے ممالک کی فلائیٹس بند کر دی ہیں۔ حکومتی اعلان کے مطابق سعودی عرب کا اقامہ رکھنے والوں کو سعودی عرب چھوڑنے یا داخل ہونے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی گئی ہے۔ اِس کے بعد کسی کو نہ سعودیہ چھوڑنے کی اجازت ہو گی نہ داخل ہونے کی۔ کِس کِس ملک کا ذکر کریں، یہاں تو پوری دنیا دہشت گردی کی زَد میں ہے۔ معیشت کا پہیہ جام ہو چکا، سٹاک مارکیٹس کریش کر چکیں، تیل کی قیمتیں آدھی رہ گئیں، مختلف ممالک کی طرف سے فلائیٹس بند ہونے کی بنا پر ایئرلائینزشدید مندی کی زَد میں اور بہت سے طیارے گراؤنڈ ہوچکے۔
میڈیکل تحقیق تاحال اِس معاملے میں بے بَس اور کسی کو اِس بیماری کی سمجھ نہیں آرہی۔ فی الحال اِس وائرس کی کوئی میڈیسن دریافت نہیں ہو سکی اِس لیے تھک ہار کرطبی ماہرین نے احتیاط پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔ میڈیسن نہ ہونے کی بنا پر "ٹوٹکے" بیچنے والے نیم حکیم اپنی پٹاریاں کھولے اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ پیاز کھانے سے کورونا وائرس ختم ہو جاتا ہے تو کوئی دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہنے لگا کہ چائے کے ساتھ کچا ادرک چبانے سے یہ وائرس بھاگ جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ہاتھوں کو بار بارصابن سے مَل مَل کر دھونے سے اِس وائرس کا اثر ختم کیا جا سکتا ہے اِس لیے اب ساری قوم باتھ روموں میں پائی جاتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ کسی سے ہاتھ نہ ملایا جائے اِسی لیے یورپ میں لوگ ہاتھ ملانے کی بجائے کہنیوں سے کُہنیاں ٹکراتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ لوگ اپنے چہروں پر ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔ سوال مگر یہ کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ ۔ انسان دن میں پتہ نہیں کتنی بار غیرارادی طور پر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے، خصوصاََ مولانا حضرات جتنی دیر تک دِن میں چالیس پچاس مرتبہ اپنی داڑھی کو "سہلا" نہ لیں، اُنہیں چین نہیں آتا۔ عرض ہے کہ "دوا" سے مفر ممکن نہیں لیکن اگر دوا کے ساتھ "دُعا" کے لیے بارگاہِ ربی میں گڑگڑاتے ہوئے ہاتھ بلند کر لیے جائیں تو اِس میں حرج ہی کیا ہے؟ ۔
اُدھر پوری دنیا کورونا کی دہشت گردی کا شکارلیکن اِدھر ہمارے حکمرانوں کو اپوزیشن کو رگڑا دینے اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے سے فرصت نہیں۔ پاکستان کے معروف میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کی نیب کے ذریعے گرفتاری انہی پابندیوں کا شاخسانہ ہے۔ غالب اکثریت کا یہی خیال کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری وزیرِاعظم کے حکم پر عمل میں لائی گئی کیونکہ وزیرِاعظم صاحب میر شکیل الرحمٰن کو اِس قسم کی دھمکیاں پہلے بھی دے چکے ہیں۔ معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیرِاعظم کا احتساب کا نعرہ ہے اور وہ کرپشن فری پاکستان چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ کچھ عناصر نے قانون کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت کے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، قانون کی نظر میں کوئی مقدس گائے نہیں، میر شکیل الرحمٰن اور جنگ جیوگروپ کو چاہیے کہ حکومت پر تیر برسانے کی بجائے اپنی بے گناہی کے ثبوت عدالت میں پیش کرے۔ فردوس عاشق اعوان کے فرمودات سر آنکھوں پر لیکن حالات وواقعات اِس کی گواہی دینے سے قاصر۔ نیب سے سوائے حکمرانوں کے اعلیٰ عدالتوں سمیت سبھی نالاں کہ وہ بندہ پہلے پکڑتی ہے اور ثبوتوں کی تلاش بعد میں کرتی ہے جس میں وہ ہمیشہ ناکام ہی رہتی ہے۔ اِس سے پہلے نیب کون سے ثبوت پیش کرکے ملزمان کو سزا دلوا چکی ہے؟ ۔ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ کو بغیر ثبوتوں کے کیوں پابندِسلاسل کیا گیا؟ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تمام معزز کورٹس نیب کے گرفتار شدہ ملزمان کی دھڑادھڑ ضمانتیں لے رہی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی مخصوص پروگرام کے تحت میڈیا پرسنز اور اپوزیشن رَہنماؤں کو کچھ عرصے کے لیے منصۂ شہود سے غائب کر دیا جائے تاکہ حکمرانوں کو کھُل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ ہم میڈیا پر بے جا پابندیوں اور پکڑ دھکڑ کی مذمت کرتے ہیں۔