شنید ہے کہ حکومت 11 جون کو بجٹ پیش کر رہی ہے۔ اِس بجٹ کے بعد سیاسی جماعتیں 2023ء کے عام انتخابات میں مصروف ہو جائیں گی۔ اگر حکومت نے عوام کی اشک شوئی کے لیے کوئی حربہ استعمال کرنا ہے تو اِسی بجٹ میں کر سکتی ہے۔ اِس لیے تحریکِ انصاف کی یہی کوشش اور خواہش ہوگی کہ اِس بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے تاکہ اگلے انتخابات میں عوام کو دکھانے کے لیے اُس کے دامن میں کچھ تو ہو۔ سوال مگر یہ کہ حکومت عوام کو ریلیف کہاں سے اور کیسے دے گی۔ خزانہ خالی، آئی ایم ایف کا دباؤ اور کہیں سے بھی "بھیک" ملنے کے امکانات معدوم۔ ایسے میں اگر تحریکِ انصاف کے چوتھے وزیرِ خزانہ اُلٹے بھی لٹک جائیں تو "عوامی بجٹ" نہیں بنا سکتے۔ اِس لیے اُمیدِواثق ہے کہ بجٹ کے بعد وزیرِخزانہ شوکت ترین کی بھی چھُٹی ہو جائے گی۔ ہم اگر اکابرینِ تحریکِ انصاف کو یہ مشورہ دیں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ 7 مرتبہ وزارتوں کی تبدیلی کے باوجود جب کچھ بھی بَن نہیں پایا تو ایک دفعہ لیڈر ہی بدل کے دیکھ لو شاید کچھ افاقہ ہو جائے۔
خانِ اعظم نے اپنے اڑھائی سالہ دَورِحکومت میں اتنے منجن بیچے ہیں کہ اُن کا نام گینیزبُک میں آنا چاہیے۔ 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا منجن، بجلی 2 روپے یونٹ اور پٹرول 45 روپے لٹر کرنے کا منجن، باہر پڑے 200 ارب ڈالر واپس لا کر قرض داروں کے مُنہ پر مارنے اور بھیک نہ مانگنے کا منجن، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر خودکُشی کرنے اور ریاستِ مدینہ بنانے کا منجن۔ پروٹوکول نہ لینے، چھوٹی کابینہ رکھنے اور سائیکل پر وزیرِ اعظم ہاؤس جانے کا منجن، گورنر ہاؤسز پر بلڈوزر چلانے اور وزیرِاعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا منجن، نئی فیکٹریاں لگانے اور نیا پاکستان بنانے کا منجن، غریب کو روزگار فراہم کرنے اور فری علاج کا منجن۔ سب سے بڑھ کر این آر او نہیں دوں گا اور چوروں کو نہیں چھوڑوں گا کا منجن جس نے قوم کے مُنہ میں "چھالے" ڈال دیئے ہیں۔ کرپشن کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ چکی اور ہر کَس وناکس پر عیاں ہوچکا کہ کرپشن کی تیغ یک طرفہ جس میں اپنے پاک صاف اور دودھ کے دھلے ہوئے اور اپوزیشن کرپٹ۔۔۔ کرپٹ۔۔۔ کرپٹ۔
"صاف چلی شفاف چلی" کے دَورِحکومت میں ہر روز کرپشن کا کوئی نیا سکینڈل۔ مالم جبّہ اور بی آر ٹی سکینڈلز ماضی کے دھندلکوں میں گُم ہو چکے، ایک ارب درخت لگانے کے دعوے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمدنے فرمایا کہ اُنہیں تو پشاور میں درخت نہیں صرف گردوغبار نظر آیا۔ آٹا، چینی اور ادویات سکینڈلز ابھی درمیان ہی میں لٹکے ہوئے تھے کہ اِسی دوران راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل سامنے آگیا۔ یہ سکینڈل خانِ اعظم کے اے ٹی ایمز کے گرد گھوم رہاہے۔ ظاہر ہے کہ جن اے ٹی ایمز نے خانِ اعظم پر سرمایہ کاری کی ہے، اب وہ اِس کا کئی گُنا وصول بھی کریں گے۔ اِس سکینڈل میں خانِ اعظم کے قریب ترین ساتھی زُلفی بخاری کا نام سامنے آرہا ہے۔ خانِ اعظم کا یہ معتمد پاکستانیوں کی تقدیر بدلنے کے لیے آیا اور اب اپنی تقدیر بدلنے کے چکر میں ہے۔ راولپنڈی رِنگ روڈ کے سکینڈل میں اربوں کھربوں کی کرپشن سامنے آرہی ہے جس میں وزیرِاعظم کے کئی قریبی ساتھیوں کے نام بھی ہیں۔ اگر اِس سکینڈل کی غیرجانبدارانہ انکوائری کی گئی تو لوگ باقی تمام سکینڈلز کو بھول جائیں گے کیونکہ "ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں"۔
بات اب خانِ اعظم کے کَٹوں، وَچھوں، انڈوں اور مُرغیوں جیسے چیخ چِلی کے منصوبوں سے کہیں آگے نکل چکی۔ اب اُن کے گرد گھیرا ڈالے منصوبہ ساز اربوں کھربوں کے ٹیکے لگا رہے ہیں اور حالت یہ کہ "کَس نَمی پُرسد کہ بھیا کون ہو"۔ خود خانِ اعظم اِن اے ٹی ایمز کو بچانے کی فکر میں غلطاں وپیچاں لیکن "پنبہ کجا کجا نہم" کے مصداق خانِ اعظم کس کس کو بچائیں گے۔ جہانگیر ترین گروپ کے 40 ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی کا جادو سَر چڑھ کے بول رہا ہے۔ اِدھر سابق ڈی فیکٹو وزیرِاعظم جہانگیرترین سیاسی بساط پر خانِ اعظم کو شہ مات دیتے جا رہے ہیں اور اُدھر خانِ اعظم کے بزرجمہروں کی حماقتیں ہی حماقتیں۔ ترین گروپ کے دباؤ پر احمقانہ قدم یہ اُٹھایا گیا کہ سینیٹر علی ظفر کو اُس کیس کی انکوائری کا فریضہ سونپا گیا جس کی پہلے ہی ایف آئی اے نہ صرف انکوائری کر رہا ہے بلکہ جہانگیر ترین اور اُس کے بیٹے علی ترین کے خلاف 2 ایف آئی آرز بھی کَٹ چکیں۔ خانِ اعظم کے اِس فیصلے کے بعد ایف آئی اے کی کارکردگی پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر سب کچھ خانِ اعظم ہی نے کرنا ہے تو پھر تحقیقاتی اداروں کو بند کر دیا جائے۔ اگر یہ تحقیقاتی ادارے بند کر دیئے جاتے ہیں تو کم از کم کَٹوں وَچھوں سے تو کئی گُنا زیادہ آمدن ہو سکتی ہے۔
"وہ خود ہی تماشا ہیں، وہ خود ہی تماشائی" کے مصداق ترین گروپ کے راجہ ریاض نے سَرِعام کہہ دیاکہ علی ظفر انکوائری مکمل ہو چکی جس میں جہانگیر ترین کو پاک صاف قرار دے دیا گیا ہے۔ جب یہ رپورٹ وزیرِاعظم تک پہنچے گی تو سارا معاملہ کلیئر ہو جائے گا۔ طُرفہ تماشا یہ کہ جن کے خلاف علی ظفر انکوائری ہو رہی تھی، اُن کے پاس انکوائری رپورٹ وزیرِاعظم کے پاس پہنچنے سے بھی پہلے پہنچ جاتی ہے اور ترین گروپ اِس کا اعلان بھی کر دیتا ہے۔"صاف چلی شفاف چلی" دَورِ حکومت میں ایسا تو ہونا ہی تھا۔ فی الحال تو یہ رپورٹ سامنے نہیں آئی (وزیرِاطلاعات فواد چودھری کے مطابق انکوائری رپورٹ ابھی تک وزیرِاعظم ہاؤس نہیں پہنچی) لیکن اگر یہ رپورٹ راجہ ریاض کے بیان کی تصدیق کرتی ہے تو پھر کئی سوالات اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ پہلا سوال یہ کہ کیا ایف آئی اے کی انکوائریاں غلط ہوتی ہیں؟ دوسرا سوال یہ کہ قوم اِن تحقیقاتی اداروں پر کہاں تک اعتماد کر سکتی ہے؟ تیسرا سوال یہ کہ جب یہ کیس عدالت میں جائے گا تو معزز جج کس کی انکوائری پر اعتماد کریں گے، علی ظفر انکوائری پر یا ایف آئی اے انکوائری پر؟ اگر علی ظفر انکوائری پر اعتماد کر لیا جاتا ہے تو پھر اِن تحقیقاتی اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آخری اور چُبھتا ہوا سوال یہ کہ اگر عدالت نے خانِ اعظم سے استفسار کر لیا کہ اُنہوں نے کس قانون کے تحت علی ظفر کو انکوائری آفیسر مقرر کیا ہے تو اُن کے پاس کیا جواب ہوگا؟
شنید ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کو ایسے ہی "لولی پاپ" دے کر بجٹ منظور ہونے تک ٹالا جائے گاکیونکہ بغاوت کی صورت میں آمدہ بجٹ پاس ہونے کے چانسز بہت کم رہ جاتے ہیں۔ گویا پروگرام یہ کہ بجٹ کے بعد یوٹرن اور پھر ترین گروپ کی شامت ہی شامت۔ ابھی ترین گروپ پر ہاتھ اِس لیے بھی نہیں ڈالا جارہا کہ میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز جیل سے باہر آچکے ہیں۔ شہبازشریف کو ملک سے باہر جانے سے روکنا حکومت کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ میاں صاحب نے اپنے عشائیے میں پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کے تمام پارلیمانی لیڈرز کو مدعو کیااور اُن کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آمدہ "عوام دشمن بجٹ" کی بھرپور مخالفت کی جائے اور اگر ممکن ہوسکے تو بجٹ منظور نہ ہونے دیا جائے۔ اُدھر مولانا فضل الرحمٰن نے بھی پی ڈی ایم کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے 29 مئی کو اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ میاں شہبازشریف بھی 28 مئی کو مولانا سے دوسری ملاقات کر چکے۔ اِن حالات میں جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ کھلی مخاصمت حکومت کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اِسی لیے ابھی تک نہ تو انکوائری رپورٹ سامنے آئی ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی بیان۔ سبھی جانتے ہیں کہ آمدہ بجٹ کے بعد عام انتخابات کی گہماگہمی شروع ہو جائے گی۔ اگر تحریکِ انصاف کی حکومت عام انتخابات تک قائم بھی رہتی ہے تو سوال یہ ہے کہ اب خانِ اعظم کون سا "منجن" بیچیں گے؟