رَبِ لَم یَزل نے تخلیقِ کائنات کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا "سارا کمال اِس میں نہیں کہ تم اپنا رُخ مشرق کی جانب کرو یا مغرب کی جانب بلکہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دِن پر، فرشتوں پر، کتبِ سماویہ پر اور پیغمبروں پر۔ وہ مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے حاجت مند رشتے داروں کو، نادار یتیموں کو، غریب محتاجوں کو، بے خرچ مسافروں کو، لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو" (سورۃ البقرہ 177)۔ رَبِ کریم خدمتِ خلق پر صرف کرنے والوں کے خرچ کو اپنے ذمے قرضِ حَسنہ قرار دیتا ہے اور اُسے کئی گُنا بڑھا کر واپس کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک خدمتِ خلق میں اوّلیت علم کو حاصل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اُس کو جاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں جو پہلا لفظ نازل ہوا وہ "اِقراء" ہے۔ سورۃ مجادلہ میں ارشادِ ربانی ہے "وہ جنہیں علم دیا گیا اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے گا"۔ سورۃ زمر میں یوں ارشاد ہوا "کہہ دیجئے کیا برابر ہو سکتے ہیں اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہو سکتا ہے اندھیرا اور اُجالا"۔ اِس کے علاوہ قُرآنِ حکیم میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں عالم اور جاہل کا فرق واضح کیا گیا ہے۔ مسجدِ نبوی م کی پہلی درسگاہ اصحابِ صفہ پر مشتمل تھی اور نبیٔ مکرم ﷺ اُن کے معلم، جس سے علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
وطنِ عزیز میں تعلیم وتعلم کی حالت دگرگوں۔ یہاں دو قسم کی درس گاہیں ہیں، پہلی قسم حکومتی درسگاہوں کی ہے جن کی طرف حکومتِ وقت کی سرے سے کوئی توجہ ہی نہیں اور دوسری قسم میں پرائیویٹ درسگاہیں شامل ہیں جنہیں بِلا خوفِ تردید علم فروشی کے اڈے کہا جا سکتا ہے۔ عام آدمی تو اِن درسگاہوں میں بچوں کو داخل کروانے کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اِس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ سرزمینِ وطن لازمۂ انسانیت سے تہی ہو چکی۔ حقیقت یہی کہ آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی مگر "ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں "۔ میں ذاتی طور پر درسگاہوں کے ایک ایسے ٹرسٹ کو جانتی ہوں جو پاکستان کے دوردراز علاقوں تک پھیلا ہوا ہے اور بعض مقامات تو ایسے کہ جہاں ہم جیسے لوگوں کا پہنچنا بھی محال ہے۔ نام اِس کا
"غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ" ہے جو ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عامر محمود کی زیرِ نگرانی گزشتہ 26 سالوں سے محیرالعقول کارنامے سرانجام دے رہاہے۔ سیّد عامر محمود نے پاکستان کے پسماندہ دیہی علاقوں کے کم وسیلہ خاندانوں کے بچوں کے لیے فروغِ علم کا جو خواب دیکھا، آج پوری رعنائیوں کے ساتھ اُس کی تعبیر سامنے ہے۔ اِس ٹرسٹ کے تحت پاکستان کے 35 اضلاع کے دیہاتوں میں 650 سکول قائم کیے جا چکے ہیں جن میں تعلیم وتعلم کی بھرپور سرگرمیاں جاری ہیں۔ اِن سکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلباء وطالبات حصولِ علم کی منازل طے کر رہے ہیں۔
مجبورومقہور اور مفلس ونادار خاندانوں کی کفالت اور اُن کے بچوں کی تعلیم وتربیت حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہاں معاملہ مگر اُلٹ کہ بے تحاشہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام کی رگوں سے نچوڑا ہوا لہو اشرافیہ کے اللوں تللوں کی نذر ہو جاتا ہے اور عوام کے لیے بچتے ہیں محض نعرے اور دعوے یا پھر یہ تلقین کہ "گھبرانا نہیں "۔ دست بستہ عرض ہے کہ "لنگرخانوں " اور "پناہ گاہوں " سے معیشت پروان چڑھنے کی بجائے نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ بھکاریوں کی تعداد بھی بڑھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 22 کروڑ عوام پر مشتمل ایٹمی پاکستان کے کتنے فیصد عوام کو اِن لنگرخانوں اور پناہ گاہوں میں سمایا جا سکتا ہے؟ یوں تو وزیرِاعظم صاحب بڑے ذوق وشوق سے اِن لنگرخانوں اور پناہ گاہوں کا افتتاح کرتے ہیں لیکن کیا کبھی اُنہوں نے سوچا کہ کسی بھی ملک میں اوّلیت تعلیم وتعلم اور صحت کو حاصل ہوتی ہے، لنگرخانوں کو نہیں۔ یہاں مگر تعلیم تجارت بن چکی اور ادویات اتنی مہنگی کہ مفلس تو کجا متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر۔ ایسے میں کیا صاحبِ ثروت اصحاب کا یہ اولین فرض نہیں ٹھہرتا کہ وہ اُن اداروں کے دست وبازو بنیں جن کی بے لوث خدمت کسی بھی سوالیہ نشان سے بالا تر ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ 45 ہزارمستحق طلباء وطالبات کی مکمل تعلیمی کفالت کے علاوہ سکول یونیفارم، کتب، کاپیاں، سکول بیگز اور سٹیشنری کی مکمل مفت فراہمی بھی کر رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سردیوں اور گرمیوں کی مناسبت سے مفت کپڑوں کی فراہمی بھی ٹرسٹ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ یہ کارنامہ بھی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے سرانجام دیا کہ عام بچوں کے ساتھ ساتھ نظرانداز خصوصی بچوں کی تعلیمی کفالت اور بحالی کا انتظام بھی کیا۔ ٹرسٹ کی صبح ومسا سعیٔ مسلسل سے سینکڑوں بچے نارمل زندگی کی طرف لوٹ چکے اور لگ بھگ ایک ہزار سپیشل بچے بحالی کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں ٹرسٹ نے اِن سپیشل بچوں کے والدین کے ساتھ کونسلنگ کا بھی بھرپور انتظام کر رکھا ہے۔
مارچ 2020ء سے کورونا کی وباء کسی بلائے ناگہانی کی طرح وطنِ عزیز پر مسلط ہے۔ یہ محض رحمتِ خُداوندی ہے کہ کورونا کی پہلی لہر سے پاکستان کو اتنا نقصان نہیں پہنچاجتنا کہ اقوامِ عالم کو۔ حقیقت یہی کہ حکومت لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن کھیلتی رہی جس پر عوام کی غالب اکثریت نے کان ہی نہیں دھرے۔ جب وزیرِاعظم سمیت ساری اشرافیہ کو الیکٹرونک میڈیا پر "چہرہ نمائی" کا شوق ہو اور اور اِسی شوق کے ہاتھوں ٹی وی سکرینوں پر کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہوں تو پھر قوم سے ایس اوپیز پر عمل درآمد کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ کورونا کی موجودہ لہر انتہائی خطرناک ہے لیکن حکومتِ وقت کی "وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے"۔ کورونا ویکسین کا یہ حال کہ جب چین سے خیرات ملتی ہے تو ترجیحی بنیادوں پر عمررسیدہ افراد کو ویکسین لگا دی جاتی ہے۔ ابھی تک عمررسیدہ افراد کی کثیر تعداد کو بھی ویکسین نہیں لگائی جا سکی، جوانوں اورنوجوانوں کی باری نہ جانے کب آئے گی۔ شنید ہے کہ چین کورونا ویکسین کی مذید 5 لاکھ خوراکیں عطیہ کر رہاہے جو رواں ماہ ملنے کی توقع ہے۔ جب یہ خیرات ملے گی تو پھر اسد عمر سینہ تان کر کہتے نظر آئیں گے کہ حکومت عوام کو بڑی تیزی سے ویکسین لگا رہی ہے۔ اِس وقت تک تو صورتِ حال یہ ہے کہ ویکسین کے معاملے میں پاکستان دنیا کے 123 ممالک میں سے 120ویں نمبر پر ہے اور ماہرین کے مطابق اگریہی رفتار رہی تو پوری آبادی کو ویکسین لگانے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ ہماری حکومت البتہ "ڈَنگ ٹپاؤ" مہم پہ نکلی ہوئی ہے۔ اِسی ڈنگ ٹپاؤ مہم کی وجہ سے صرف اڑھائی سال میں 4 وزرائے خزانہ تبدیل ہو چکے ہیں اور باقی کابینہ کی اُتھل پُتھل کا بھی یہی عالم۔ اب تو شاید وزیرِاعظم کو بھی معلوم نہیں ہوگا کہ کس وزیر کے پاس کون سی وزارت ہے۔