سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں گورنر سندھ کی گاڑی میں ایک کُتّا پورے پروٹوکول کے ساتھ گاڑی سے تھوتھنی نکالے "حالات" کا جائزہ لیتا ہوا پایا گیا۔ بعد ازاں گورنر سندھ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا "گاڑی میں میری فیملی سوار تھی۔ پولیس موبائل پروٹوکول نہیں، فیملی کی حفاظت کے لیے تھی۔ اگر گاڑی میں کتا موجود تھا تو یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے"۔ ہو سکتا ہے کہ گورنرصاحب اپنے اِس بیان کے بعد گنگناتے رہے ہوں "روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے"۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسی تبدیلی ہے جس میں کبھی حاکمِ وقت کُتوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور کبھی گورنر صاحب کا کتا فُل پروٹوکول کے ساتھ سیر کرتا ہوا۔ دوسری طرف مایوسیوں کی "گھمن گھیریوں " میں پھنسی قوم کی حالت یہ کہ "ــفرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا۔۔۔۔ وہ کل فُٹ پاتھ پر مُردہ پڑا تھا"۔ کیا کپتان کے ہاں اشرف المخلوقات کی حیثیت کتوں کے برابر بھی نہیں؟ ۔ کیا کپتان کا یہی منشور تھا کہ قوم بھوک کے ہاتھوں خودکشیوں پر مجبور ہواور کتے عوام کی رگوں سے نچوڑے ہوئے خون پر عیش اُڑائیں؟ ۔
اقتدار میں آنے سے پہلے کپتان کے بلند بانگ دعوؤں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر اُنہیں حقِ حکمرانی ملا تو وہ ارکانِ اسمبلی کو ہرگز ترقیاتی فنڈ نہیں دیں گے کیونکہ ارکانِ اسمبلی کا کام پارلیمنٹ میں قانون سازی کرناہے، ترقیاتی کام کروانا نہیں۔ اُن کے خیال میں ارکانِ پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز دینا سیاسی رشوت تھی لیکن اب اُنہوں نے یہاں بھی یوٹرن لیتے ہوئے ارکانِ پارلیمنٹ کے لیے 50، 50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کر دیاہے۔ طُرفہ تماشا یہ کہ جس دن ترقیاتی فنڈز کا اعلان کیا گیا، اُسی دن عوام پر مہنگی بجلی کا بم گرا دیا گیا۔ گیس پہلے ہی مہنگی کی جا چکی تھی اور پٹرولیم مصنوعات تو اب ایک ماہ میں دو، دو مرتبہ مہنگی کی جا رہی ہیں۔ حکمران "بیچارے" کریں بھی تو کیا، خزانہ خالی ہے اور ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی صورت میں اپنے ساتھ جُڑے رکھنا مقصود ہے۔ ایسے میں حکمران عوام کی رگوں سے خون نہ نچوڑ کرترقیاتی فنڈز کا بندوبست نہ کریں تو کریں کیا۔
جب کسی گھر میں نوبت فاقوں تک پہنچ جائے تو گھر کے مکین ایک ایک کرکے گھر کا سامان بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ تبدیلی سرکار کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ فی الحال 47 اداروں کی نجکاری کر رہی ہے جن میں سے 19 کی نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ 2019ء میں پاکستان سٹیل مِلز، ایل این جی پلانٹس، سروسز انٹرنیشنل ہوٹل، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، ایس ایم ایز اور پاکستان ری انشورنس کمپنی سمیت 12 اداروں کی نجکاری پر کام شروع کیا گیا۔ اب نجکاری کا یہ عمل ایڈوانس سٹیج پر ہے۔ اِس کے علاوہ کچھ اداروں کو گِروی رکھنے کا پروگرام بھی ہے جن میں اسلام آباد کلب بھی شامل ہے۔ کابینہ میٹنگ میں کسی ستم ظریف وزیر نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ایوانِ صدر کو گروی رکھ دیا جائے کہ وہاں "ویہلے لوگ" کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے۔ اِس تجویز کو شاید اِس لیے مسترد کر دیا گیا کہ کل کلاں کہیں وزیرِاعظم ہاؤس کو گروی رکھنے کی تجویز بھی سامنے نہ آجائے۔ شاید وزیرِباتدبیر کے ذہن میں ہو کہ اُس کے "عظیم لیڈر" نے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ چاروں گورنر ہاؤسز اور وزیرِاعظم ہاؤس کو یونیورسٹیوں میں بدل دیا جائے گا تو پھر ایوانِ صدر کو گروی رکھنے میں حرج ہی کیا ہے لیکن اُس "بھولے پنچھی" کو کیا خبر کہ عظیم لیڈر کی سب سے بڑی خوبی یوٹرن لینا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ سڑک پر جہاں یوٹرن ہو وہاں کپتان کی تصویر لگا دی جائے، لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جہاں مہنگائی عروج پر ہو، معیشت تباہ وبرباد ہو، روپیہ "ٹکے ٹوکری" ہو اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں کرپشن 4 درجے بڑھ چکی ہو وہاں حکومت کو کیا کسی اپوزیشن کی ضرورت ہے؟ ۔ یاد رہے کہ یہ وہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ہے جس کے اقتدار میں آنے سے پہلے کپتان حوالے دیا کرتے تھے۔ یہ بھی سبھی کو یاد ہے کہ "صاف چلی شفاف چلی" کڑے احتساب کا نعرہ لگا کر ہی اقتدار میں آئی لیکن اب شفافیت "4 درجے" بڑھ چکی اور ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے حاصل کیے جا چکے۔ چلیں قرضوں کی بات چھوڑیں لیکن کیا کرپشن بھی اپوزیشن ہی کر رہی ہے جبکہ اُس کے پاس اقتدار کی طاقت بھی نہیں۔
اُدھر 4 ماہ گزرنے کے باوجود پی ڈی ایم کی تحریک کا کوئی سَرپیر نظر نہیں آتا۔ آج تک قوم کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ آخر پی ڈی ایم کی حکمت عملی کیا ہے اور ہے بھی یا نہیں۔ کہا جا رہاہے کہ موسم کی صورتِ حال کو دیکھ کر ہی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اِس 11 جماعتی اتحاد کو پہلے نہیں پتہ تھا کہ ماہِ جنوری میں موسم کس قدر شدید ہوتاہے؟ ۔ پہلے کہا گیا کہ 31 دسمبر تک استعفے اکٹھے کیے جائیں گے اور جنوری میں لانگ مارچ ہوگا جبکہ آخری آپشن استعفوں کا ہوگا۔ اب بلاول زرداری کہہ رہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد بہترین آپشن ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن یہ ماننے کو تیارہے نہ نوازلیگ۔ حقیقت یہی کہ موجودہ حالات میں تحریکِ عدم اعتماد کسی صورت میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک تو حکومت کے پاس نمبر پورے ہیں اور دوسرے مقتدر قوتیں اُن کی پُشت پر۔ اپوزیشن سینٹ الیکشن میں دیکھ چکی کہ سینٹ میں اکثریت کے باوجود چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہ ہوسکی۔ اب جبکہ اپوزیشن اکثریت میں نہیں تو پھر وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔
عجیب بات یہ کہ جس جماعت (پیپلزپارٹی) نے اے پی سی بلائی اور 11 جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، اب وہی پاؤں پیچھے کھسکا رہی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار بار بار کہہ رہے تھے کہ پیپلزپارٹی استعفوں کا آپشن کبھی استعمال نہیں کرے گی کیونکہ اُس کے پاس صرف سندھ حکومت ہی باقی بچی ہے جس سے وہ ہرگز ہاتھ دھونے کو تیار نہیں لیکن بلاول زرداری باربار بلند آہنگ سے کہتا رہا کہ اُس کے پاس ارکانِ اسمبلی کے استعفے پہنچ چکے۔ پی ڈی ایم جب کہے گی، استعفے پیش کر دیئے جائیں گے اب وہی بلاول زرداری کہہ رہا ہے کہ عدم اعتماد کا آپشن استعمال کیا جائے۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں کیوں بھول گئیں کہ بلاول بھٹو نہیں، زرداری خاندان کا چشم وچراغ ہے اور آصف زرداری نے ہمیشہ مصلحت سے کام لیاہے۔ بھٹو خاندان مزاحمت کی علامت ہے اور زرداری مصلحت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو نے جان گنوائی اور آصف زرداری نے پرویزمشرف سے رہائی پائی۔ آصف زرداری کی سیاست ہمیشہ اقتدار کے گرد گھومتی رہی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے مقتدر قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ اُنہوں نے پہلے کمال ہوشیاری سے 11 جماعتی اتحاد بنوایا اور اب مقتدر قوتوں کے ہاں قابلِ قبول بننے کے لیے پیچھے ہٹ رہے ہیں لیکن اُنہیں یاد رکھنا ہوگا کہ میاں شہبازشریف ایسی انتھک کوششوں کے باوجود اب جیل میں ہیں۔ آخر میں تحریکِ انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی خدمت میں عرض ہے۔