Thursday, 21 November 2024
  1. Home/
  2. Prof. Riffat Mazhar/
  3. Darogh Bar Gardan e Ravi

Darogh Bar Gardan e Ravi

ہم تجزیے وتبصرے کرکرکے "ہپھ" چکے مگر کسی پر ککھ اثر نہیں ہوا۔ وجہ شایدیہ کہ ہمارے پاس کوئی طوطا، مینا، کوایا چڑیا نہیں جواندر کی خبر لاسکے۔ نہ ہی ہمارے پاس کوئی سلیمانی ٹوپی ہے جسے پہن کرہم خفیہ ملاقاتوں میں گھُس سکیں۔ ہمارے لکھاری اور وی لاگرز اِس معاملے میں ماشاء اللہ خودکفیل ہیں۔ اُن کے پاس تو "پنچھیوں" کاپورا چڑیاگھر ہے۔ یہ پنچھی اُنہیں طرح طرح کی خبریں لاکر دیتے رہتے ہیں۔ ویسے یہ پنچھی ہیں بہت طرار۔ وہ اپنے لکھاریوں اوروی لاگرز کو "پیامَن بھاتی" خبریں ہی لاکر دیتے ہیں جن کی وجہ سے اُن کی روزی روٹی چلتی رہتی ہے۔

اُدھر ہم ہیں کہ آنکھوں دیکھی کانوں سُنی خبروں پرتکیہ کرکے اپنے ارسطوانہ تجزیے پیش کرتے ہیں جن کاکوئی خریدار نہیں۔ ہم نے کوشش کی کہیں سے تین چار موکل ہی ہاتھ لگ جائیں لیکن پتہ چلاکہ اُن پرتو کسی اورکی اجارہ داری ہے۔ ایک بارہم نے پکا پروگرام بنالیا کہ اب لال حویلی والے کی طرح پیشین گوئیاں کیاکریں گے کیونکہ وہ مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ پھرہوا مگر یہ کہ جب سے وہ "چِلّہ" کاٹ کے آیاہے اُسے چُپ سی لگ گئی ہے۔ اُس کی یہ حالت دیکھ کرہم نے کانوں کوہاتھ لگالیے۔

اب ہم بانی پی ٹی آئی کی طرح "آکسفورڈیے" توہیں نہیں جس نے سیاست، مذہب، سائنس، تاریخ حتیٰ کہ علم کی ہرشاخ گھول کرپی رکھی ہے۔ اگر اِس زمانے میں افلاطون اور ارسطو ہوتے تووہ بھی اُس کاپانی بھرتے نظر آتے، ہم بھلاکِس کھیت کی مولی گاجر ہیں۔ اُس کی سائنسی علوم پرگرفت اتنی کہ پاکستان کے 12موسم بناکر سائنس دانوں کی بولتی بند کردی۔

تاریخ کا مطالعہ اتنا وسیع کہ مورخین کی تصحیح کرتے ہوئے بتادیا کہ جب پاکستان معرضِ وجودمیں آیا تواِس کی آبادی 40کروڑ تھی۔ اُس کادعویٰ یہ کہ یورپ کواُس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اَسی لیے تواُس نے جرمنی اور جاپان کی سرحدیں آپس میں ملادیں۔ مذہب کے بارے میں اُس کایہ فرمان کہ دینی علم میں اگرکوئی اُس سے بڑھ کرہے توصرف اُس کی بیوی بشریٰ بیگم۔ ایسے میں بھلااُس کی ہمسری کادعویٰ کون کرسکتا ہے۔

اُس عظیم، ذہین اور فطین شخص کے بارے میں باتیں تواور بھی بہت سی ہیں لیکن ہمیں گالیاں کھانے کااتنا بھی شوق نہیں اِس لیے آگے چلتے ہیں۔ مگر آگے چلنے سے پہلے ہم یہ بتانااپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اب ہم جوکچھ بتائیں گے وہ سب "دروغ برگردنِ راوی" البتہ راوی بہت معتبر اوراُس کاکہا کبھی جھوٹ ثابت نہیں ہوا۔ یہ توسبھی جانتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 23اکتوبر کوبشریٰ بیگم کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت منظورہوئی اور 24اکتوبر کو وہ اڈیالہ جیل سے رہا ہوکر بنی گالہ پہنچ گئیں۔

25اکتوبر کووہ گھرسے نکلیں اورخیال یہ تھاکہ وہ لاہور میں اپنے گھر زمان پارک جارہی ہیں۔ ہوامگر یہ کہ وہ لاہورکی بجائے پشاور پہنچ گئیں جہاں وزیرِاعلیٰ ہاؤس کی انیکسی میں اُن کے ٹھہرنے کا انتظام ہوچکا تھا۔ بشریٰ بی بی نے ایک دن کے بعد وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کوحکم دیاکہ انیکسی میں سبزرنگ کروایا جائے اور سبز لائیٹیں لگوائی جائیں تاکہ وہ اپنے موکلوں کو متحرک کرسکیں۔ گنڈاپور نے وعدہ توکرلیا لیکن شاید اُسے موکلوں شوعکلوں پرمطلق اعتقاد نہیں تھا۔ اِسی لیے اُس نے سبزرنگ کروانے کی طرف توجہ نہیں دی۔

2دن گزرنے کے بعدرات کے 2بجے انیکسی کی سیڑھیوں پرچیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ وزیرِاعلیٰ ہاؤس کے ملازمین چیخوں کی آواز سُن کرانیکسی کی طرف سَرپَٹ ہوئے جہاں اُنہوں نے بشریٰ بی بی کوچیختے ہوئے پایا۔ راوی کی زبان میں جب ملازمین نے وجہ پوچھی تواُنہیں گالیوں سے نوازا گیا۔ یہ شور سُن کرعلی امین گنڈاپور بھی باہر آگیا۔ تب بشریٰ بی بی نے کہاکہ اُس کے موکل سیّد عاصم منیر کے موکلوں سے کہیں طاقتور ہیں لیکن وہ یہاں مطمٔن نہیں۔ اِس لیے اُس کے زمان پارک لاہور جانے کا بندوبست کیاجائے۔ 31اکتوبر کووہ لاہور پہنچ چکیں جہاں اُن کے موکل اسٹیبلشمنٹ کامقابلہ کرنے کے لیے کمربستہ ہورہے ہیں۔

اِس سے پہلے جب بانی پی ٹی آئی وزیرِاعظم تھے تب بھی بنی گالہ سے ایسی بہت سی کہانیاں باہرآتی رہیں۔ سینکڑوں زندہ مرغیاں جلانے، بنی گالہ کے اردگرد درختوں پررنگ برنگے کپڑے لٹکانے اور پتھروں پر نام لکھنے جیسی کہانیاں زبان زَدِعام تھیں۔ حقیقت یہ کہ بشریٰ بی بی کارابطہ اُس وقت کے DGISI جنرل فیض حمیدکے ساتھ تھاجو اپنے ایک کارندے کے ذریعے اُس تک خفیہ اطلاعات پہنچاتا۔

بشریٰ بی بی وہی اطلاعات اپنے موکلوں کے حوالے سے بانی تک پہنچاتیں اورجب وہ سچ ثابت ہوتیں توبانی کابشریٰ بی بی پر اعتقاد اوربھی پختہ ہو جاتا۔ اگربشریٰ بی بی کے نام نہادموکل اتنے ہی مضبوط تھے توپھر وہ جیل یاترا پر جاتیں نہ اُن کے میاں بانی پی ٹی آئی۔ یہ سب ایک ڈرامہ تھاجو بانی کواپنے بَس میں کرنے کے لیے رچایا گیا۔ اب چونکہ اِس ڈرامے کاہدایت کار جنرل فیض حمید خود گرفتارِبلا ہے اِس لیے بشریٰ بی بی وزیرِاعلیٰ ہاؤس کی انیکسی میں رہے یازمان پارک میں اُس کے موکل گھاس چرتے ہی نظر آئیں گے۔

بانی پی ٹی آئی کااعتقاد تواب بھی پختہ لیکن اُس کی بہنیں اِس فراڈکو بہت پہلے سمجھ چکی تھیں۔ اب بانی کی زندگی ہی میں اُس کی بیوی اور بہنوں کے مابین سیاسی وراثت کاجھگڑا شروع ہوچکا۔ بانی حکم دے چکاکہ چونکہ بشریٰ بی بی سیاسی سوجھ بوجھ میں طاق اورسیاسی بیانیہ بنانے میں ماہرہے اِس لیے وہ جوکہے اُس کی پیروی کی جائے۔

دوسری طرف اپنی بہنوں کے بارے میں اُس کاخیال ہے کہ وہ محض اپنے بھائی کے پیارمیں سڑکوں پرہیں۔ اسی لیے بشریٰ بی بی کاگروپ بانی کی بہنوں کو محض "شامل باجا" سمجھتا ہے جبکہ بانی کی بہن علیمہ خاں اپنے آپ کوببانگِ دہل سیاسی وارث سمجھتی ہیں، اُس کواڈیالہ جیل سے نکالنے کی فکرکسی کوبھی نہیں۔ اِس حوالے سے علی امین گنڈاپور بڑھک بازی کرتارہتا ہے۔ اب بھی اُس نے کہاکہ اگربانی کو مکمل سہولیات فراہم نہ کی گئیں تووہ اسلام آباد اُلٹ دے گا۔ اُس نے یہ بھی کہاکہ اِس دفعہ آئیں گے توبانی کو رہا کرا کر ہی لوٹیں گے۔

گنڈاپور کی یہ "تڑیاں" طشت ازبام ہوچکیں۔ پہلی دفعہ وہ آیا تو 10گھنٹوں کے لیے غائب ہوا، دوسری دفعہ خیبرپختونخوا کاسارا حکومتی سامان، ریسکیو 1122کی ایمبولینسز بمعہ عملہ، سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار، کرینیں اور ٹرک مرکزی حکومت کے حوالے کرکے "پھُر" ہوگیا اور 20گھنٹوں بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمودار ہوا۔ اِس بار اگروہ آیاتو اُمیدِ واثق ہے کہ "چِلّہ" کاٹ کرہی واپس جائے گا۔

آپس کی بات ہے کہ خود پی ٹی آئی والے بھی گنڈاپور کوفوج کامخبر سمجھتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کی تشکیل "کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا" کے مصداق تھی۔ اب اینٹیں اورروڑے بکھرچکے، یہ طے کہ کمزور بنیادوں پرکھڑی عمارت نے بالآخر گرناہی ہوتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran