ہمیں فخر ہے کہ ہمارے رَہنماء ڈرتے ورتے کسی سے نہیں اور جب بھی موقع ملا وہ ڈَٹ کر کھڑے ہو گئے، یہ الگ بات کہ ہمارے اپنے ہی "کھُنے سِک" گئے۔ جب 1971ء میں بھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا تھی تب پاک بھارت جنگ بندی کے لیے اقوامِ متحدہ کے 140 ممالک سَرجوڑ کر بیٹھے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جنرل یحییٰ خاں کے نمائندے کے طور پر سلامتی کونسل کی کارروائی میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے سلامتی کونسل میں ایک جوشیلی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری کہتے ہیں "بھارتی کتّو! کشمیر چھوڑ دو"۔ بعد ازاں اُنہوں نے پولینڈ کی جنگ بندی کی قرارداد پھاڑی اور سلامتی کونسل کے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بھٹو نے سلامتی کونسل میں جو کاغذات پھاڑے وہ پولینڈ کی قرارداد نہیں بلکہ اُن کی تقریر کے نوٹس تھے۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا لیکن یہ طے کہ بھٹو کے واک آؤٹ کے بعد سلامتی کونسل کا جنگ بندی کے لیے بلایا گیا اجلاس ختم ہوا۔ پھر16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتوں کے تمغے نوچے گئے۔ اگر بھٹو سلامتی کونسل سے واک آؤٹ نہ کرتے تو شاید جنگ بندی کی کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی۔ جنرل ضیاء الحق بھی کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے۔
80 کی دہائی میں ہونے والی افغان جنگ میں اُنہوں نے امریکی امداد کو "peanut" کہہ کر ٹھکرایا۔ تب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی اِس لیے امریکی خون کے گھونٹ پی کے رہ گئے۔ افغان جنگ میں روسی شکست کے بعد امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں اور پھر کچھ عرصے بعد ضیاء الحق کا C-130 فضاؤں میں ہی اُڑا دیا گیا۔ آج تک یہ سراغ نہیں مل سکا کہ ضیاء الحق کا طیارہ کسی سازش کے تحت تباہ ہوا یا فَنّی خرابی کی بنا پر۔ ہمارے عظیم کمانڈو جنرل پرویزمشرف کہتے تو یہی رہتے تھے کہ وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں۔ یہ الگ بات کہ وہ امریکہ کی ایک کال پر ہی "لَم لیٹ" ہو کر وہ کچھ بھی مان گئے جس کا امریکہ نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔ اُنہوں نے امریکہ کو فضائی حملوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی اورپاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرکے اُس دَور کی یاد تازہ کر دی جب غلاموں کی خریدوفروخت ہوا کرتی تھی۔ وہ کورٹ میں پیشی کی بجائے ملٹری ہسپتال میں پناہ گزیں ہو ئے۔ اِس کے باوجود بھی وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے۔
ہمارے کپتان بھی ڈرتے ورتے کسی سے نہیں۔ اُنہوں نے جب سے کاروبارِ حکومت سنبھالا ہے، اُن کی دبنگ آواز سے اپوزیشن تو ہراساں ہے ہی، امریکہ میں بھی "تھرتھلی" مچی ہوئی ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ امریکہ کو فوجی اڈوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے دیں گے؟ اُن کا جواب تھا"Absolutely not"۔ دراصل وزیرِاعظم صاحب کو امریکی صدر جوبائیڈن پر غصہ ہی بہت ہے جس نے ابھی تک خان صاحب سے ٹیلی فون پر بھی بات تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ ایسے مغرورومتکبر شخص کے لیے جواب تو یہی بنتا تھا جو خاں صاحب نے دیا، سوال مگر یہ کہ کیا ان حالات میں جب پاکستان پوری دنیا میں تقریباََ تنہا ہو چکا، یہ جواب مناسب تھا؟ دوسری بات یہ کہ اُس وقت تو امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں تھے البتہ اب وہ افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مانگ رہاہے۔ وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستانی فضائی حدود کی اجازت کا فیصلہ کابینہ کرے گی۔ حالانکہ اُن کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ اِس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ اگر سب کچھ کابینہ نے ہی کرنا ہے اور اپوزیشن کی رائے مقصود نہیں تو پھر پارلیمنٹ کو تالے لگا دیئے جائیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وزیرِاعظم نے فرمایا کہ ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑنا مشکل مگر افغانستان نے توڑ دیں۔ پہلے Absolutely not اور اب یہ بیان جس سے صاف نظر آتا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کو افغانستان میں شکست ہوئی، امریکہ کو یہ بیانات ہضم نہیں ہورہے۔ اِسی لیے اب امریکہ میں طالبان اور پاکستان کو سبق سکھانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ امریکہ میں مضبوط بھارتی لابی کے علاوہ بھارت نژاد امریکی نائب صدر کملا ہیرس بھی پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی میں شریک ہے۔ امریکی سینٹ میں ری پبلکن سینیٹرز نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کو کسی صورت تسلیم نہ کرنے اور طالبان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اِسی بِل میں پاکستان کے طالبان سے متعلق کردار کا جائزہ لے کر اُس پر بھی پابندیاں لگانے کی تجویز ہے۔ بِل میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ امریکی حکومت پاکستان، چین اور طالبان کے مقابلے میں ہندوستان کی معیشت اور دفاع کو مضبوط کرے۔
مانا کہ خان صاحب ڈرتے ورتے کسی سے نہیں لیکن ہماری حکومت تو تاحال FATF کو بھی سنبھالنے سے قاصر ہے۔ اِس کے علاوہ خودکشی کرنے کی بجائے ہم خود آئی ایم ایف کے پاس جا کر اپنی گردن امریکی شکنجے میں کسوا چکے۔ ایسے میں ہم امریکہ کا کیا خاک مقابلہ کریں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کی دوستی اچھی نہ دشمنی۔ یہ وہ جنگجو قوم ہے جو اپنی 240 سالہ تاریخ میں صرف 16 سال سکون سے گھر بیٹھی، باقی تمام عرصہ کسی نہ کسی "پنگے" میں مصروف ہی رہی۔ اِس لیے اُس سے حذر ہی بہتر کیونکہ ہم نے دینِ مبیں کے مطابق کبھی اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی سعی نہیں کی۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں امریکہ سے ڈر کر یا دَب کر رہنا چاہیے بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو امریکہ کو مشتعل کرنے کا باعث بنیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کی حالت اتنی دگرگوں کہ مہنگائی کا سونامی سب کچھ بہا کر لے جانے کے درپے۔ ڈالر جب 121 روپے کی سطح پر پہنچا تو ماہرین نے خبردار کر دیا تھا کہ دسمبر 2021ء تک ڈالر 200 روپے کی سطح عبور کر جائے گا۔ اب ڈالر 172 روپے سے بھی آگے نکل رہا ہے جس نے اشیائے ضروریہ اور خورونوش کی قیمتوں کو پَر لگا دیئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
2018ء میں جب تحریکِ انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت پٹرول کی قیمت 95 روپے فی لِٹر تھی جبکہ آج وہی پٹرول 127.80 روپے فی لٹر فروخت ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیرِتوانائی حماد اظہر کہتے ہیں کہ آج بھی اکثر ممالک سے پاکستان میں تیل کی قیمت کم ہے۔ بجا ارشاد لیکن کیا باقی ممالک میں بھی مہنگائی کا یہی طوفان ہے؟ کیا وہاں بھی گندم، چینی، دالیں اور دیگر اشیائے خورونوش دَرآمد کی جارہی ہیں؟ کیا وہاں کی حکومتوں نے بھی ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دے کر بیروزگاری کا طوفان کھڑا کیا؟ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کو بتایا کہ پاکستان میں پڑھے لکھے بیروزگار افراد کی شرح 24 فیصد اور پڑھی لکھی خواتین کی بیروزگاری کی شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ حکمرانوں کے نزدیک بیروزگاری کی یہ شرح صرف 6 فیصد ہے۔ پہلے حکمران کٹے، وَچھے، انڈے اور مرغیاں پال کر معیشت کی بحالی کے منصوبے باندھ رہے تھے، اب بھنگ کی کاشت سے اربوں ڈالر کمانے کا منصوبہ سامنے آگیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر شبلی فراز نے بھنگ کی کاشت کے منصوبے کا باقاعدہ افتتاح بھی کر دیا اور کلیام کے علاقے میں ایک ایکڑ پر بھنگ کاشت بھی کردی گئی۔ بہتر یہی ہے کہ بھنگ کو برآمد کرنے کی بجائے پوری قوم کو "بھنگ گھوٹنے" پر لگا دیا جائے تاکہ قوم بھنگ پی کر سوئی رہے اور حکمران مَن مرضی کرتے رہیں۔